Episode 29 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 29 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۳۱)
ایک آدمی ابھی ابھی میرے کمرے کے اندر آیا اور دیوار کے پتھروں کو ناپنا شروع کردیا۔ جب میں نے محافظ سے دریافت کیا کہ وہ شخص کون ہے تو معلوم ہوا کہ وہ جیل کا معمار ہے۔
وہ اپنے کام میں مشغول تھا۔ اسے ہماری موجودگی کا بالکل علم نہیں، اس کا غیر معمولی انہماک میرے لئے ایک قسم کی دلچسپی پیدا کر رہا ہے۔
اپنے کام کے دوران میں، اس نے ایک دفعہ اپنے سر کو ہلکی سی جنبش دیتے ہوئے میری طرف نگاہیں اٹھائیں، مگر فوراً ہی کچھ بڑبڑاتے ہوئے ناپنے میں مشغول ہوگیا۔
اپنے کام سے فراغت پا کر وہ میری طرف آیا اور بلند آواز میں کہنے لگا۔ ”میرے اچھے دوست! چھ ماہ کے بعد اس قید خانہ کی حالت درست ہوجائے گی مگرافسوس ہے کہ آپ اس تبدیلی کو نہ دیکھ سکیں گے۔

(جاری ہے)

میرے بوڑھے محافظ نے اس کا جواب یوں دیا۔ ”جناب! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پھانسی کی کوٹھری میں بلند آواز سے گفتگو کرنا منع ہے۔“
معمار چلا گیا اور میں
میں ان بے جان پتھروں میں سے ایک پتھر کی طرح جن کی وہ پیمائش کر رہا تھا پڑا رہا
(۳۲)
وہ آئے اور اس بوڑھے محافظ کی جگہ ایک اور آدمی متعین کرگئے میں اپنے خیالات میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ اسے الوداع کہنا بھول گیا۔
اس پیر مرد کے قائم مقام کے بشرہ سے جہالت اور حماقت کے آثار نمایاں ہیں میں اس کے بارے میں صرف یہی رائے قائم کرسکا۔ کیونکہ اب پھر انہی ہولناک خیالات میں محو ہوگیا ہوں اور سر کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کرسی پر بے جان مورت کی طرح بیٹھا آنے والے حادثہ کے متعلق سوچ رہا ہوں۔
اچانک کاندھے پر کسی ہاتھ کو محسوس کیا۔ مڑ کردیکھا تو اپنے محافظ کو کھڑا پایا۔
”مجرم! کیا تمہارے پہلو میں حسّاس دل ہے۔“ اس نے مجھے مجرم کے نام سے پکارتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔“
اسے اس نوعیت کے جواب نے جس کا وہ کسی حالت میں بھی متوقع نہ تھا چونکا دیا۔ اس لئے ہچکچاتے ہوئے کہنے لگا۔ ”انسان اس قدر بے رحم نہیں ہوتا جتنا وہ اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔“
”کیوں نہیں! اگر تمہیں اسی قسم کی گفتگو کرنی ہے تو میں کہوں گا کہ مجھے تنہائی میں ہی رہنے دو۔
”آخر اس گفتگو کا مطلب۔“
مجرم! دولت اور خوشی۔ یہ دونوں چیزیں میری غلام ہوسکتی ہیں۔ مگر تمہارے ذریعے سے دیکھو میں ایک غریب محافظ ہوں۔ تنخواہ اتنی قلیل ہے کہ میرا گزران مشکل ہوتا ہے۔ اسی خاطر میں نے کئی دفعہ لاٹری کی ٹکٹیں خریدکر اپنی قسمت آزمائی کی، مگر بے سُود۔ اگر 23 نمبر کا ٹکٹ خریدتا تو 24 کا انعام حاصل کرلیتا اس سے رہی سہی پونجی بھی تباہ ہوگئی۔
اب صرف ایک ذریعہ باقی ہے جس کا تمام تر انحصار تمہاری مہربانی پر موقوف ہے۔
تمہیں آج تختہٴ دار پر لٹکنا ہے۔ یہ ایک مسلّم امر ہے کہ جو شخص بھی اس طرح جان دیتا ہے اسے مرنے کے بعد لاٹری کے ان ٹکٹوں کے نمبر جنہیں انعام پانا ہوتا ہے معلوم ہوجاتے ہیں۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ کل شب تمہاری روح مجھے ان ٹکٹوں کے نمبر بتا دے گی۔ یہ معمولی سی بات ہے جب کہ میں بھُوتوں سے خائف نہیں ہوں۔
میرا پتہ بھی بطور یادداشت رکھ لو۔ ویسے بھی تم مجھے پہچان سکو گے۔ کیا نہیں؟
اس خرافات کے جواب میں نے کچھ اور ہی دیا ہوتا۔ مگر اسی وقت میرے دل میں امید کی ایک موہوم سی کرن پیدا ہوگئی … موجودہ حالت میں ایسی امیدوں کا پیدا ہونا باعث تعجب نہ تھا۔
سنو! میں تمہیں اس سے زیادہ امیر کبیر بناسکتا ہوں۔ مگر صرف ایک شرط پر، میں نے اسے کہا۔
اس پر اس کی آنکھیں فرط حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ”کیا! کیا! وہ شرط کیا ہے۔“ اس نے چلاتے ہوئے کہا۔
”میرا کوٹ تم پہن لو۔ اور اپنا کوٹ مجھے دیدو۔“
”صرف اتنی سی بات!“ اس نے کوٹ کے بٹن اتارتے ہوئے کہا، میں کرسی سے اٹھا اور اس کی حرکات دھڑکتے ہوئے دل سے مطالعہ کرنے لگا۔ میں نے ابھی سے یہ تصور باندھ لیا کہ جب میں نے اس محافظ کی وردی پہنی ہوگی تو جیل کے تمام دروازے میرے لئے کھلے ہوں گے۔
اور پھر میں اس منحوس جگہ سے کوسوں دور ہوں گا۔ لیکن وائے حرستا! وہ اچانک میری طرف مڑا اور کہنے لگا۔
”لیکن! کیا یہ کوٹ اس جگہ سے فرار ہونے کے لئے تو نہیں چاہتے؟“ اس کا کہنا ہی تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ امید کا وہ موہوم خیال نیست ونابود ہوگیا۔ مگر بیوقوفوں کی طرح آخری کوشش کی اور کہا۔ ”مگر تمہیں دولت بھی تو مل جائے گی۔“
”نہیں! نہیں! میں ایسی دولت نہیں چاہتا۔ تمہیں ضرور مرنا چاہئے اس نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا۔
میں … شکستِ امید بدنصیب۔ پھر انہی خیالات میں غرق ہوگیا.

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto