Episode 26 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 26 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۲۴)
وہ بوڑھا بدمعاش مجھ سے بڑا کوٹ چھین کر لے گیا چھین کر اس لئے کہ میں نے اسے وہ برضا ورغبت نہ دیا تھا۔ اس کی بجائے یہ بدنما اور بدبو دار چیتھڑا دے گیا ہے جس کی شکل سے ہی مجھے نفرت ہے۔ اس ہیئت کذائی میں لوگ مجھے کیا سمجھیں گے میں نے وہ کوٹ خیرات کے طور پر نہ دیا تھا۔ صرف اس لیے کہ وہ مجھ سے طاقتور تھا مجھ سے کہیں زور آور تھا۔
اگر میں کوٹ دینے میں پس وپیش کرتا تو وہ یقینا مجھے کاٹتا، میری بوٹیاں نوچ ڈالتا۔ یہ ہے ناتواں اور طاقتور میں فرق۔ آج اُسے ایک موقع مل گیا، اور اسنے اس سے فائدہ اٹھالیا شاید وہ اس سے خوش ہوگیا ہو۔
مگر! مگر! وہ کچھ بھی ہو میں حیران ہوں کہ آخر یہ ذلت میں نے برداشت کس طرح کی، اگر وہ اب میرے سامنے آئے تو میں اسے پاؤں تلے روند ڈالوں ، کھا جاؤں ظالم! سفّاک! کمینہ!
میرے دل میں غصہ وانتقام کی لہر دوڑ رہی ہے۔

(جاری ہے)

جیل خانہ خصوصاً سزائے موت ایسا ہیبت ناک خیال آدمی کو چڑ چڑا اور غصیل بنا دیتا ہے۔
(۲۵)
مجھے انہوں نے اس بدنما کوٹھری میں دھکیل دیا ہے جس کے اندر مجھے سوائے مرطوب دیواروں یالوہے کی بڑی بڑی سلاخوں کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
میں نے کُرسی ومیز اور لکھنے کا سامان مانگا۔ وہ مجھے دیدیا گیا۔ مگر جب میں نے بستر کے لیے درخواست کی تو وہ حیران ہوگئے۔
آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔ مگر بہت غوروخوص کے بعد وہ بستر اور چارپائی لے آئے۔ مگر کیا دیکھتا ہوں، کہ بسترے کے ساتھ ہی اور شخص بھی چلا آرہا ہے۔ یہ میری جان کامحافظ ہے انہیں ڈر ہے کہ کہیں میں بستر ے کی چادر سے اپنا گلا نہ گھونٹ لوں!

(۲۶)
اب دس کا عمل ہے۔
آہ! میری پیاری بچی صرف چھ گھنٹے کا قلیل عرصہ باقی ہے۔
اس کے بعد میں مرجاؤں گا۔بالکل بے ہوش اور غافل ہوں گا۔ میرا جسم کسی ہسپتال کی ٹھنڈی میز پر پڑاہوگا۔ ایک فریق کے پاس میرا سر ہوگا، او ر دوسرے کے پاس میرا دھڑ، جس پر بہت بے رحمی سے عمل جراحی کیا جائے گا، اور جب وہ کسی کام کا نہ رہے گا تو کسی گڑھے کے سپرد کردیا جائے گا۔
تیرے والد کے ساتھ یہ حالت ہوگی، میری! کیا سنتی ہو۔ تیرے پیارے والد کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک کیا جائے گا ان اشخاص کے ہاتھوں سے یہ چیزیں عمل میں آئیں گی جو مجھے رحم کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، جن کی میرے ساتھ کوئی عداوت نہیں جو مجھے موت سے بچاسکتے ہیں۔
وہی اب موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ سر قلم کر رہے ہیں۔ صرف اس خاطر کہ دوسروں کے لیے نظریہ عبرت ہو۔ آہ! میرے خدا! بھولی لڑکی! تیرا باپ تجھے جان سے زیادہ عزیز سمجھتا ہے جو تیری ننھی سی سپید گردن کو ہر روز بوسہ دیاکرتا، جو بڑے شوق سے تیرے گھنگریالے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کیاکرتا، اور جوتجھے اپنے گھٹنوں پر بٹھلا کرتیرے ساتھ پہروں کھیلا کرتا۔
آج کچھ عرصہ کے بعد بے جان ہوگا۔ تو اسے ہمیشہ کے لیے کھو دے گی۔ اس کی گود سے محروم کردی جائے گی۔ پھر تیرے لیے یہ سب کچھ کون کرے گا؟ تیرے ہم عمر بچوں کے باپ ہوں گے مگر تو یتیم ہوجائے گی۔ تجھے عید کے تحفے اور خوشنما کھلونے کون لاکردے گا؟ ہونے والی یتیم لڑکی! تو بغیر باپ کے کس طرح جی سکے گی۔
آہ! اگر تجھے جیوری کے ارکان ایک دفعہ دیکھ لیتے تو میرے جگرکے ٹکڑے وہ تیرے ساتھ کبھی اتنا ظلم نہ کرتے، وہ سمجھ لیتے کہ تین سالہ معصوم بچی کے باپ کو مارنا واقعی ظلم ہے۔
”جب میری بیٹی بڑی ہوجائے گی۔ تو اس کا کیا حال ہوگا؟
اس کے باپ کا نام بچہ بچہ کی زبان پر ہوگا، لوگ اسے قاتل اور مجرم کے نام سے پکاریں گے۔ جب وہ میری نسبت ایسے دل شکن الفاظ سنے گی۔ تو لازماً شرمائے گی، سوسائٹی اسے حقارت کی نظروں سے دیکھے گی۔ صرف میری خاطر ، اس باپ کی خاطر جو اسے جان سے زیادہ عزیز جانتا تھا، اسے اتنی ذلت برداشت کرنی پڑے گی۔
آہ! میری پیاری میری! کیا یہ سچ ہے کہ تو میرے نام سے نفرت کرے گی۔“
میرا نام لیتے وقت شرم محسوس کرے گی۔
اُف! کیا یہ سچ ہے کہ مجھے آج شام مرنا چاہیے۔
کیا وہ بدنصیب شخص میں ہی ہوں؟ کیا یہ شوو غوغا جو اس وقت میرے کانوں کوسنائی دے رہا ہے ان تماشائیوں کا ہے جو میرا سر قلم ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
کیا مجھے …… جو اس وقت اچھا بھلا کرسی پر بیٹھا ہوں، آزادانہ سانس لے رہا ہوں، جس کے کپڑے سامنے لٹک رہے ہیں، آج شام کومرجانا ہے۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto