Episode 28 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 28 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

میں اٹھا اورادب سے جواب دیا۔ مقدس باپ مجھے کچھ عرصہ کے لیے تنہائی میں رہنے دیجیے، میں اس کے لیے جناب سے معذرت چاہتا ہوں۔
”تو پھر میں کب واپس آؤں؟“ اس نے دریافت کیا۔
اس پر وہ خاموشی کے ساتھ سپید سر ہلاتا ہوں باہر چلا گیا۔ غالباً وہ اس وقت اپنے دل میں یہی کہہ رہا ہوگا۔ ”کافر ہے۔“
گو میں اس ذلت آمیز حالات میں زندگی بسر کر رہاں ہوں … لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوں۔
مگر میرا خدا گواہ ہے کہ مجھے اس کی بزرگ ہستی پر ایمان ہے۔ مگر آہ! اس بوڑھے آدمی نے میرے ساتھ کس پیرایہٴ میں وعظ ونصیحت کی؟
اس وعظ ونصیحت میں نام تک کا اثر نہ تھا … جو میری آنکھوں سے ایک قطرہ اشک نہ لا سکی … جس کے کسی لفظ نے میرے دل میں جگہ نہ پکڑی۔ ساون بھادوں کی بارش تھی، جو صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر چند منٹ پانی برسا کر اس کو ویسے ہی پیاسا چھوڑ گئی … رٹی ہوئی جسارت جسے وہ ایک ہی سانس میں کہہ گیا۔

(جاری ہے)

حالانکہ اس کے برعکس اس کی وعظ موٴثر اور پرمغز ہونی چاہیے تھی۔ جو سخت سے سخت آدمی خوفناک سے خوفناک قاتل کے دل میں فوراً جگہ کرلیتی جو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تانتا باندھ دیتی۔
”مگر وہ ایک رٹا ہوا سبق تھا، جو اس سے قبل ہزار مرتبہ سنایا جاچکا تھا۔ اس کی آنکھوں، اس کی آواز اس کے حرکات وسکنات سے وہ چیز ہویدا نہ تھی جس کا میں متوقع تھا۔
اس کا وعظ موٴثر ہو تو کیونکر، و ہ جیل کا پادری ہے۔ جسے ہر روز وہی سبق قیدیوں کو سنانا پڑتا ہے۔ وہ اس طرح بسر اوقات کر رہا ہے۔ قید خانہٴ زندان کی تاریک اور مرطوب کوٹھریاں اس کی روز مرہ کی گزر گاہیں ہیں، عمر قیدی سزائے موت یافتہ اس کے لئے دو متضاد چیزیں نہیں۔ کاش وہ میری خاطر ایک ایسے پادری کو لائیں جس کے دل میں مجھ بدنصیب کا درد ہو۔
وہ اس کے پاس بغیر کسی اطلاع دئیے جائیں اور کہیں پادری صاحب چلئے آپ کی ایک گنہگار کے لئے ضرورت ہے جو اپنے گناہ بخشوانا چاہتا ہے۔ آپ کو اس وقت موجود ہوناہوگا جس وقت وہ اس کے ہاتھ رسیوں سے باندھیں گے۔ اس خونی منظر میں بھی آپ کی موجودگی ضروری ہے جب اس کو گلا کاٹنے والے چبوترہ پر لٹکایا جائے گا۔ آپ کو اس کا سر قلم ہونے سے پیشتر اس کے ساتھ بغل گیر بھی ہونا ہوگا۔
یہ کہہ کر وہ اگر اسے میرے پاس لائیں، اس حالت میں کہ اس کا دل فرط غم سے دھڑک رہا ہو۔ سر سے پاؤں تک کانپ رہا ہو، تو میں اس کے مقدس بازوؤں میں اپنے آپ کو گرادوں۔ گھٹنوں پر کھڑا ہوجاؤں، حتیٰ کہ اپنا سر اس کے قدموں پر رکھ دوں وہ میری حالت پر آنسو بہائے زارو زار روئے۔ میں بھی اشک بہاؤں ہم دونوں مل کر خوب روئیں …… اس طرح میرے تمام گناہ آنکھوں کے راستے بہہ نکلیں گے۔
مجھے وہ اطمینان قلب جس کی مجھے عرصہ سے آرزو ہے نصیب ہوجائے گا۔
میں نے غلطی کی ہے۔ اگر میں نے پادری کی شان میں کوئی گستاخانہ کلمہ استعمال کیا اس حالت میں جب کہ وہ پاک اور نیک ہو اور میں … گنہگار … ایک انسان کا قاتل جو کچھ بھی پادری کے متعلق کہہ چکا ہوں، اس کے ذمہ دار مجھے مت گردانیے۔ موت خصوصاً ایسی دہشت ناک موت انسان کو ایسا کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
وہ ابھی میرا کھانا لائے ہیں۔ بہت ہلکی اور زود ہضم اشیاء ہیں۔ اس کا ذمہ دار مجھے موت گردائیے۔ موت خصوصاً ایسی وحشت ناک موت انسان کو ایسا کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
وہ ابھی میرا کھانا لائے ہیں، بہت ہلکی اور زود ہضم اشیاء ہیں میں نے اُنہیں کھانا چاہا۔ مگر پہلا لقمہ اٹھاتے ہی مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میں زہر کھا رہا ہوں۔
…… میں نے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto