Episode 38 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 38 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

کلاوے کی ہستی جیل میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی۔ اپنے ہم اسیر قیدیوں کے درمیان اس کا بہت رتبہ تھا۔ وہ تمام افراد اس کی عزت کرتے اور اس سے اپنی اپنی مشکلات بیان کر کے مشورہ لیتے۔
تین ماہ سے کم عرصہ میں کلاوے نے ہر شخص کے دل میں جگہ کرلی۔ اور اسی عرصہ میں ورکشاپ کے قیدیوں کا لیڈر بن گیا۔ وہ سب اس کی پرستش کرتے، حتیٰ کہ کئی دفعہ وہ گمان کرنے لگتا کہ وہ بادشاہ ہے، ایک امیر پادری ہے۔
اپنے معتقدوں کے درمیان یہ لازمی امر تھا کہ یہ ہر دلعزیزی اور شہرت دیگر افراد کے دلوں میں حسد کی چنگاریاں پیدا کرتی۔ چنانچہ یہی ہوا، محافظوں کے دلوں میں کلاوے کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا … یہ اجنبی بات نہ تھی … ہر دلعزیزی اور نفرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے … مگر غلاموں کی محبت، آقا کی حقارت اور نفرت سے زیادہ مستحکم ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

بدقسمی سے کلاوے بسیار خور واقع ہوا تھا۔
اس کی بھوک مٹانے کے لئے اس کی اپنی غذا ناکافی تھی۔ آزادی کے ایام میں وہ محنت سے اپنی پوری غذا مہیا کرلیتا۔ مگر دورانِ اسیری وہ دن بھر کام کرتا، تو بھی اسے پیٹ بھر کر کھانا نہ ملتا۔ وہ ہمیشہ بھوکا رہتا۔ مگر اس کی شکایت کے الفاظ اس کی زبان پر ہرگز نہ آئے۔ وہ اسی خصلت کا مالک تھا۔
ایک روز جب کہ کلاوے اپنا کھانا ختم کر کے کام میں مشغول ہوا چاہتا تھا۔
اس ”قحط“ کو اپنے کام میں محو کرنا چاہتا تھا۔ کہ ایک دبلا پتلا قیدی ایک ہاتھ میں چاقو دوسرے میں کھانا پکڑے ہوئے اس کی جانب آیا۔ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ جھجک گیا۔
”کیا چاہتے ہو تم۔“ کلاوے نے اس سے درشت لہجے میں دریافت کیا۔
”ایک عنایت“
”عنایت؟“
”میرے پاس ضرورت سے زیادہ کھانا ہوتا ہے۔ مہربانی فرما کر اس میں سے تھوڑا سا آپ لے لیا کریں۔
کلاوے کی آنکھیں نم ناک ہوگئیں، بغیر کسی تکلف کے اس نے کھانے کے دو حصّے کئے اور اپنا حصہ کھانا شروع کردیا۔
”شکریہ! مگر کیا ہی اچھّا ہو کہ آپ ہر روز اسی طرح میرے کھانے میں حصہ لے لیا کریں۔ اس لڑکے نے موٴدبانہ کہا۔
”تمہارا نام؟“
”ایلبن“
”تم یہاں کس طرح آئے؟“
”چوری کے جرم میں۔“
”خیر میرا بھی یہی جرم ہے۔
ایلبن بیس سال کا نوجوان تھا۔ مگر غیر معمولی کمزوری سے پندرہ سال کا معلوم دیتاتھا۔ کلاوے گو 35 سال کا تھا۔ مگربسا اوقات پچاس سال سے بھی زیادہ عمر کا معلوم دیتا۔
ان دونوں کا رشتہ آپس میں باپ بیٹے جیسا تھا۔ ایلبن ابھی بچّہ تھا۔ اور کلاوے پیش از وقت بوڑھا۔ وہ دونوں ایک ہی جگہ مشقت کرتے، ایک ہی جگہ سوتے، وہ بہت خوش تھے … وہ ایک دوسرے کے لئے دنیا تھے۔
ہم جیل کے ناظم کے متعلق اس سے پیشتر بھی یہی ذکر کرچکے ہیں کہ کلاوے کا وجود اس کی نگاہ میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کلاوے قیدیوں کی نظروں میں بہت وقعت رکھتا۔ اور وہ اس کا ہر حکم ماننے کے لئے بسرو چشم حاضررہتے۔
ایک دن جیل میں کسی قسم کی شورش پیدا ہوگئی۔ اور قیدیوں نے ناظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔
ناظم اور محافظوں نے لاکھ سر ٹپکا مگر کچھ بن نہ آئی۔ لیکن کلاوے کے دو الفاظ نے ان سب کو جھکا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حسد کی چنگاری نے اب آگ کی صورت اختیار کرلی۔ اصلاح شدہ مجرم کی صورت اس لئے نفرت پیدا کرگئی … راستی پر قوت کے غلبہ کی عیاں مثال۔
اس نوعیت کی نفرت جو سینہ میں خفیہ طور پر پرورش پاتی رہے۔اس آتش فشاں پہاڑ کیطرح ہے جس نے برسوں آگ نہ اُگلی ہو۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto