Episode 31 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 31 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۳۴)
گھڑی کچھ بجا رہی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کیا؟
مجھے اس وقت سنائی نہیں دیتا کیونکہ کانوں میں عجیب شور برپا ہے۔ جیسے تمام گرجا گھروں کے گھڑیال ایک ساتھ بج رہے ہوں۔ اس کی وجہ خیالات کی پریشانی اور موت کا خوف ہے، اس وقت جب کہ میں اپنی زندگی کے گم شدہ اوراق کی ورق گردانی کر رہا ہوں ان دلچسپ اور لطیف ابواب کا مطالع کر رہا ہوں میرے دل میں یکایک اس خون کا خیال آیا جس سے میں نے اپنے ہاتھ رنگے تھے۔
اُف! اس کا خیال کرتے ہی کانپ جاتا ہوں۔ میں اپنے کئے پر نادم ہوں مگر اس ندامت سے مجھے ابھی تک پوری تشفی حاصل نہیں ہوئی۔ اس سے دُگنی عمر بھی اگر ندامت میں ڈوبا رہوں، توبہ کروں، خدا کے حضور گڑگڑاؤں تو بھی ناکافی ہے۔
مگر موجودہ حالت میں گناہوں کے اعتراف کا کیا موقع! جب کہ میری زندگی اور موت کے درمیان صرف چند گھنٹوں کا فاصلہ باقی ہو۔

(جاری ہے)

اب بھی یہی خواہش ہے کہ جی بھر کے اشک ندامت بہاؤں اپنے گناہوں کی تلافی کے لئے ہر ممکن کوشش کروں، مگر۔ مگر۔ اپنی زندگی کے خاتمہ کو نزدیک آتے دیکھ کر گناہوں کی تلافی تو درکنار اوسان ہوا ہوئے جاتے ہیں۔
اس لطیف زمانہ اور ذلیل زندگی میں ایک خون کی …… میرے اور مقتول کے خون کی ندی حائل ہے۔ ایک زمانہ کے بعد جن اشخاص کو ان سوانح کے پڑھنے کا اتفاق ہوگاوہ کبھی بھی باور نہ کریں گے کہ ان کا آغاز جرم سے شروع ہوتا اور انجام کا گلا کاٹنے والے چبوترہ پر آہ! کچھ دیر کے بعد مرنے کا خیال خصوصاً اس وقت جب کہ وہی بدقسمت انسان اس سے ایک سال قبل معصوم اور آزاد ہو موسم بہار میں باغوں کی سَیر کرتا ہو۔
درختوں کے جھنڈ تلے اس حادثہ جان کاہ سے بے خبر راگ الاپ رہا ہو۔ آف!! ناقابل برداشت خیال!!!
(۳۵)
یہ خیال کرتے ہوئے کہ لوگ گلی کوچوں میں محوِ خرام، محو تکلم اور خوش نظر آتے ہوں کہ اخبارات کے مطالعہ میں مصروف ہوں گے۔ دکاندار خرید وفروخت میں مشغول نوجوان لڑکیاں ناچ کیلئے نیا لباس پہن رہی ہوں گی۔اور مائیں اپنے بچوں کے ساتھ کھیل میں مصروف اور میں …… میں اس منحوس جگہ میں مقید۔
آہ!
(۳۶)
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ میں (نوترے دیم) گرجا کا گھنٹہ گھر دیکھنے گیا تھا۔ میں آہستہ آہستہ تاریک سیڑھیوں کے ذریعہ گھڑیال تک جا پہنچا۔ تمام پیرس میرے قدموں میں تھا۔ اچانک گھڑیال بجنا شروع ہوا۔ اس کے شور سے ایسا معلوم ہونے لگا کہ دیواریں ہل رہی ہیں، میں خوفزدہ ہو کر دیوار کے ساتھ لگ گیا میرے کان شور سے پھٹے جاتے تھے یہی معلوم ہو رہا تھا کہ اب گرا، اب گرا۔
آج بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی گھنٹہ گھر میں ہوں۔ میرے ہوش جواب دے رہے ہیں میں اس جگہ سے محروم کردیا گیا ہوں، جہاں دیگر انسان آزاد پھر رہے ہیں۔
(۳۷)
سامنے والی عمارت ایک ہوٹل ہے جس کی ڈھلوان چھت۔لاتعداد کھڑکیاں مسلسل دیواریں، بھدی سیڑھیاں شکستہ محرابین، عجب گھناؤنا اور خوفناک منظر پیش کر رہی ہیں ، اس قدر سیاہ عمارت کہ دن کی روشنی میں بھی اس کی سیاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں سزائے موت یافتہ مجرم اپنی زندگی کے چند لمحات گزارتا ہے جہاں محافظ اور دیگر ارکان جیل رہتے ہیں۔
اس خونی دن جب مجرم کی گلو بریدی ہونی ہے۔یہ منحوس عمارت ان محافظوں کی آنکھوں سے اس منظر کا تماشہ دیکھتی ہے۔
اس کے باہر رات کو روشنی کرنے کا کوئی انتظام نہیں …… اگر کوئی روشنی ہے تو اس چراغ کی جو گھڑی کے ڈائل کے پیچھے ہے تاکہ لوگ اس وقت دیکھ سکیں۔
(۳۸)
سوا ایک کا وقت۔
میں اس وقت مندرجہ ذیل ذہنی اور جسمانی تکالیف سہہ رہا ہوں، میرے سر میں شدت کا درد ہو رہا ہے۔ میرے جسم کا رواں رواں درد کر رہا ہے۔ میری پیشانی آگ کی طرح تپ رہی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دماغ پھٹ رہا ہو۔ کنپٹیوں پر خون کی گردش اس قدر تیز ہے کہ کانوں میں عجب عجب آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں۔ لکھتے وقت قلم ہاتھ سے گرگر پڑتا ہے، آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی ہیں، بازو جواب دے رہے ہیں۔ صرف دو گھنٹے اور باقی ہیں، اس کے بعد ان تمام تکالیف کا خاتمہ ہوجائے گا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto