Episode 48 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 48 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

مقنّین! تم اپنا وقت محض گفتار میں بسر کرتے ہو۔ تمہاری گفتار ایک دیہاتی مدّرس کے لبوں پر بھی مسکراہٹ لے آتی ہے۔ تم کہتے ہو کہ موجودہ زمانے کے عیوب خود تمدن کے پیدا کردہ ہیں۔ گویا تم جو کٹیا ندرا، اوڈی پس، میڈیا اور روڈوگونا سے واقف تک نہیں۔
ایوان کے بڑے بڑے خطیب جس وقت سرگرم مباحثہ ہوتے ہیں تو فرانسیسی زبان ان کی قابلیت اور علمیت زبان پر نوحہ خوانی کرتی ہے۔
ہم اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم اس سے زیادہ اہم مضامین آغوش عدم میں پڑے رہتے ہیں۔ ان فضول مناظروں کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
اراکین اس وقت کیا جواب دے سکتے ہیں۔ جب ان میں سے ایک مندرجہ ذیل سوال کرے۔
”خاموش! ہر وہ شخص جو اس سے قبل گفتگو کر چکا ہے۔ خاموش رہے! آپ کو اس پر زعم ہے کہ آپ مسئلہ کے ہر پہلو سے واقف ہیں لیکن یہ ہے کہ آپ بالکل تاریکی میں ہیں۔

(جاری ہے)

وہ مسئلہ یہ ہے! ایک سال ہوا۔ ”عدل وانصاف“ کے نام پر پیرس میں ایک شخص کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دئیے گئے۔ جون میں ایک شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پیرس میں لاتعداد افراد قتل کئے گئے۔
یہ مسئلہ ہے۔ آؤ اس پر غور کریں۔
تم! تم وہ ہو۔ جو صرف قِلی محافظ کی وردیوں پر غور کرتے ہو۔ صرف اس نکمّی بحث پر وقت ضائع کرتے ہو کہ سپاہیوں کی وردیوں کے بٹن سفید ہوں یا زرد۔
حضرات! صرف عوام الناس تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ خواہ حکومت شخصی ہو یا جمہوری۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غربا بدستور مصائب کا شکار رہتے ہیں۔ لوگ مفلسی کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ ان کا خون رگوں میں سرد ہوچکا ہے۔ وہ زندہ درگور ہیں۔ یہی سیاہ بختی ہے۔ انہیں جرائم کی طرف کشاں کشاں لے جاتی ہے۔بیٹے جیلوں کو آباد کرتے ہیں، اور لڑکیاں عشرت کدوں کی زینت بڑھاتی ہیں۔
تمہارے ہاں لاتعداد مجرم اور بے شمار عصمت فروش موجود ہیں۔ مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن ہے۔ تم بیمار کے قریب ہو۔ اس کی عیادت کرو اس کی صحت کے لئے کوئی نسخہ تیار کرو۔
تم سب غلطی پر ہو۔ مسئلہ پر نہایت غوروفکر سے سوچو۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے قوانین کا نصف حصہ ہے۔ تمہارے روز مرہ کے کاروبار کا اور دوسرا نصف تمہاری جاء طلبی کا۔
تم مجرموں کے جسموں پر داغ دیتے وقت ان کے مکتوب حیات پر جرائم کی مہر لگاتے ہو۔ تم اس سزا کے دو رفیق پیدا کرتے ہو۔ کبھی جدا نہ ہونے والے ساتھی … داغ اور جرم۔
جیل خانے اصلاح کی بہ نسبت اقساد کا مرکز ہیں۔ جہاں تک سزائے موت کا تعلق ہے، وہ از منہ بربریت کی آخری یادگار ہیں۔ اس لئے داغ دینا، زندان اور سزائے موت سب ایک ہی شجر کے اثمار ہیں۔
تم نے داغ کی سزا موقوف کردی ہے، مگر باقی ماندہ سزاؤں کا بھی خاتمہ کرو، جب تم نے آہنی سلاخ کو توڑ دیا تو پھر جلاد اور زندان کی کیا ضرورت ہے۔ اس زینہ کو جو بامِ جرم کی طرف لئے جاتا ہو، اتار دو۔ اپنے قوانین پر نظر ثانی کرو۔ قانونی کتب کو نئے سرے مرتب کرو۔ زندانوں کو ازسرِ نو تعمیر کرو۔ عدالتوں میں نئے ججوں کا تقرر عمل میں لاؤ۔ قوانین کو عصرِ حاضر کے مطابق بناؤ۔
آپ لوگوں کے پیش نظر کفایت شعاری ہے۔ مگر خدارا اس کی خاطر تمہیں لوگوں کے سروں کو اس بیدردری سے ان کے تنوں سے جدا نہیں کرنا چاہئے۔
اگر تم فی الحقیقت سختی پر تلے ہوئے ہو تو جلّاد پر سختی کرو۔ اسی مشاہرہ پر جو تم اپنے 80 جلّادوں کو دیتے ہو۔ تم چھ سو مدرس قائم کرسکتے ہو۔ جو اِن ہونے والے مجرموں کے اذہان کی اصلاح کریں۔
کیا تم نے کبھی اس امر پر بھی غور وپرداخت کی ہے کہ تمہارے ملک فرانس میں تعلیم یافتہ شخصوں کے کیا اعداد وشمار ہیں۔
یورپ کے چپہ چپہ پر علم کی شعاعیں پہنچ چکی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں قریباً تمام افراد تعلیم یافتہ ہیں۔ بلجیم میں ہر شخص پڑھا ہوا ہے۔تمام یونان تعلیم یافتہ افراد سے بھرا ہوا ہے۔ اگر علم سے بے بہرہ ہے تو تمہارا فرانس کیا یہ امر تمہارے لئے باعثِ شرم نہیں۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto