Episode 41 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 41 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

اس پر سب نے اپنی اپنی کلہاڑیاں پیش کیں۔ کلاوے نے ان سب میں سے چھوٹی کلہاڑی منتخب کر کے اسے اپنے کوٹ کے دامن میں چھپا لیا۔
اس وقت ستائیس قیدی موجود تھے مگر ان میں سے کسی نے بھی اس راز کو افشا نہ کیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس واقعہ کے بعد اس موضوع پر گفتگو تک نہ کی، مگر وہ آنے والے حادثہ کے منظر تھے۔ وہ حادثہ گوہولناک تھا۔ مگر بہت آسان۔
صحن سے گزرتے ہوئے کلاوے کو ایک قیدی ٹہلتا ہوا ملا۔ جس نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کوٹ میں کیا چھپائے ہوئے ہے۔
”ایک کلہاڑی! موسیوڈی … کے قتل کرنے کے لئے! تمہیں نظر آرہی ہے کیا؟“
کلاوے نے کہا۔
”بہت کم۔“ قیدی نے جواب دیا۔
دن کا بقایا حصّہ حسب معمول مصروفیتوں میں گزر گیا۔ سات بجے شام قیدی اپنے اپنے ورکشاپوں میں منتقل کردئیے گئے۔

(جاری ہے)

تاکہ ناظم ان کی حاضری لے سکے۔ کلاوے روز مرہ کی طرح اپنے ہم اسیروں کے ساتھ ایک بڑے سے ورکشاپ میں بند تھا۔ اس وقت اپنی قسم کا واحد واقعہ پیش آیا۔
کلاوے نے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر مندرجہ ذیل تقریر شروع کی۔
”تمہیں معلوم ہے کہ ایلبن اور مجھ میں ایک بھائی کا رشتہ ہے، اولاً میری پسندیدگی کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اپنا کھانا میرے ساتھ تقسیم کرتا۔
مگربعد ازاں وہ پسندیدگی محبت میں تبدیل ہوگئی۔ جب وہ میرے ساتھ الفت کا اظہار کرنے لگا۔
ہم دونوں کی وابستگی موسیوڈی … کے لئے کسی حالت میں بار خاطر نہ تھی۔ مگر اُس نے صرف ہٹ دھرمی اور حسد کی خاطر ہمیں ایک دوسرے سے جُدا کردیا۔ صرف اس لئے کہ وہ بدخصلت ہے۔
میں نے اس سے بارہا التجا کی کہ وہ ایلبن کو میرے پاس واپس بھیج دے۔ مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
آخر کار میں نے اسے 4 نومبر تک اس معاملہ پر سوچنے کے لئے کہا جس پر مجھے سزا تخلیہ دی گئی۔ میں نے اسے ترازوئے عدل میں تولا تو اسے سزائے موت کا مستحق پایا۔ چنانچہ میں نے اس کی موت کا دن 4 نومبر مقرر کیا ہے۔ وہ ابھی ابھی یہاں آئے گا۔ میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ میں اس کی جان لینے پر تلا ہوا ہوں کیاتمہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔؟“
قبر کی خاموشی چھا گئی۔
کلاوے نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ اور اپنے رفیقوں … اکیاسی / 81 چوروں سے وجوہات بیان کرنی شروع کیں جو اس عمل کی محرک ہوئی تھیں۔
”میں اس خطرناک اقدام پر اس لئے مجبور ہوں کہ راستی پر ہوں۔ اس لئے کہ اس نے مجھے سخت روحانی تکلیف پہنچائی ہے۔ اس لئے کہ میں دو ماہ کے غوروفکر کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس اقدام کے معنے میری موت ہے۔
چونکہ میں راستی ہوں، اس لئے مجھے اپنی قربانی کی کوئی پرواہ نہیں، اگر تم میں سے کوئی اس کے خلاف کہنا چاہتا ہے تو وہ علانیہ کہے۔“
اس قبر جیسی خاموشی میں صرف ایک آواز نے چلا کر کہا۔
”مگر قتل کرنے سے پیشتر تمہیں پھر سے ایک دفعہ متنبہ کرنا چاہیے۔
”درست ہے۔ میرے دوست میں اسے مہلت دے دوں گا۔“
یہ کہہ کر اس نے اپنی چند ایک ملکیتیں جو اسے نہایت عزیز تھیں۔
ان قیدیوں میں تقسیم کردیں۔ لیکن قینچی اپنے پاس رکھ لی۔ ہر ایک قیدی سے بغلگیر ہوا۔ ان میں سے اکثر اس منظر کو بغیر آنسو بہائے نہ دیکھ سکے۔
کلاوے حسب معمول خوش گپیوں میں مشغول ہوگیا۔ اس کو اس طرح دیکھ کر بعض نے خیال کیا کہ وہ اس خوفناک ارادہ سے باز آگیا ہے۔
ایک نوجوان قیدی کلاوے کے خوفناک ارادے سے ابھی تک خائف ایک کونے میں کھڑا کانپ رہا تھا۔
”نوجوان آدمی! ہمت کرو۔ بس ایک لمحہ کا کام ہے۔“ کلاوے نے اس سے کہا۔
کلاوے نے ہر ایک سے مصافحہ کیا اور الوداع کہنے کے بعد سب کو حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے کام میں مشغول ہوجائیں اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto