Episode 32 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 32 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۳۹)
ان کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی سزا کوئی تکلیف دہ نہیں، یعنی گلو بریدی مجرم کے لئے زیادہ اذیت رساں نہیں ہوتی
آہ! مگر وہ خداریہ تو بتلائیں کہ وہ ان چھ ہفتوں کے دکھ کو جن میں عمر بھر کے رنج وآلام یکجا کردئیے ہوئے ہیں …… اُس یوم کی روح فرسا یاد کو اس کا خیال کرتے ہی بال سفید ہوجاتے ہیں۔ کیا نام دیتے ہیں؟ …… غم واندوہ کی سیڑھی کو جس کا خاتمہ اچانک موت کے چبوترہ پر ہوتا ہے کیا پکارتے ہیں؟
جسم کو خون کے آخری قطرہ سے محروم کردیا اور ذہن کو آہستہ آہستہ حیات سے عاری کردینا دو متضاد چیزیں نہیں، جسمانی قوت …… اور …… ذہنی موت مگر پھر بھی موت اتنی تکلیف دہ نہیں۔
مگر واللہ وہ یہ تو بتلائیں کہ آخر انہیں یہ کیونکر معلوم ہوگا،
کیا یہ انہیں مجرم کے کٹے ہوئے سر سے معلوم ہوا یا موت کے بعد مجرم ان کا شکریہ ادا کرنے آئے اور کہا: جناب یہ سزا بالکل تکلیف دہ نہیں،خواب اختراع ہے۔

(جاری ہے)

آپ اس پر بھروسہ رکھیں، بس ایک ہی لمحہ میں کام تمام ہوجاتا ہے۔ اس سے کیا سیایجا درد بسپیپری کی ہے یا کوئی پانز وہم کی؟

کچھ بھی ہو، ہے خوب! پس ایک منٹ میں ہی اپنا خونین کام کرجاتی ہے۔
انہیں سے آج تک کسی نے بھی اس شخص کی تکالیف کا بغور مشاہدہ نہیں کیا، جواس چبوترہ پر چھرے کی بھاری ضرب کا منتظر ہوتا ہے ………
اس تیز چھری کی ضرب کا جو ایک لمحہ میں اس کی گردن کی نسیں چیرتی ہوئی حلقوم تک پہنچے گی اور گردن کو تن سے جدا کردے گی۔
سچ ہے تکلیف واقعی نہیں ہوتی۔ !!!
در د موت کے ہولناک خیال سے مغلوب ہو کر اثر زائل کردیتا ہے۔
(۴۰)
میرا ذہن بار بار پادشاہت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ میں اپنے ہر فعل میں بادشاہ کے وجود کو متصورپاتا ہوں۔ میرے قلب کی عمیق ترین گہرائیوں سے یہ صدا اٹھ رہی ہے
”اسی قریہ میں اسی جماعت اسی جگہ کے قریب محل میں ایک اور ہستی ہے جس کے دروازوں پر محافظ پہرہ دیتے ہیں، اس میں اور تم میں اتنا فرق ہے کہ وہ جس قدر بلند ہے، تم اسی قدر پست ہو۔
اس کی محفل حیات سے مزین ہے۔ شوکت سے سطوت اور احترام سے اس کے سامنے بڑے بڑے شوریدہ سر اپنے سروں کو جھکا دیتے ہیں۔ اس کا ماحول زریں اور سیمیں ہے۔ اس وقت وہ اپنے وزراء سے کسی مشاورت میں مشغول ہوگا۔ جہاں اس کی رائے سب کی رائے ہوگی۔ یا جہان بھر کے پیام عیش وسرور کا منتظر ہوگا۔ وہ دوسروں کی تکالیف سے اپنی راحت حاصل کرسکتا ہے۔
اس انسان کی تخلیق بھی اسی آب وگل سے ہے جس سے تو بنایا گیا ہے۔
وہ موت کے احکام کو اپنے نام کے سات حروف سے مبدل بہ حیات کرسکتا ہے۔ وہ اچھا ہے اور میں بُرا۔
(۴۱)
آئیے موت کا خیال کیجیے۔ یہ کیا ہے؟ کس کی تلاش میں ہے؟ اس مسئلہ کے اعماق کا اندازہ لگائیے مرقد کی طرف دیکھئے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد میری رُوح منور فصاؤں میں پرواز کرے گی۔ آسمان بجائے نیلگون ہونے کے سنہری ہوگا اور ستارے اس سنہری پردہ پر سیاہ داغ ہونے کے بعد ایک میدان کا رخ کرے جہاں اسی قسم کے دوسرے سبز وجود ہوں۔
جب کبھی میری آنکھیں کھلیں گی تو سوائے سیاہ آسمان کے انہیں کچھ نظر نہ آئے گا۔ انہیں رات کے وقت سرخ ذرات بھی نظر آئیں گے مگرمجھ تک پہنچتے ہی وہ آتشی طیور بن جائیں گے۔ یہ تواترتسلسل غیر مختتم ہوگا۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ سزائے موت کے تمام مجرم مجتمع ہو کر ایک جماعت کی صورت اختیار کریں گے۔ وہاں تختہ دار بھی ہوگا۔ اور جلاد بھی شیطان اسی تختہ دار پر اسی جلاد کو لٹکائے گا، جس کے ہاتھوں ہم مرے ہوں گے …… اور ہم سب اس کے گرد ا گرد اس منظر کا تماشہ کرتے ہوں گے۔
یہ سب کچھ چار بجے صبح ہوگا۔
اگر مُردوں کو دوبارہ زندگی بخشی جائے تووہ کس صورت میں ہوگی، جسم کے علیحدہ علیحدہ حصوں کو کون یکجا کردے گا؟
آہ! موت ہماری روحوں کے ساتھ کیا کرتی ہے!
کیا”موت“ نے کبھی اپنے زمین کے شکاروں پر آنسو بہائے ہیں؟ آہ! پادری۔ ایک پادری جو یہ سب کچھ جانتا ہے پادری اور صلیب میرے خدا!!

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto