یہیں اس حویلی میں یہاں صحن‘ بر آمدے اور ان کمروں میں اس کا باپو‘ ماں‘ تائے‘ تائیاں‘ چاچا‘ چاچی ان کے بچے‘ اور پھوپھی… سب زندہ رہے تھے اور اب… ایک دم سے کہرام زدہ چیخ و پکار اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔ ہَوائیں بین کرنے لگیں۔ دیواریں ماتم کناں ہونے لگیں۔ اس آہ و بکا میں وہ جی کڑا کر کے وہیں کھڑا رہا۔ اس کے اندر نفرت کا الاؤ پوری قوت سے تڑتڑانے لگا تھا اور وہ لمحات کسی تیل کی مانند اسے مزید بھڑکا رہے تھے۔
رگوں میں دوڑتے ہوئے خون میں ہر خلیہ نفرت میں بھیگا ہوا تھا۔ جس میں انتقام رچ بس گیا تھا۔ نفرت اور انتقام دونوں مل کر اس کا جسم پھاڑ دینے کو تھے اور وہ خود کو ٹوٹ جانے سے بچا کر اپنے آپ پر قابو پا رہا تھا۔ ان لمحات میں اگر وہ خود پر قابو نہ رکھ پاتا تو ساری زندگی کی ریاضت ضائع ہوجانے والی تھی۔
(جاری ہے)
ایسے وقت میں جبکہ وہ خود کو سنبھال رہا تھا۔
اس کی پشت پر ایک نرم سا ہاتھ آن ٹھہرا۔ اسے لگا جیسے بھڑکتی ہوئی آگ پر ساون کی رم جھم پھوار پڑنے لگی ہے۔ وہ چونک گیا اس نے آہستگی سے مڑ کر دیکھا۔ نگاہوں میں مامتا‘ چہرے پر موٹے نقوش‘ کھلتے ہوئے رنگ میں سے جھلکتا خلوص‘ سر پر موتیا رنگ کا آنچل لیے فربہ مائل بزرگ سی خاتون اسے پر شوق نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
”پتر جسپال‘ میں انوجیت کی بے بے ہوں ،تیری پھوپھو سکھ جیت کور کی گہری سہیلی کلجیت کور۔
“
”کلجیت کور… ! آپ۔“ جسپال سنگھ نے حیرت سے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ نام اس نے اپنی پھوپھو سے بارہا سنا تھا۔
”ہاں پتر! تو چل میرے ساتھ گھر وہیں چل کر باتیں کرتے ہیں۔ میں اس لیے یہاں آئی ہوں تو جتنی دیر یہاں ٹھہرے گا اتنا ہی…!“ یہ کہتے ہوئے کلجیت کور کا اپنا گلا رندھ گیا۔
جسپال نے چند لمحے کلجیت کور کے چہرے پر دیکھا جو شدت جذبات سے سرخ ہوگیا تھا۔
پھر وہ اس کے گلے لگ گیا۔ اُسے یوں لگا جیسے وہ بہت دنوں کے بعد اپنی پھوپھو سے مل رہا ہو۔ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو جسپال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر ی جانب چل دیے۔ صحن میں پھیلے ہوئے نیم کے درخت طرف دیکھتے ہوئے کلجیت کور نے کہا۔
”صرف یہی بچا ہے‘ تیری طرح… تیری اور اس کی عمر ایک جتنی ہے غور کر پتر جسپال۔ اس درخت کو پالنے والا دنیا میں کوئی شخص نہیں ہے ،پر ربّ تو ہے پالنے والا‘ دیکھ جسے کوئی نہیں پالتا رب اس کو پھل دینے والا بنا دیتا ہے۔
اسے کسی نے نہیں تراشا ،پر رب نے اس کو کس قدر سبز و شاداب کردیا ہے۔ میری یہ بات پلے باندھ لے پتر۔“
ان جذباتی لمحوں میں جسپال نے کلجیت کور کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
”پھوپھو وعدہ کریں آپ مجھے وہ سب کچھ سچ بتادیں گی جو میں نہیں جانتا۔“
”ہاں پتر میں سب کچھ بتادوں گی مگر ایک وعدہ تم نے بھی مجھ سے کرنا ہے۔
“
”ایسا کوئی وعدہ مت لینا پھوپھو جسے میں پورا نہ کرسکوں۔“ جسپال نے سوچتے ہوئے کہا۔
”چل پھر چھوڑ‘ بعد میں بات کریں گے آؤ چلیں۔“ وہ مایوسی بھرے لہجے میں بولیں اور باہر کی جانب چل دیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا باہر تک آگیا۔
باہر لوگوں کا ٹھٹ لگ چکا تھا۔ ہر کسی کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کلوندر سنگھ کا پتر اور اس حویلی کا مالک آگیا ہے۔
وہ سب اسے دیکھنے کے مشتاق تھے۔ جسپال سنگھ رک کر ان سب کو دیکھنے لگا۔ وہ سب مختلف عمر کے مرد اور عورتیں‘ جوان‘ لڑکے لڑکیاں تھیں۔ تب انوجیت نے اپنی بے بے سے کہا۔
”بے بے تم چلو‘ میں جسپال کے ساتھ تھانے سے ہو کر آتا ہوں۔“
”تھانے‘ مگر کیوں؟“ جسپال نے پوچھا۔
”کیا تم نہیں جانتے کہ تم غیر ملکی پاسپورٹ پر ویزا لگوا کر بھارت آئے ہو پھر سکھ بھی ہو۔
تھانے میں رپورٹ تو کرنا ہوگی۔ کیونکہ تم غیر ملکی ہو۔ شاید تمہیں اس ملک کا شہری بھی تصور نہ کیا جائے کہ تمہارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ تمہارا تعلق اس ملک سے ہے۔“ انوجیت کے لہجے میں طنز کی کاٹ تھی۔ جیسے وہ اس کے بارے میں نہ کہہ رہا ہو بلکہ اپنی قوم کا نوحہ پڑھ رہا ہو۔ اس پر جسپال نے طویل سانس لی اور سکون سے کہا۔
جیسے ہی کلجیت کور اپنی سفید کار میں ڈرائیور کے ساتھ واپس چلی گئیں۔ انوجیت اپنی جیپ کی طرف بڑھا۔ جسپال اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا تو اس نے جیپ بڑھا دی۔ ان کا رخ تھانے کی طرف تھا۔
#…#…#
میں بے چینی سے پیر زادہ وقاص کا انتظار کر رہا تھا۔ اب تک اس کی طرف سے آنے والے لوگوں کو آجانا چاہیے تھا۔ چھاکا تیار ہو کر آیا تو اسے بدلی ہوئی صورت حال کے بارے میں معلوم ہوا۔
اس نے فوراً ہی اپنے چند دوستوں کو اکٹھا کرلیا۔ وہ سب گھر کے باہر مختلف جگہوں پر پھیل گئے تاکہ کسی بھی نا گہانی صورت حال سے نمٹا جاسکے۔ جبکہ میں صحن میں ٹہلنے لگا۔ اماں اور سوہنی بھی صورت حال سے آگاہ تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا۔ میں دو تین بار چھت پر سے ہو کر آگیا۔ میرے گھر کی چھت سے دور تک سڑک صاف دکھائی دیتی تھی۔ اس بار جب میں چھت پر گیا تو مجھے ایک ہائی ایس وین آتی ہوئی دکھائی دی۔
مجھے اس پر شک ہوا۔ ایسی ویگنیں ہمارے علاقے میں نہیں چلتی تھیں۔ میں نے تیزی سے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا۔ پھر خود ہی اتر کر گلی میں آگیا جہاں میری بائیک پہلے ہی سے کھڑی تھی ۔چھاکے وغیرہ نے گلی میں کھڑی ہوئی جیپ کو دھکا لگا کر گلی کے کنارے لگادیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ ہائی ایس گلی میں داخل ہوئی اور پھر میرے دروازے کے سامنے آن رکی۔ اس میں کافی ساری عورتیں اور مرد تھے۔
ان عورتوں کے چہرے شناسا تھے۔ ایک موٹا سا شخص باہر نکلا اور بڑے مودب لہجے میں بولا۔
”وہ… جی… سوہنی… آپ کے پاس…!“
”وہیں ٹھہرو‘ ابھی بلاتا ہوں۔“ میں نے کہا اور پلٹ کر گیٹ میں آگیا۔ سوہنی نیم کے درخت تلے اماں کے ساتھ کھڑی تھی۔ میں نے وہیں سے ہانک لگاتے ہوئے کہا۔ ”آجاؤ‘ سوہنی تمہارے لوگ تجھے لینے کے لیے آگئے ہیں۔“
میرے یوں کہنے پر وہ اماں کے گلے لگ گئی۔
پھر اپنے آنسو پونچھتی ہوئی باہر کی جانب چل پڑی تب میں نے اسے روکتے ہوئے کہا۔
”رک جاؤ۔“ وہ ٹھٹک کر کھڑی ہوگئی۔ میں نے اماں سے کہا۔
”اماں اس کے وہ کپڑے جو یہ پہن کر یہاں آئی تھی وہ تو دے دو اسے۔“
اماں کو جیسے ہوش آگیا وہ پلٹی اور چند منٹوں میں ایک بڑا سارا شاپنگ بیگ لا کر سوہنی کو دے دیا۔ اس نے اماں کی طرف دیکھا اور پھر تیزی سے میری جانب لپکی۔
اس پر نگاہ پڑتے ہی ویگن میں موجود لوگوں کی جان میں جان آگئی۔ جبکہ سوہنی میرے سامنے کھڑی میرے چہرے پر دیکھ رہی تھی۔ اس کا انداز یوں تھا کہ جیسے میرا چہرہ اپنی آنکھوں میں جذب کر رہی ہو۔ پھر آہستگی سے بولی۔
”جمال میں تجھے ہمیشہ یاد رکھوں گی اور تیرا انتظار کروں گی جب چاہے آزما لینا۔“
میں اسے کہنا چاہتا تھا کہ ”جاؤ‘ یہ ڈائیلاگ بازی مت کرو جانے والے کہاں پلٹ کر دیکھتے ہیں۔
“ مگر وہ میرا ردعمل دیکھے اور میری بات سنے بغیر ویگن کی طرف بڑھی اور اس میں سوار ہوگئی۔ جب تک وہ موٹا شخص میرے قریب ہوا اور بڑے مودب لہجے میں بولا۔
”پیر زادہ صاحب کا پیغام ہے کہ آپ انہیں فون کرلیں۔“
میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ پلٹ کر پسنجر سیٹ پر جا بیٹھا۔ تب تک میں بھی اپنی بائیک پر بیٹھ چکا تھا۔ ویگن کے بڑھتے ہی میں نے اپنی بائیک بڑھا دی۔
پھر جس وقت وہ چوک پار کر رہے تھے تب تک چھ موٹر سائیکلیں ویگن کے ارد گرد چل پڑی تھیں۔ ہر موٹر سائیکل پر دو دو بندے تھے اور وہ سب اسلحہ سے لیس تھے۔ اگر کچھ ہونا ہوتا تو یہیں ہونا تھا کیونکہ گاؤں کی گلیوں سے نکلتا ہوا یہ قافلہ سڑک پر آگیا تھا اور سامنے سردار شاہ دین کی حویلی تھی۔
میں پوری طرح چوکنا تھا ۔ویگن نے سڑک پر چڑھ کر شہر کی طرف رخ کرلیا۔
چند کلو میٹر تک ہم ان کے ساتھ گئے پھر پلٹ آئے۔ اس دوران میں نے سوہنی کی جھلک کئی بار دیکھی۔ جب بھی میری نگاہ اس پر پڑی وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ چھاکے نے انہیں شہر تک چھوڑ کر آنا تھا۔ وہ ان کے ساتھ بڑھ گیا۔ ان کے ساتھ ایک موٹر سائیکل پر دو لوگ تھے۔ میں سمجھ گیا تھا کہ سردار شاہ دین نے مجھے دھمکانے کی کوشش کی تھی جو ناکام ہوگئی۔ میں کسی ایسے ہی وقت کا انتظار کر رہا تھا، جب سردار میرے ساتھ دشمنی کا آغاز کرے اور میرے خیال میں وہ ایسا کرچکا تھا۔
شاید میرا وہ خواب مجھے یہی بتانے کے لئے تھا کہ جس جنگ کی میں بچپن سے خواہش کر رہا تھا، وہ شروع ہونے والی ہے۔
مجھے پیر زادے کو فون کرنا تھا۔ میں نے چوک میں جا کر اسے فون کیا۔ وہ گھر پر نہیں تھا۔ سو میں ڈیرے کی طرف چل دیا۔ اس وقت سہ پہر ہوچکی تھی اور میں ڈنگروں کو چارہ ڈال کر بیٹھا ہی تھا ۔ بھیدہ دودھ دوہنے کی تیاری کرنے کے لیے برتن میں پانی بھرنے گیا ہوا تھا۔ اس دن ہمیں دیر ہوگئی تھی۔ میں اور بھیدہ مغرب تک مصروف رہتے۔ ابھی کچھ دیر بعد گوالوں نے آجانا تھا۔ جو ہم سے دودھ خریدتے تھے۔ اگرچہ دیر ہوجانے کی وجہ سے مجھے بھیدے کا ہاتھ بٹانا تھا مگر میرا ذہن کام کی طرف نہیں تھا۔ بلکہ میں بہت کچھ سوچ رہا تھا۔