Episode 36 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 36 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

طویل القامت جلّاد سب سے پہلے گاڑی میں داخل ہوا۔ اس کے بعد اس کا ایک نوکر داخل ہوا۔
اب میری باری تھی۔ میں دل کو قوی کرتے ہوئے گاڑی پر سوار ہوا۔
میں نے اپنے گرد وپیش نظر دوڑائی۔ آگے محافظ …… پیچھے محافظ۔
ابنوہ …… ابنوہ …… بازار میں انسانی سروں کا سمندر گاڑی کے چلتے ہی”تمام جلوس“ نے بھی حرکت شروع کی۔
”ٹوپیاں اتار دو“ ہزارہا لوگوں نے کہا۔
گویا وہ کسی بادشاہ کا استقبال کر رہے تھے۔ میں مُسکرایا اور پادری سے یوں کہا۔
”وہ اپنی ٹوپیاں اتاریں ․․․․․․․․․․․ اور میں اپنا سر ․․․․․․․․․․․․․․․․ “
سامنے کھڑکیوں میں ہزارہا تماشائی بیٹھے ہوئے ہیں … عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔
بعض ظالموں نے میزوں اور کرسیوں سے جگہ آراستہ کر رکھی تھی اور وہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے۔

(جاری ہے)

”کسی کو جگہ چاہئے؟“
جی میں آئی کہ کھڑا ہو کر ان سے دریافت کروں۔ ”میری جگہ کسے چاہئے“ مگر چُپ رہا۔
گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھی، قدم قدم پر گاڑی کو روکنا پڑتا۔ کیونکہ ہجوم میری گاڑی کے آگے کھڑا ہوجاتا … وہ مجھے بار بار دیکھنا چاہتے تھے۔ میرے خیالات بہت پراگندہ ہوگئے تھے۔ اس لئے میں نے چاہا کہ ہر طرف سے لاپرواہ ہو کر صرف پادری کی طرف متوجہ ہوں، میں نے صلیب کو اٹھایا اور اسے بوسہ دیا۔
”میرے خدا مجھ پر رحم کر“ میں نے گاڑی کی سیاہ چھت کی طرف تکتے ہوئے کہا مینہ برس رہا ہے، جس نے میرے کپڑوں کو تر کر رکھا ہے، غضب کی سردی ہے، اکڑا جارہا ہوں۔
”میرے بیٹے! کیا تم سردی سے کانپ رہے ہو!“ پادری نے دریافت کیا۔
”مقدس باپ صرف سردی سے ہی نہیں۔“
پُل کے اُس پار چند عورتیں میری حالت اور جوانی سے متاثر میری موت پر اظہار افسوس کر رہی تھیں۔
آخر کار منزل مقصود پہنچی چاروں طرف لوگوں کا ہجوم ہے۔ ان میں سے ہر ایک میرا واقف ہے۔ میرا نام بچہ بچہ کے دردِ زبان ہے۔ اس قدر لوگوں کی نگاہوں کے بار سے دبا جارہا ہوں۔ اس منظر کی زیادہ دیر تک تاب نہ لا سکا۔ بیہوش سا ہوگیا، اب اپنے گرد وپیش کے حالات سے بے خبر ہوں، معلوم نہیں لوگ اظہار انبساط کر رہے ہیں یا اظہار تاسّف! میرے بائیں جانب”نوترے دیم“ کا گرجا ہے۔
گاڑی آگے بڑھی اور تماشائیوں کے گروہ سے گزر گئی۔ میں خاموش پڑا رہا اچانک گاڑی رک گئی۔
”میرے بچے ہمت کرو! پادری نے کہا۔
گاڑی کے ساتھ ایک سیڑھی لگا دی گئی۔ روشنی میں کچھ نظر پڑا۔ آہ! وہ حقیقت ہے۔
”مجھے آخری خواہش کا اظہار کرنا ہے!“ میں نے ان سے التجا کی، انہوں نے میرے ہاتھ کھول دئیے، مگر رسی موجود ہے۔ آخری خواہش لکھ چکنے کے بعد پھر وہی رسی ہوگی اور میری کلائیاں اور ہا
(۴۹)
مصنف! کمشنر! مجسٹریٹ! خدا معلوم کون …… آیا
میں نے اس سے اپنے معافی نامہ کے لئے استدعا کی۔
ہاتھ جوڑے ہوئے سفارش کے لئے کہا، زانو پر کھڑا ہوکر گڑگڑا کر التجا کی۔ مگر اس پتھر جیسے دل پر کوئی اثر نہ ہوا، جواب دیا تو۔ ”کیا یہی کچھ کہنا ہے تمہیں؟“
معافی۔ معافی نامہ حاصل کرنے کے لئے صرف پانچ منٹ کاقلیل عرصہ: … میری خاطر نہیں تو خدا را رحم کی خاطر کسے خبر ہے کہ عرصہ میں میری رحم کی درخواست منظور ہوجائے۔ آہ!! اس عمر میں خصوصاً ایسی موت مرنا کس قدر ہولناک ہے۔
جناب! اگر وہ مجھ بدقسمت پررحم نہیں کریں گے تو کس پر کریں گے، کیا میں اس کا مستحق نہیں؟ میں ملتجی ہوا۔ مگر پیشتر اس کے کہ کوئی جواب دے، جلّاد کمرے میں داخل ہوا اور مجسٹریٹ سے کہنے لگا۔ ”چونکہ مقررہ وقت قریب آرہا ہے، اس لئے آپ کی موجودگی وہاں ضروری ہے۔ خدا کے لئے تھوڑی دیر انتظار کرو تمہیں رحم کا واسطہ ایک لمحہ تو ٹھہرو۔ شائد معافی نامہ آ جائے ۔
اگر ایسا نہ کرو گے تو بخدا میں تمہیں کاٹوں گا، اپنی جان بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔
مجسٹریٹ اور جلّاد کچھ کہے بغیر چلے گئے۔ اب میں اکیلا ہوں، اکیلا دو محافظوں کے درمیان، اُف ! میں پاگل ہو رہا ہوں، مگراب بھی میرے دل میں اُمید کی آخری کرن باقی ہے … …معافی …… شاید اس ہولناک موت سے بچ جاؤں …… ناممکن وہ میری درخواست رحم کورد کردیں گے …… ظالم! سفاک !! …… کوئی میرے کمرے کی طرف آرہا ہے۔ میرے اللہ! جلّاد!! … … بس …… خاتمہ …… چار کا وقت ……

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto