Episode 4 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 4 - قلندر ذات - امجد جاوید

یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ وہاں پر آنے والی طوائفیں ایک ہی خاندان سے ہوتی تھیں۔ یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کی پشت میں سے کون سی طوائف پہلے یہاں آئی تھی۔ یہ بات بھی روایت کی طرح مشہور تھی کہ جب مسافر شاہ کا یہاں قیام تھا ان دنوں ایک طوائف کا گزر یہاں سے ہوا تھا۔ وہ بڑی بے بس اور غریب تھی۔ نہ اس کے پاس خوب صورتی تھی اور نہ دولت‘ وہ جب یہاں سے پلٹ کر گئی تو اس کی قسمت ہی بدل گئی۔
دوبارہ جب وہ یہاں آئی تو مسافر شاہ نہیں تھے۔ وہ رات بھر یہاں ناچتی رہی۔ پھر اس کے خاندان سے طوائفیں یہاں آنے لگیں۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ یہیں ایک رات یہاں مجرا کرتی تھیں۔ پھر اس کے بعد سال بھر وہ کہیں بھی کوئی محفل نہیں سجاتی تھیں۔ اب یہ بات درست تھی یا غلط‘ کسی نے بھی تحقیق نہیں کی تھی۔

(جاری ہے)

میلے کی آخری شام ڈھلتے ہی وہ لوگ آجاتے۔

رات بھر محفل رنگین کرتے اور صبح سورج نکلنے سے پہلے ہی واپس لوٹ جاتے۔ وہ لوگ کبھی کسی کے مہمان نہیں رہے تھے۔ بچپن سے میں یہی سنتا آیا تھا۔ پہلے میں ہر سال میلہ دیکھنے آتا تھا لیکن چند سال ہوئے ادھر نہیں آیا تھا۔ اس بار شاہ زیب کی خصوصی دعوت پر چلا آیا تھا۔ وہ اگر دعوت نہ بھی دیتا تو میں نے اس بار میلے میں ضرور آنا تھا۔
اس وقت رات گہری ہوگئی تھی۔
وہ سرو قد طوائف زادی پسینے میں شرابور تھی۔ اس کا سیاہ لباس بھیگ کر بدن سے چپک گیا تھا۔ جس قدر اس کا پسینہ بہہ رہا تھا۔ تماش بین اسی قدر نوٹوں کی بارش کررہے تھے۔ مجھ سے ذرا فاصلہ پر شاہ زیب بھی اپنے سامنے نوٹوں سے بھرا تھیلا رکھے ہوئے تھا۔ 
اس دفعہ اس کا خمار ہی عجیب تھا۔ میلے کے ان تین دنوں میں اس کی سرپرستی میں نوجوانوں نے سب سے زیادہ انعام جیتے تھے۔
ان شہہ زوروں‘ محافظوں‘ نوجوانوں اور گاؤں کے لوگوں کے درمیان وہ کھل کر ان طوائف زادیوں کو داد و تحسین سے نواز رہا تھا۔ کچھ طوائفیں تھک ہار کر بیٹھ گئی تھیں۔ جس طرح کچھ امیر زادے اپنی ہار تسلیم کر کے وہاں سے چلے گئے تھے اس وقت شاہ زیب کے سامنے ایک اکیلا پیرزادہ فیروز کا بیٹا‘ پیر زادہ وقاص ہی ڈٹا ہوا تھا۔ یہی دکھائی دے رہا تھا کہ اس کے پاس نوٹ ختم ہی نہیں ہو رہے ہیں۔
ان دونوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ باقی بچی ہوئی طوائفیں انہی دونوں کے درمیان بٹ کر رہ گئی تھیں۔ لاشعوری طور پر یہی وہ فیصلہ کن لمحات تھے۔ جو سبھی طوائفوں کو اپنے سامنے ناچنے پر مجبور کردے وہی یہ مقابلہ جیت جائے جاتا، ورنہ سامنے والے کے نوٹ ختم ہوجانے تک یہ مقابلہ جاری رہنا تھا۔ 
میں اس سرو قد طوائف زادی میں کھویا ہوا تھا جو ہمارے سامنے ناچ رہی تھی۔
یوں دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے اسے اپنا ہوش ہی نہیں ہے۔ وہ مست الست حالت میں تھی۔ اس کے ساتھ دوسری چند طوائفیں بھی تھیں مگر اس کا جنون بالکل منفرد تھا۔ اسے کوئی ہوش ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے؟ 
وہ شاہ زیب کے سامنے سے ہٹی ہی نہیں تھی چند طوائفیں پیر زادہ وقاص کے سامنے تھیں۔مگر لوگوں کی توجہ ان پر نہیں تھی۔ یوں پورا پنڈال اس سرو قد حسینہ کی طرف متوجہ تھا۔
شاہ زیب نے اس کی مستی اور جنونی کیفیت کے پیش نظر اپنے دونوں ہاتھوں میں نوٹ پکڑے اور اٹھ کر نوٹ وارنے لگا۔ جس پر پنڈال میں ہاؤ ہوکا شور مچ گیا۔ پیر زادہ وقاص کے سامنے ناچنے والی طوائفوں کو ہر کوئی بھول گیا۔ مجمع سمٹ کر اس سروقد طوائف زادی کے ارد گرد جمع ہونے لگا۔ یہ پیر زادہ وقاص کے لیے بڑی ہتک کی بات تھی۔ ایک بارگی اس کی طرف سے ایک نوجوان اٹھا اور بڑی تیزی سے آکر اس سرو قد طوائف زادی پر نوٹ برسانے لگا۔
کوشش یہی تھی کہ وہ اس حسینہ کو اپنی جانب متوجہ کرلے یا پھر اسے مائل کر کے اپنی طرف لے جائے۔ شاید اس طرح ہاتھ سے جاتا ہوا میدان وہ مارلیں۔ مگر وہ سرو قد حسینہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔ اسی جنونی انداز سے ناچتی رہی کہ جیسے اسے اپنے ارد گرد کا ہوش ہی نہیں ہے۔ اس نوجوان کو جب اپنی کوشش رائیگاں جاتی ہوئی دکھائی دی جو بلا شبہ شرمندگی کا باعث تھی۔
تب اس نوجوان نے سرو قد طوائف زادی کا بازو پکڑ لیا۔ وہ اسے اس جانب لے جانے کی کوشش کرنے لگا جس طرف سے وہ آیا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کوئی طوائف کو ہاتھ لگائے۔ یہی وہ لمحات تھے جب میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ جس مقصد کے لیے شاہ زیب نے مجھے دعوت دی تھی یا پھر یہاں آنے کا نادیدہ بلاوا تھا، وہ وقت آن پہنچا ہے۔
 
بلاشبہ میرے لیے امتحان کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ کیونکہ شاہ زیب کے حواری اور مصاحب اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ چلتا ہوا گیت اچانک رک گیا تو ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ جس کے ساتھ ہی اس سرو قد طوائف زادی کو ہوش آگیا۔ اس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے ارد گرد دیکھا پھر حیرت اور غصے سے اس نوجوان سے اپنا بازو ایک جھٹکے سے چھڑا لیا۔ تبھی شاہ زیب کی آواز گونجی۔
”اُو نوجوان! ایسا نہ کرو… مقابلہ کرو مقابلہ… نوٹ اگر کم پڑ گئے ہیں تو مجھ سے لے لو‘ لیکن مقابلہ کرو‘ یہ جو تم کر رہے ہو میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی گڈیاں اس نوجوان کی طرف پھینکتے ہوئے کہا۔ ”یہ لو‘ صبح ہونے کا انتظار کرو اور مقابلہ کرو۔“ 
شاہ زیب کی آواز کیا گونجی پورے پنڈال میں سناٹا چھا گیا۔
جبکہ میرے بدن میں وہی سنسناہٹ ہونے لگی تھی جو بھوکے شیر کو اپنا شکار مل جانے پر ہوتی ہے۔ میرے جبڑے بھنچ گئے تھے پھر وہی ہوا جو میں سوچ رہا تھا۔ پیر زادہ وقاص کی طرف چند لوگ اٹھے وہ انتہائی غیظ و غضب میں تھے۔ ان کے پیچھے بہت سارے لوگ بڑھے چلے آرہے تھے۔ وہ میدان جہاں چند منٹ پہلے تک طوائفیں ناز و انداز کے ساتھ محو رقص تھیں۔ وہی اب میدان کارزار بن گیا تھا۔
ایک ہجوم ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہوگیا۔ اسی دوران پیر زادہ وقاص کی طرف سے کسی نے ہوائی فائر کردیا۔ فائر کی آواز نے میرے اعصاب کے تار ہلا دیے۔ ممکن ہے اس کا مقصد یہی رہا ہو کہ لوگ ڈر جائیں اور خوف زدہ ہو کر بھاگ جائیں۔ تبھی میرے قریب کھڑے شاہ زیب نے میری جانب دیکھا اور کہا۔ 
”جمال! جس کے پاس بھی اسلحہ ہو وہ یہاں سے بچ کر نہ جائے۔
باقی میں سنبھال لیتا ہوں۔“ 
جیسے ہی اس کے لفظ میرے کانوں میں پڑے اس لمحے میرا پسٹل میرے ہاتھوں میں تھا اور میں اس کا سیفٹی کچ ہٹا چکا تھا۔ وہاں کسی کو قتل کرنا مقصد نہیں تھا بلکہ جو بھی اسلحہ چلانے کی کوشش کرتا اسے اس طرح زخمی کردیا جائے کہ وہ اسلحہ نہ چلا سکے۔ اب یہ کڑے امتحان والی بات تھی کہ اتنے بڑے ہجوم میں فائر اس طرح کیا جائے کہ سامنے والا محض زخمی ہو۔
شاہ زیب کو معلوم تھا کہ میرا نشانہ کس طرح ”سُچّا “ہے اور مجھے بھی اپنے فن پر ناز تھا۔ اس لیے میں نے پہلا نشانہ ہی اس بندے کا لیا جس نے ہوائی فائر کیا تھا اور اس فائر کا رد عمل دیکھ رہا تھا۔
 ایک دھماکے کے ساتھ پیر زادہ وقاص کے پاس ایک چیخ اُبھری۔ تب تک میں اپنی جگہ تبدیل کر کے نسبتاً اندھیرے میں اونچی جگہ پر پہنچ چکا تھا۔ میں نے یکے بعد دیگرے دو مزید بندوں کا نشانہ لیا اور وہاں سے ہٹ گیا۔
وہاں ہلچل مچ گئی۔ کچھ دیر پہلے جہاں جوش بھرے نعرے اور جوانی سے بھرپور رنگین فقرے بازی ہو رہی تھی اب وہاں خوف میں لپٹی ہوئی چیخیں اور جان بچانے کی فکر میں لوگوں کی بھگدڑ تھی۔ دونوں حریفوں کے لوگ گتھم گتھا تھے جبکہ میں یہی دیکھتے ہوئے اندھیرے میں ہوگیا کہ مخالف فریق میں سے اسلحہ کس کس کے پاس ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کس حریف کا پلہ بھاری پڑ رہا ہے۔
مجھے تو اپنا کام کرنا تھا۔ 
پیر زادہ وقاص کے ارد گرد چند محافظ تھے۔ ان کے پاس مختلف ماڈل کی گنیں تھیں۔ میں اگر انہیں ہی نشانہ بنالیتا تو نہ صرف پیر زادہ کی ہَوا نکل جاتی بلکہ وہ فائر بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ جتنی جلدی ہوجاتا اتنا ہی فائدہ مند تھا۔ دشمن کے بارے میں جب یہ یقین ہوجائے کہ وہ وار کرے گا تب ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس پر وار کردو‘ ورنہ اس نے تو وار کرنا ہی ہے۔
دشمن کو موقع دینا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ پیر زادہ وقاص کے حصار کو خوف زدہ کردینا صرف اور صرف سَچے اور سُچے نشانے ہی سے ممکن تھا۔ میری پہلی نگاہ میں وہ شخص آیا جو اپنی گن کو بولٹ مار چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ فائر کرتا‘ میں نے اس پر فائر جھونک دیا اگلے ہی لمحے وہ چیخ مار کر ڈھیر ہوگیا۔ گولی اس کے کندھے کو چیر گئی تھی۔
پھر میں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے چہروں پر حیرت کس قدر ہے۔ 
وہ گولی کی سمت ہی متعین کرتے رہ گئے اور میں نے اس کے حصار پر اپنا میگزین خالی کردیا۔ یکے بعد دیگرے کئی فائر ہوئے تھے اس لیے انہیں سمت کا اندازہ ہوگیا۔ تبھی ایک گولی سنسناتی ہوئی آئی اور میرے قریب سے گزر گئی۔ اگر میں نے عادت کے مطابق جگہ تبدیل نہ کی ہوتی تو بلا شبہ وہ گولی میرے بدن میں پیوست ہوجاتی ۔
میں نے میگزین بدلا اور جگہ بدل کر فائر کرنے لگا۔ ان دیکھی موت کا خوف زیادہ ہوتا ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی اسلحہ بردار ڈھیر ہوگئے تو ان میں مقابلے کی سکت نہ رہی۔ ان دیکھی گولیوں کا شکار وہیں گر کر تڑپنے لگے تو پیر زادہ وقاص میں دم نہیں رہا۔
 میں نے دیکھا وہ تیزی سے لوگوں کے درمیان میں سے نکلتا چلا جا رہا ہے۔ میں نے اس کا نشانہ لیا اور چاہا کہ اسے زخمی کردوں مگر نجانے کیا سوچ کر اس کے قریب کھڑے بندے پر فائر جھونک دیا۔
وہ بندہ چیخ مارتے ہی الٹ گیا۔ تبھی اس کا خوف دیدنی تھا۔ اگلے ہی لمحے اس کا پتا ہی نہ چلا کہ وہ کدھر گیا۔ میرا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ میرا پورا دھیان اس طرف تھا کہ گولی کسی کو بھی ایسی جگہ نہ لگے جس سے وہ مرجائے صرف انہیں زخمی کرکے دہشت زدہ کرنا تھا اور وہ ہوگئے۔
 پیر زادہ وقاص کو میں خوف زدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اپنے سردار کو وہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھ کر اس کے حواری بھی تتر بتر ہونے لگے۔
جس کے جس طرف سینگ سمائے وہ اس طرف نکل گیا۔ خوف کی اس فضا میں دونوں طرف سے ہی لوگ زخمیوں کو اٹھا کر بھاگنے لگے۔ گاڑیاں اسٹارٹ ہونے لگیں اور اندھیرے میں لوگ بھاگنے لگے۔ تقریباً پندرہ منٹ کے دورانیے میں وہ میدان ایک الم ناک انجام کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بس چیخ و پکار‘ خوف و ہراس اور زخمیوں کی کراہیں تھیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ ان میں سے کوئی مر گیا ہے یا نہیں لیکن یہ میدان بھی ہمارے گاؤں کے لوگوں نے مار لیا تھا۔
میں دور کھڑا شاہ زیب کے چہرے پر پھیلی عجیب سی فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ رہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے زخمیوں کو اٹھا کر لے جا رہے تھے۔ اب میرا وہاں کوئی کام نہیں تھا۔ میں تیز قدموں کے ساتھ اندھیرے میں اس سمت بڑھ گیا جدھر میری بائیک کھڑی تھی۔ وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ کوئی اسے اٹھا کر نہیں لے گیا تھا۔ میں نے پسٹل اپنی ڈب میں رکھنے سے پہلے اس کا میگزین دیکھا اسے نکال کر دوسرا لگایا۔ پھر اُڑس کر بائیک نکال کر وہاں سے چل دیا۔ اندھیرے میں ذرا فاصلے پر بائیک کی روشنی میں برگد کا درخت مسافر شاہ کا تھڑا اور اس کے قریب کھڑے چند لوگ ایک لمحہ کے لیے میری نگاہوں میں آئے اور پھر میں اپنے گاؤں جانے والے راستے پر ہو لیا۔ 

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط