Episode 6 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 6 - قلندر ذات - امجد جاوید

میں بائیک لیے اندر چلا گیا۔ وہاں میں نے بائیک روک کر بند کردی تو وہ نیچے اتر آئی۔ دو سیڑھیاں چڑھنے کے بعد بڑا سارا صحن تھا اور پھر اس سے آگے دالان تھا۔ اماں ہمارے پاس سے گزر کر اندر کی جانب بڑھ چکی تھیں۔ میں دالان میں گیا تو وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آگئی۔ تبھی اماں کمرے میں سے نکلی اس کے ہاتھوں میں ایک زنانہ جوڑا تھاجو وہ اس طوائف زادی کی جانب بڑھاتے ہوئے بولیں۔
 
”جاؤ‘ پہلے نہا کر یہ کپڑے پہنو پھر کوئی بات کرتے ہیں۔“ 
تبھی میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کا سیاہ لباس کہیں کہیں سے پھٹ چکا تھا۔ پاؤں میں جوتا بھی نہیں تھا۔ اس کی گوری پنڈلیوں پر پڑی خراشوں سے خون رس کر سوکھ چکا تھا۔ وہ جوڑا پکڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی تو اماں نے دیوار کے ساتھ پڑے اپنے سلیپروں کی جانب اشارہ کیا تو وہ انہیں پہن کر اس جانب بڑھ گئی جدھر غسل خانہ تھا۔

(جاری ہے)

تبھی میں نے اماں کی توجہ بٹانے کے لیے کہا۔ 
”اماں‘ بڑی سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔“ 
”کھانا موجود ہے جب تک وہ نکلتی ہے میں گرم کردیتی ہوں۔ تُو بھی اپنا حلیہ ٹھیک کر جاکے‘ لگتا ہے اس بار میلے میں کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔“ آخری فقرہ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا۔ 
”ہاں اماں‘ لڑائی ہوگئی تھی کافی بندے زخمی ہوگئے ہیں ۔اصل میں یہ پھڈا…!“
”تم نے کتنے بندوں کو زخمی کیا ہے‘ کوئی مرا تو نہیں؟“ اس نے تشویش زدہ لہجے میں پوچھا۔
 
”پتا نہیں‘ صبح پتا چلے گا۔“ میں نے گول مول بات کرنا چاہی۔ ”وہ شاہ زیب کی جان کو آئے تھے میں نہ ہوتا تو شاید وہ آج زندہ نہیں بچتا… بس اسی وجہ…!“
”تجھے معلوم ہے نا کہ تو مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔“ اماں نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔ 
”تو اماں پھر مت پوچھو‘ جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔“ میں نے سر کھجاتے ہوئے آہستگی سے کہا تو وہ میری طرف چند لمحے دیکھتی رہیں پھر کچن کی جانب بڑھ گئیں۔
میں نے سکون کا سانس لیا اور گیٹ بند کرنے کے لیے چلا گیا۔ صحن کے کونے میں بنے باتھ روم میں نہانے کی آواز چھن کر باہر آرہی تھیں۔ میں نے ان پر توجہ نہیں دی بلکہ باہر والے کمرے میں چلا گیا۔ 
میں تازہ دم ہو کر آیا تو دالان میں پڑی چارپائیوں پر اماں نے کھانا رکھ دیا تھا۔ وہ سرو قد طوائف زادی ایک دوسری چارپائی پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہوئی تھی۔
اس کے بدن پر دیہاتی عورتوں کا لباس خوب جچ رہا تھا۔ بلب کی پیلی روشنی میں وہ بھیگی بھیگی ہوئی خاصی پرکشش لگ رہی تھی۔ 
”تمہارا نام کیا ہے؟“ میں نے اس کے پاس دھری دوسری چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ 
”نام تو میرا سوہنی ہے اب تم جس نام سے چاہو پکار لو۔“ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔ تو ایک لمحے کے لیے اس کا سادہ سادہ سا بغیر میک اپ کا چہرہ مجھے پر کشش لگا۔
دل چاہا کہ اسے غور سے دیکھوں لیکن اماں کا احساس کرتے ہوئے میں نے جلدی سے ایک روٹی نکال کے چنگیر میں رکھی ، اس پر ذرا سا سالن رکھا اور اطمینان سے کھانے لگا۔ جی بھر کے کھانے کے بعد میں نے کچن کی طرف دیکھا۔ اماں پیالوں میں چائے ڈال رہی تھیں۔ چند لمحوں بعد وہ چائے لے کر آگئیں۔ 
”اے لڑکی‘ کھانا کھالیا تونے؟“ اماں نے سوہنی کے سامنے پڑی خالی چنگیر کی طرف دیکھتے ہوئے ہولے سے پوچھا۔
 
”جی۔“ وہ سر ہلاتے ہوئے دھیرے سے منمنائی تو اماں نے اپنے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ 
”لو‘ یہ چائے پیو اور وہاں اس کمرے میں میرے ساتھ آکر سوجانا۔ جو باتیں بھی کرنا ہوں وہ صبح کرلینا۔“ 
”جی اچھا۔“ اس نے پھر منمنانے والے انداز میں کہا اور پیالہ پکڑ لیا۔ میں اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس دوران اماں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
میری نگاہوں سے پنڈال میں ناچنے والی وہ طوائف زادی گم ہوچکی تھی۔ جس کے نقوش دیکھنے کی خواہش میرے دل میں اٹھی تھی۔ اب وہ مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر موجود تھی۔ اس وقت وہ ایک دیہاتی الہڑ مٹیار دکھائی دے رہی تھی۔ بھیگے ہوئے سیاہ گیسو‘ بڑی بڑی کاجل بھری زندگی سے بھرپور آنکھیں‘ بھرے بھرے گال‘ ستواں ناک میں سونے کی ہلکی سی تار تھی۔ رس بھرے گلابی ہونٹ‘ جن کی ہلکی ہلکی لکیریں دور ہی سے دکھائی دے رہی تھیں۔
شفاف گردن‘ بھاری سینہ اور پتلی سی کمر‘ دفعتاً مجھے خیال آیا کہ اس کی پنڈلیاں زخمی تھیں۔ 
”اماں نے دوا دی تھی وہ لگا لی تھی میں نے…!“ وہ اچانک بولی تو میں حیران رہ گیا۔ اس نے تو میری نگاہیں پڑھ لیں میں ابھی اس حیرت سے نکلا نہیں تھا کہ وہ بولی۔ ”لڑکپن سے جوانی تک یہی سیکھا ہے کون کس نگاہ سے ہمیں دیکھتا ہے۔“ اس کے لہجے میں اعتماد اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
تبھی میں نے خوش گوار انداز میں پوچھا۔ 
”اچھا ہے‘ تم نے مجھے بتا دیا خیر۔ اب جاؤ اور جا کر اماں کے پاس سوجاؤ۔“ 
”دل تو چاہتا ہے کہ ابھی جا کر سکون سے سو جاؤں مگر مجھے نیند نہیں آئے گی۔“ اس نے دھیمے سے کہا۔ 
”ہاں اجنبی جگہ پر ایسا ہوتا ہے۔ مگر تم اماں کے پاس جا کر لیٹو گی تو نیند آجائے گی۔ اب تم میرے گھر میں ہو کسی بھی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے تمہیں۔
“ میں نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ 
”بات یہ نہیں ہے‘ میرے ساتھ کے لوگ نجانے کہاں ہوں گے۔ ان کے ساتھ کیا بیتی؟ وہ مجھے تلاش کر رہے ہوں گے۔ پتا نہیں وہ لوگ اس وقت کہاں ہوں گے؟“ وہ ایک ہی سانس میں تیزی سے کہہ گئی۔ 
”صبح ہونے میں چند گھنٹے ہیں۔ تم آرام کرو ،دن نکلتے ہی سب معلوم ہوجائے گا۔ میں تمہیں خود ان کے پاس چھوڑ آؤں گا۔
“ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ میری چائے ختم ہوچکی تھی۔ اس لیے خالی پیالی وہیں رکھ کر اٹھ گیا۔ اٹھتے ہوئے جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی نگاہوں میں ایسا بہت کچھ تھا جس کے بہت زیادہ مفہوم نکالے جاسکتے تھے۔ مگر میں کوئی ان پڑھ دیہاتی نوجوان تو نہیں تھا جو اس کی نگاہوں کو نہ سمجھ پاتا۔ وہ انہی اداؤں ہی سے تو دوسروں کو لوٹ لینے کا ہنر جانتی تھی۔
میں نے ایک ہلکی سی مسکان کے ساتھ اس کی نگاہ کا سحر خود پر سے توڑا اور باہر والے کمرے میں جا کر لمبی تان کر سو گیا۔ 
مجھے یہی لگا کہ جیسے ایک جھپکی سی آئی ہے، آنکھ کھلی تو صبح کا ملگجا اجالا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ سورج ابھرنے میں ابھی وقت تھا۔ دالان کے پاس اماں جائے نماز بچھائے نماز پڑھ رہی تھی اور سوہنی اماں والے کمرے میں چارپائی پر بے سدھ پڑی سو رہی تھی۔
میں نے منہ ہاتھ دھویا اور معمول کے مطابق ڈیرے پر جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ دعا مانگتے ہوئے اماں نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر دعا مانگنے لگی۔ میں نے بائیک اٹھائی اور ڈیرے کی جانب چل دیا۔ جہاں بھیدہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ 
بھیدہ چاہے میرا ملازم تھا لیکن میں نے اسے ڈیرے کا مالک بنایا ہوا تھا کہ وہ جو چاہے سو کرے۔ وہ میرے بچپن کا دوست تھا۔
پرائمری تک میرے ساتھ پڑھا تھا۔ پھر غربت کی وجہ سے نہ پڑھ سکا اور نہ کچھ کرسکا۔ اب جبکہ وہ جوان ہوگیا تو میں نے اس کے معاملات کی ذمہ داری لے لی۔ وہ ہی نہیں میں بھی بے فکر ہوگیا تھا۔ ہم اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ ڈیرے پر حویلی کا خاص ملازم فخرو آگیا۔ 
”بولو‘ کیا بات ہے؟“ میں نے ڈیرے کے صحن میں پڑی چارپائی پر اسے بٹھا کر اسکے پاس بیٹھ کر پوچھا۔
 
”تمہیں سردار شاہ دین نے حویلی بلایا ہے۔“ اس نے اپنا پیغام دے دیا۔ 
”اتنی صبح صبح‘ خیریت تو ہے نا۔“ میں نے پوچھا۔ 
”سردار جی تو ساری رات سوئے ہی نہیں ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے مجھے پیغام دینے کا کہہ کر گئے ہیں شاید ان کا یہ خیال ہو کہ تم کسی اور طرف نہ نکل جاؤ‘ دن چڑھے آجانا۔“ اس نے تفصیل سے سمجھا دیا۔ 
”اچھا ٹھیک ہے میں یہاں سے گھر جاتے ہوئے آجاؤں گا۔
“ یہ کہہ کر میں اپنے کام میں لگ گیا۔
پیغام دے کر فخرو چلا گیا۔ مجھے امید تھی کہ بھیدہ کوئی تبصرہ کرے گا مگر خلاف معمول اس نے کوئی بات نہیں کی بلکہ اپنے کام میں مگن رہا۔ جبکہ میں دھیرے سے زیر لب ہنس دیا۔ میں نے ایک رات پہلے خوا ب دیکھا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ اسی خواب کی تعبیر کی شروعات ہیں۔ شاہ دین جیسے بندے کا مجھے بلانا، انتہائی معنی خیز تھا۔
میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک جنگل میں ہوں۔ ہر طرف سے خوف ناک آوازیں آ رہی ہیں۔ یکایک مختلف جانور میرے سامنے آ گئے۔ ان میں سے کئی مجھ پر حملہ کرنے لگے۔میں ان سے لڑتا رہا۔ یہاں تک کہ میں لہو لہان ہو گیا۔ اچانک جنگل جلنے لگا۔ وہ سب جانور ڈر کے مارے بھاگنے لگے کچھ میرے پیچھے لگ گئے۔ میں جنگل سے نکلنے کی کوشش میں لہو لہان ہورہا تھا۔ پھر اچانک میں جنگل سے باہر آ گیا۔ سبھی جانور جنگل ہی میں رک گئے۔ تبھی میری آنکھ کھل گئی تھی۔ اس خواب کا ایک ایک لمحہ میرے ذہن میں نقش ہو گیا تھا۔ میں چند لمحے اس کے سحر میں رہا اور پھر اُٹھ کر اپنے کام میں لگ گیا۔ 
                                   #…#…#

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط