Episode 35 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 35 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۴۴)
پادری اور محافظ دونوں بہت رحم دل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جس وقت میں نے اپنی لڑکی کو واپس بھیجا، تو پادری کی آنکھیں نمناک تھیں۔
خیر! یہ تو سب کچھ ہوا۔ مگر مجھے اب تختہ دار اور جلّاد کے لئے گردن اور تماشائیوں کے لئے دل کو مضبوط کرلینا چاہئے۔
میرے پاس چیزوں پر غور کرنے کے لئے ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے۔
(۴۵)
اس خونین منظر کو دیکھنے کے لئے بہت سے لوگ جمع ہوں گے۔ گلے کاٹنے کا چبوترہ ان کے لئے موجب فرحت وانبساط ہوگا۔ مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ان تماشہ کرنیوالوں میں سے جو اس وقت آزاد طور پر چل پھر رہے ہیں، کئی ایسے بدقسمت شخص ہوں گے جو میری طرح اس تنگ وتاریک کوٹھری میں قید کردئیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

جن کا سر میری طرح اس خونین چبوترہ پر قلم کیا جائے گا۔

بیہوش! غافل! 
(۴۶)
ننھی مَیری اب گاڑی میں گرجا جارہی ہوگی۔ وہ کھڑکی سے اس گروہ کا تماشہ دیکھے گی تو اس”شریف آدمی“ … آہ! مجھ بدبخت باپ کو بالکل بھول جائے گی
اگر مجھے وقت ملا تو میں اس کے لئے ضرور کچھ نہ کچھ قلمبند کروں گا۔ شائد وہ تحریر آج نہیں دس سال بعد اس کو خون کے آنسو رلائے۔
جب وہ میرے سوانح حیات پڑھے گی تو خود بخود سمجھ لے گی کہ اس کے حقارت سے دیکھے جانے کا سبب کیا ہے۔
بھولی لڑکی! کاش وہ اپنے والد کی گود میں کچھ دیر اور کھیلتی!!
(۴۸)
ہوٹل دی ویل کا ایک کمرہ۔
ہوٹل دی ویل! میں یہاں ہوں۔ پراز مصائب سفر ختم ہوچکا ہے
قتل گاہ میرے سامنے ہے۔ کھڑکی کے نیچے تماشائیوں کا انبوہ کھڑا ہے جو میری صورت دیکھنے کا بے حد منتظر ہے۔
جب میں نے تختہٴ دار کو دیکھا تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔
میں نے آخری گفتگو کرنی چاہی، انہوں نے اس مطلب کے لئے ایک وکیل کو بلا بھیجا ہے۔ اس کا منتظر ہوں تین بجے انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وقت قریب ہے۔ میں کانپ اٹھا، مجھ پر غیر متوقع تاثرات نے قبضہ جما رکھا ہے۔
وہ مجھے ایک کمرہ میں لے گئے جو کہ بہت تنگ تھا۔ سورج کی روشنی وہاں تک بمشکل پہنچ سکتی تھی۔
کچھ لوگ دروازے کے قریب کھڑے ہیں۔
دو حجام آہستہ سے میری طرف آئے اور میرے سر کے بالوں کو جو میرے شانوں پر پڑے ہوئے تھے کاٹنا شروع کیا۔ اس وقت کمرے میں ہر شخص آہستہ گفتگو کرتا، مگر کمرے کے باہر عوام ہنس رہے تھے … ان کے شیطانی قہقہوں کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی۔
کھڑکی کے قریب ایک نوجوان پنسل سے کچھ لکھ رہا تھا۔ لکھتے وقت اس نے ملازم سے اس رسم کے متعلق دریافت کیا۔
میرے بال کاٹنے کے عمل کا نام پوچھا۔
”مجرم کا سنگار“ حجاموں نے جواب دیا۔
اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ شخص نامہ نگار ہے، اور جو کچھ بھی یہاں ہو رہا ہے وہ کل کے اخبارات میں شائع ہوجائے گا۔
زاں بعد ایک ملازم نے میرے کپڑے اتارنے شروع کئے۔ جب وہ قینچی سے میرا کالر کاٹ رہا تھا تو گردن پر سرد لوہے کو محسوس کرتے ہی میرے جسم میں کپکپی طاری ہوئی۔
”کیا آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی معاف کردیجئے گا۔“ جلّاد نے کہا۔
”آہ! یہ جلّاد بھی اپنی قسم کے رحمدل ہوتے ہیں۔“
تب دوسرے آدمی نے میری کلائیوں کے گرد ایک ہلکا سا دھاگا لپیٹ دیا اب ہر چیز پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ پادری صلیب کے نزدیک آیاا وربولا۔
”آؤ میرے بیٹے آؤ۔“
کمرہ میں موجود لوگوں نے مجھے بازؤں سے پکڑ کر اٹھایا۔
میں بمشکل دو چار قدم چل سکا میرے پاؤں بہت وزنی ہوچکے تھے۔
خیر بعض تنگ و تاریک کمرے سے گزر کر ہم ایک دروازہ تک آئے جس کے دائیں جانب محافظ سواروں کا ایک دستہ تھا۔ بائیں طرف ایک گاڑی تھی، زنداں کی کوٹھری کی دوسری بہن۔
”وہ ہے ․․․․․․․․․․․ وہ آخر کار وہ گیا۔“ ابنوہ سے آواز آئی بعض لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ گویا ان کے نزدیک اس سے مسرت بخش سماں کوئی نہ ہوسکتا تھا …

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto