Episode 46 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 46 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

میرے ساتھ ایک عورت کا دامن وابستہ تھا۔ جس کی خاطر میں نے چوری کی، وہ اس کی بابت میرے احساسات مجروح کرتا رہا۔ میں ایک بچے کا باپ تھا، جس کی خاطر میں نے ایسا رذیل کام کیا۔ وہ اس بچے کی باتیں سنا سنا کر میرے زخموں پر نمک پاشی کرتا رہا میں بھوکا تھا۔ ایک دوست نے مجھے اپنا کھانا پیش کیا، وہ اس دوست کو مجھ سے جدا کرلے گیا۔ میں نے اس کی خدمت میں التجا کی۔
ا س نے مجھے اندھیری کوٹھری میں دھکیل دیا۔ جب میں نے اپنی تکلیفات کا اظہار کیا تو اس نے جواب دیا کہ، اس کے کان ایسی باتوں کی سماعت کے لئے تیار نہیں۔ اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ میں نے ان مصیبتوں کا خاتمہ کردیا۔ اس شخص کو جو میری قلبی تکالیف کا باعث تھا قتل کردیا۔ تم اس قتل کو وحشیانہ عمل گردانتے ہو، کہتے ہو کہ مجھے صعوبات نہیں پہنچائی گئیں۔

(جاری ہے)

سو تم میرا سر قلم کرنے کے درپے ہو، بصد خوشی کرو۔ میرا سر تمہارے ہاتھوں کا کھلونا بننے کے لئے حاضر ہے۔“ انسانی قانون اس نوعیت کے فوری غصہ کو اس قسم کے مظالم کا فیصلہ کرتے وقت پیش نظر نہیں رکھتا۔ صرف اس لئے کہ اس وار کے نشانات غیر مرئی ہوتے ہیں۔ جیوری بحث ختم ہوتے ہی فیصلہ مرتب کرنے میں مصروف ہوگئی۔ اور کلاوے کے اس فعل کو خونریزی کا ایک ہیبت ناک عمل قرار دیا اور اس کی زندگی کا نقشہ یوں کھینچا۔
کلاوے کی زندگی کی ابتداء ایک ایسی لڑکی سے ہوئی جو اس کی بیاہتا نہ تھی، اس نے چوری کی، پھر قتل کیا، یہ سب کچھ سچ تھا۔ فتویٰ صادر کرنے سے پیشتر جیوری نے کلاوے سے دریافت کیا کہ آیا اس بارے میں کچھ اور کہنا ہے۔ ”بہت کم! میں چور ہوں، قاتل ہوں، میں جملہ اراکین جیوری سے صرف اس قدر دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کونسا امر تھا جس نے مجھے چوری کرنے پر مجبور کیا۔
وہ کونسی شئے تھی جو میرے قاتلانہ حملہ میں محرک ہوئی؟“ جب حکم سنایا جاچکا تو کلاوے نے صرف اس قدر کہا۔ ”مجھے یہ سزا قبول ہے۔ مگرمقام تاسف ہے کہ انہوں نے میرے دو سوالات کا جواب نہیں دیا۔ میں نے چوری کیوں کی؟ اور میں نے قتل کس بناء پر کیا؟“ زندان میں اس رات کو اس نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔ کلاوے نے رحم کی درخوست کرنے سے انکار کردیا۔
مگر جب اس نرس نے جس نے اس کی تیمارداری کی تھی۔ اس بات پر اصرار کیا تو وہ رضا مند ہوگیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رضا مندی صرف نرس کی خوشنودی کی خاطر تھی۔ کیونکہ جس وقت اس کی درخواست پیش ہوئی تو رحم کی درخواست کی معیاد ختم ہوچکی تھی۔ کلاوے نے عمداً دیر لگا دی تھی۔ جس وقت نرس اسے یہ خبر سنانے کے لئے آئی تو وفورِ جوش اور محبت سے اُسے پانچ فرانک کا نوٹ دیا جسے کلاوے نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے پاس رکھ لیا۔
اس کے اہم اسیر قیدیوں نے جو سب کے سب اس کے دام الفت میں گرفتار تھے۔ ہر ممکن ذریعہ سے اس کی فراری کے لئے کوشش کی۔ انہوں نے روشندان کے ذریعے کلاوے کی کوٹھری میں ایک کیل، کچھ تار اور ایک لوہے کا ٹکڑا پھینکا۔ ان چیزوں سے کوئی ایک بھی اس کی فراری کا موجب ہوسکتی تھی مگر اس نے وہ سب چیزیں وارڈر کے حوالے کردیں۔ 8 جون 1832ء کو قتل کے واقعہ سے پورے سات ماہ چار دن بعد محافظ جیل کلاوے کے پاس آیا اور اسے مطلع کردیا کہ اس کی زندگی میں اب صرف ایک گھنٹہ باقی تھا۔
اس کی درخواست رحم مسترد کردی گئی تھی۔ ”میں نے نہایت اطمینان سے آج کی رات بسر کی ہے اور امید کرتا ہوں کہ اسی طرح آخری لمحات بھی گزار دوں گا۔“ کلاوے نے محافظ سے کہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے آہنی ارادہ رکھنے والے انسان موت سے کبھی خائف نہیں ہوتے۔ بلکہ موت کی آمد پر نہایت عالی حوصلگی سے گفتگو کرتے ہیں۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto