Episode 45 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 45 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

کلاوے کی کوٹھڑی میں پہلے پادری آیا، بعد ازاں جلّاد۔ پادری کے ساتھ کلاوے نہایت ادب اورسلوک سے پیش آیا۔ اور بہت عرصہ تک دینی علوم سے نا اہل ہونے پر اظہار تاسف کرتا رہا۔ اپنے آپ کو دینی معلومات سے فائدہ نہ حاصل کرنے کی بنا پر لعنت ملامت کرتا رہا۔
جلاد کے ساتھ بھی وہ ایسے ہی خلوص سے پیش آیا۔ درحقیقت اس نے اپنی روح پادری کے حوالے کردی تھی اور اپنا جسم جلّاد کے۔
جب اس کے بال تراشے جارہے تھے تو کسی نے ذکر کیا کہ اس گردونواح میں ہیضہ پھیل رہا تھا اور امکان تھا کہ بہت تھوڑے عرصے میں ٹرائے بھی اس موذی مرض کا شکار ہوجائے گا۔
”مجھے اس سے کیا تعلق۔ تھوڑے عرصے کے بعد ہیضہ کیا کوئی مرض بھی مجھ پر اثر نہ کرسکے گا۔“ کلاوے نے متبسمانہ لہجے میں کہا۔

(جاری ہے)

خود کشی کے وقت کلاوے سے قینچی ٹوٹ گئی تھی۔
بقایا حصہ اس کے پاس ابھی تک موجود تھا۔ اس نے وصیت کی وہ حصہ اس کے رفیق ایلبن کو دے دیا جائے۔ اس کا آدھا حصّہ اس کی چھاتی میں زخموں کی صورت میں پنہاں تھا۔ یہ بھی خواہش کی کہ اس کا شام کا کھانا بھی اس کے دوست کو دے دیا جائے۔
اگر کچھ چیز اپنے پاس رکھی تو پانچ فرانک کا نوٹ جو کہ اُسے نرس نے دیا تھا۔ وہ اسے دائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھا۔
جب اسے رسی سے باندھا گیا، پونے آٹھ بجے یہ ماتمی جلوس زندان سے گلوبریدی کے چبوترہ کی طرف روانہ ہوا۔ کلاوے نہایت استقلال کے ساتھ اس چبوترہ پر چڑھا، اس کی آنکھیں پادری کی صلیب پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ صلیب اس کے پنہاں زخموں پر مرہم کا کام دے رہی تھی۔ اس ہیبت ناک مشین پر باندھے جانے سے پیشتر اس نے پادری کو پانچ فرانک کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا، غریبوں کے لئے۔
مگر چونکہ آٹھ بجے کا گجر بج رہا تھا اس لئے پادری اس شور میں کلاوے کی آواز کو نہ سن سکا۔ کلاوے نے گھنٹہ کا شور ختم ہوتے ہی پھر ایک دفعہ پادری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ”غریبوں کے لئے۔“
ابھی یہ لفظ اس کی زبان پر ہی تھے کہ یہ شریف اور حسّاس سر جسم سے علیحدہ ہوچکا تھا۔
سزائے موت کے لئے یوم السّوق مقرر کیا گیا تھا۔ تمام روز گلو بریدی کی مشین لوگوں کے خیالات وحسّیات کو مشتعل کرتی رہی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ہجوم کے ہاتھوں ایک ٹیکس وصول کرنے والے کا قتل ہوتے ہوتے بچ گیا۔ کیا ان کے پیشِ نظر یہی نظریہ عبرت ہے۔
درج بالا واقعات صرف اس واحد غرض سے صفحہ وقرطاس پر لائے گئے ہیں کہ وہ تنسیخ سزائے موت ایسے مشکل اور نازک موضوع کی تھی سلجھانے میں مدد دیں۔ کیونکہ ہمیں یقین واثق ہے کہ اس داستان کا ہر لفظ بذات خود ہمارے نظریہ کے مخالفین کا جواب ہے۔
اور یہ کہ انیسویں صدی عیسوی کے اہم ترین مسئلہ کا حل اسی داستان میں موجود ہے۔
کلاوے کی زندگی میں صرف دو امر قابلِ غوروفکر ہیں۔ اولاً اس کی تعلیم ثانیاً اس سزا کی نوعیت جو اس پر عائد کی گئی۔
مجلسی دائرہ کے لئے یہ امر باعثِ دلچسپی ہو ا کہ کلاوے ایک اچھے فہم و فراست کا مالک تھا۔ مگر سوال یہ تھا کہ اس میں کسی چیز کی کمی تھی۔
اس مسئلہ عظیم پر انسانی معاشرت کی بلندی کا انحصار ہے۔ یہ چیز فطرت نے انسان کو بخشی ہے۔ سوسائٹی کا فرض ہے کہ اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے۔
کلاوے کی طرف دیکھئے۔ ایک بہترین دماغ اور شریف زاد محض گناہ آلود فضا میں پرورش پانے کے باعث چور بن گیا۔ سوسائٹی نے اسے ایسے زاندان میں رکھا جہاں گناہ پہلے سے بھی زیادہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ چور سے قاتل بن گیا۔
وہ قابلِ گرفت ہے۔ یا ہم؟
یہ مسئلہ غور طلب ہے۔ ہم اس کے عواقب وعواطف سے غافل رہ کر اس پر غور نہیں کرسکتے۔ حقائق ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اگر حکومت ان پر غور نہ کرے تو حکام کس لئے ہیں؟ ایوانہائے سلطنت ہر سال اراکین سلطنت کی نشستگاہ بنتے ہیں۔ وہاں مداخل ومخارج پر بحث ہوتی ہے۔ ذاتی مفاد کے لئے طرح طرح کے جملے تراشے جاتے ہیں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم وزراء واراکین سلطنت کو ہر ایک موضوع سے باخبر کریں، خواہ ان کا نجام کچھ نہ ہو۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto