وہ میلے کی آخری رات تھی۔ میں نے مسافر شاہ کی تھڑے کی چاردیواری کے ساتھ اپنی بائیک روک کر بند کر دی۔وہاں کافی اندھیرا تھا لیکن مسافر شاہ کے تھڑے کی نکڑ پر روشن دِیّوں کی روشنی، اس اندھیرے کو چیر رہی تھی۔ رات کی سیاہ تاریکی میں وہ ٹمٹماتے ہوئے دِیّے زندگی کی علامت معلوم ہو رہے تھے۔ میرے دائیں جانب وہ کھلا میدان تھا، جہاں میلہ اب اُجڑ چکا تھا۔
وہاں لگی ہوئی عارضی دکانیں ختم ہو چکی تھیں۔ کچھ سمیٹ لی گئی تھیں اور کچھ سمیٹی جا رہی تھیں۔ کافی فاصلے پر سینکڑوں لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔ جہاں سے تیز روشنی کے ساتھ جا بجا نصب اسپیکروں سے فلمی گیت کی آواز ہر جانب پھیلی ہوئی تھی۔ میں جانتا تھا کہ اس مجمع کے پنڈال میں طوائفیں رقص کر رہی ہیں۔ میں نے بائیک کو لاک نہیں کیا، ویسے ہی دیوار کے ساتھ لگا کر اُتر آیا۔
(جاری ہے)
میں نے لاشعوری طور پر اپنی ”ڈَبّ“ میں موجود پسٹل کو ہاتھ سے محسوس کیا اور ایک سنسنی خیز لہر کے ساتھ اس مجمع کی جانب بڑھ گیا۔
اگرچہ ان طوائفوں کا ناچ دیکھنے علاقے کا کوئی بھی بندہ جاسکتا تھا لیکن میں اپنے گاؤں کے سردار شاہ دین کے اکلوتے بیٹے شاہ زیب کی خصوصی دعوت پر وہاں گیا تھا۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اس نے مجھے وہاں کیوں بلوایا ہے۔
میں مجمع کو چیرتا ہوا پنڈال میں جا پہنچا جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
وہاں عام لوگ تو تھے ہی، لیکن علاقے کے امیر زادے اپنی انفرادیت‘ کروفر اور طمطراق کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنی انفرادیت جتانے کے لیے خاص اہتمام کیا ہوا تھا۔ شامیانے میں کرسیاں قطاروں میں بچھی ہوئی تھیں۔ وہاں سبھی اپنے لاؤ لشکر اور مصاحبوں کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔
ایک طرف جہاں اپنی طاقت کا اظہار تھا تو دوسری طرف کسی بھی ناگہانی افتاد سے نپٹا جا سکتا تھا۔ میں ایک ہی نگاہ میں سارے پنڈال کا جائزہ لے کر اس جانب بڑھ گیا جدھر شاہ زیب بیٹھا ہوا تھا۔ میری آمد پر اس نے مجھے چونک کر دیکھا، جیسے میرے وہاں آ جانے کا یقین کر رہاہو۔اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔تبھی اس نے اپنے ایک مصاحب کو اشارہ کیا۔
وہ فوراً ہی کرسی چھوڑ کر اٹھ گیا تو میں وہاں جا بیٹھا۔ ہم دونوں میں محض مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا۔ کیونکہ ہم دونوں ہی اپنی وہاں پر موجودگی کے بارے میں جانتے تھے۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں میری آمد پر شکریے کا اظہار کیا پھر ان طوائفوں پر نوٹ برسانے لگا۔ جو وہاں ان کے سامنے محو رقص تھیں۔ دوسرے امیر زادے بھی ایسے ہی شغل میں مصروف تھے۔
یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ان امیر زادوں کے درمیان نوٹ برسانے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ اطمینان سے بیٹھنے کے بعد میں اپنے جگری یار اشفاق عرف چھاکا کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ جلد ہی وہ مجھے اپنی مخصوص منڈلی کے ساتھ دکھائی دے گیا۔ وہ میری طرف ہی دیکھ رہا تھا اور میری توقع کے مطابق اس کے چہرے پر حیرانی پھیل گئی تھی۔ بلاشبہ وہ میری آمد پر حیران تھا۔
اس نے ہاتھ ہلا کر اپنے جذبات کا احساس دلایا تو میں سکون سے محفل کی طرف متوجہ ہوگیا ،جو اب گرم ہوچکی تھی۔
وہاں کافی طوائفیں ناچ رہی تھیں۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ تاہم میری نگاہ ایک سرو قد طوائف پر جم کر رہ گئی۔ سیاہ لباس میں ملبوس وہ تیز روشنی میں دمک رہی تھی۔ جوانی تو جیسے اس پر ٹوٹ کر آئی تھی۔ سیندورملا گورا بدن اس کے لباس میں سے چھلک رہا تھا۔
بہت حد تک عیاں اور تھوڑا بہت نہاں گورا بدن تراشا ہوا لگ رہا تھا۔ کھلے ہوئے گیسوؤں میں گول چہرہ چمکتے چمکتے‘ کافی حد تک پسینے میں بھیگی ہوئی۔ سب سے بے نیاز‘ فلمی گیت کی لے پر جنونی انداز میں ناچ رہی تھی۔ شاید مجھے اس میں انفرادیت اس لیے دکھائی دے تھی کہ وہ بس محور رقص تھی۔ خود ساختہ ادائیں نہیں دکھا رہی تھی۔ وہ مجھ سے ذرا فاصلے پر تھی۔
میں نے اس کے چہرے کے نقوش دیکھے مگر اس کے حسن کو محسوس نہ کرسکا۔ جیسے اس کے بدن کی تمام تر وادیاں میرے سامنے تھیں لیکن وہ ساری بھول بھلیاں ابھی اوجھل تھیں جن میں کوئی گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ میری نگاہ اس پر ٹک کر رہ گئی۔ فقط میں ہی نہیں وہاں پر موجود زیادہ تر لوگوں کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ عورت جو کچھ ڈھکی اور زیادہ عیاں ہو‘ جس کے بدن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو‘ اتنے بڑے ہجوم میں اعتماد اور بے نیازی سے اپنے فن میں ڈوبی ہوئی ہو‘ ایسی حسینہ کسی بھی مرد کے دل میں اُتر جائے تو یہ ایک فطری سی بات ہوتی ہے۔
اس وقت وہ سرو قد طوائف زادی آسمان سے اتری ہوئی پَری ہی دکھائی دے رہی تھی۔ خود میں نے اپنے من میں اس کی کشش کے بارے میں لہر اٹھتی ہوئی محسوس کی تھی۔
رات جس قدر گہری ہوتی جا رہی تھی، پنڈال میں اسی قدر جوش و مستی چھا رہی تھی۔ امیر زادے اپنی امارت کے نشے میں مخمور نوٹ برساتے چلے جا رہے تھے۔ میں ان امیر زادوں کو ذاتی طور پر جانتا تھا۔
وہ سب ان محو رقص طوائفوں کے ساتھ مست تھے۔ زمین کے اس ٹکڑے پر یہ محفل گرم تھی جبکہ آسمان پر چاند پوری آب و تاب سے چاندنی کی ٹھنڈک لٹا رہا تھا۔ تین دن اور تین راتیں لگنے والا یہ میلہ بڑا ہی رنگین ہوا کرتا تھا۔ اس میلے میں شرکت کے لیے پورا علاقہ سال بھر انتظار کیا کرتا تھا بلکہ اس کے لیے بھرپور تیاریاں بھی کی جاتی تھیں۔ تقریباً پچاس گاؤں اور ان کے درمیان چھوٹی بڑی بستیوں سے کئی نوجوان مختلف کھیلوں کے لیے تیار ہوا کرتے تھے۔
انہی نوجوانوں کے درمیان مقابلے ہوتے جو جیت جاتا وہ اپنا اعزاز بچانے کے لیے مزید محنت کرتا اور جو ہار جاتے وہ جیتنے کی خواہش میں سخت سے سخت محنت سے گزرتے۔ یوں پورا علاقہ چند دھڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور ہر دھڑے کی سرپرستی کوئی نہ کوئی امیر زادہ کرتا۔ سبھی اپنے اپنے نوجوانوں اور شہہ زوروں پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ اس لیے علاقے میں بہت سارے گبھرو اور شہہ زور جوان نکلا کرتے تھے۔
اس کے درمیان مقابلے کروانے کے لیے علاقے کی ایک انجمن بنی ہوئی تھی جو نہ صرف امن و امان بر قرار رکھتی بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازتی تھی۔ یہ انجمن خاصے مضبوط لوگوں کی تھی، سبھی ان کا حکم مانتے تھے۔
پاکستان بننے سے بھی کہیں پہلے اس میلے کی ابتدا نجانے کب ہوئی تھی۔ اس بارے میں کوئی نہیں جانتا بس ایک روایت تھی کہ ایک بزرگ جسے لوگ مسافر شاہ کے نام سے جانتے تھے وہ اس میلے والے میدان کے ایک کونے میں کچھ عرصہ ٹھہرے تھے۔
جہاں اب ایک پختہ تھڑا بنا ہوا تھا۔ وہیں ایک برگد کا درخت تھا۔ جس پر معلوم نہیں کتنے برس گزر چکے تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس پورے علاقے میں کہیں کوئی برگد کا درخت نہیں تھا۔ میلے والے میدان میں جنگلی جھاڑیاں اُگا کرتی تھیں۔ نجانے کب اس جگہ کے بارے میں مشہور ہوگیا کہ اگر کوئی وہاں منّت مان لے تو اس کی مراد پوری ہوجاتی ہے۔ کیونکہ مسافر شاہ نے اپنے قیام کے دوران بہت سارے لوگوں کو فیض یاب کیا تھا۔
عوام اس برگد کے درخت کو بڑے احترام سے دیکھتے تھے۔ ان کے خیال میں وہ درخت مسافر شاہ نے لگایا تھا۔ لوگ اس درخت پر مَنّت کا رنگین دھاگہ باندھتے تھے۔ پہلے پہل وہ تھڑا کچا تھا۔ مجھے جہاں تک معلوم تھا اس تھڑے کو شاہ زیب کے پڑ دادا نے پختہ کروایا تھا۔ اس کے ساتھ ایک کنواں بھی کھدوایا اور اس تھڑے کے ارد گرد چار دیواری کا حصار بھی بنا دیا۔
عمومی طور پر سارا سال وہ میدان خالی رہتا۔ راہ چلتے مسافر اس برگد کے درخت تلے کچھ دیر آرام کرتے۔ کنویں سے پانی پی کر اپنی پیاس بجھاتے اور اپنی راہ لیتے۔ ارد گرد کے غریب لوگ جنگلی جھاڑیاں کاٹ کر لے جاتے۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ اتنے بڑے میدان پر کسی جاگیردار یا سردار کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ میلہ شروع ہونے سے چند دن قبل کھمبیوں کی مانند رونق ابھرنے لگتی۔
پہلے دکانیں سجنے لگتیں پھر دور و نزدیک سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے فنکار جمع ہونا شروع ہوجاتے۔ تھیٹر‘ موت کا کنواں‘ بازی گر‘ نٹ باز‘ بہروپیے‘ جادوگری اور شعبدہ بازی کے کمالات دکھانے والے سنیاسی‘ حکیم‘ پتھر بیچنے والے‘ عورتوں کے ہار سنگھار اور بچوں کے کھلونے فروخت کرنے والے اور نجانے کون کون سے حلوائی آجاتے۔ ہر کوئی اپنے فن کا مظاہرہ کرتا اور داد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی رقم کما لے جاتا۔
اس میلے میں ایک بڑا میدان مختلف مقابلوں کے لیے مختص تھا۔ میلے کے دنوں سے پہلے ہی امیر‘ امراء اپنے اپنے شہ زوروں‘ فنکاروں اور نوجوانوں کے ساتھ وہاں ڈیرے ڈال لیتے۔ مختلف مقابلے ہوتے‘ شرطیں لگتیں‘ انعامات ملتے‘ جیتنے ہارنے کے نجانے کتنے منظر دیکھنے کو ملتے اور پھر آخری رات اس میدان میں طوائفیں آجاتیں۔ تب رنگین مزاج لوگ اس ماحول کو رنگین تر کردیتے۔ رات کے آخری پہر تک سماں بندھا رہتا۔ امیر زادوں میں نوٹ برسانے کا مقابلہ چلتا۔ جس کے پاس نوٹ ختم ہوجاتے یا وہ حوصلہ ہار جاتا وہ چپکے سے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے نکل جاتا۔ محفل کے اختتام تک نوٹ لٹانے والے کی واہ واہ پورا سال علاقے بھر میں گونجتی رہتی۔