Episode 14 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 14 - قلندر ذات - امجد جاوید

پچھلے کئی گھنٹوں میں جو میرے ساتھ پہ در پہ واقعات پیش آئے تھے۔ مجھے ان کا سرا نہیں مل رہا تھا۔ میرا دماغ بھی میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرا خواب اوریہ واقعات، ان میں کوئی تعلق ہے؟ انہی لمحات میں ڈیرے کی جانب آنے والے کچے راستے پر سفید کرولا آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس کے پیچھے دھول اُڑ رہی تھی۔ جس میں دو تین اور بھی گاڑیاں آتی ہوئی دکھائی دیں۔
میں پہچان گیا کہ وہ شاہ زیب کی گاڑی تھی۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ کیونکہ پیر زادہ وقاص کے ساتھ بات کر کے میرا اندازہ تھا کہ وہ میرے پاس ضرور آئے گا۔ اس نے باہر والے پھاٹک پر ہی گاڑی روک دی تو باقی گاڑیاں بھی وہیں رک گئیں۔ وہ اپنی گاڑی سے نکلا اور بڑی بے تکلفی سے تنہا پھاٹک کھول کر اندر ڈیرے میں آگیا۔

(جاری ہے)

باقی لوگ باہر ہی کھڑے رہے۔

علیک سلیک کے ساتھ وہ چارپائی پر پھیل کر بیٹھ گیا۔ میں اس کے سامنے والی چارپائی پر بیٹھا تو چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا۔ 
”پیر زادہ وقاص نے بڑی گہری سازش کر کے مات والا بدلہ لے لیا۔ تم شاید نہ سمجھو لیکن میں جانتا ہوں کہ اس نے میرا بہت بڑا نقصان کردیا ہے۔“
”کون سا نقصان… اور کتنا …سردار شاہ زیب۔“ میں نے کہا تو باوجود کوشش کے طنز کو اپنے لہجے سے الگ نہیں کرپایا۔
تبھی وہ تاسف سے بولا۔ 
”یہ نقصان روپے پیسے کا نہیں ہے جمال‘ اس نے جو میرے خلاف تیرے دل میں شک کا زہر اتار دیا ہے نا یہ بہت بڑا نقصان ہے… یہ نوٹوں سے پورا کرنا بھی نا ممکن ہے۔“ 
”میں سمجھتا ہو سردار جی… کون کیا کر رہا ہے۔ اتنی عقل ہے مجھ میں۔“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا جہاں افسوس بھرا تاثر پھیلا ہوا تھا۔ میری بات سن کر وہ دھیمے لہجے میں بولا۔
 
”عقل ہی تو نہیں ہے تجھے ،ورنہ تو بھی وقت کے ساتھ چلتا۔ آج تیرا شمار اکھڑ اور بدمزاج لوگوں میں نہ ہوتا۔ تونے پتا نہیں اپنے لیے کیا معیار بنایا ہوا ہے کہ تجھے کوئی بندہ پسند ہی نہیں آتا۔ مصلحت سے کام ہی نہیں لیتے ہو۔“ 
”ایک مصلحت ہی تو نہیں آتی مجھے‘ میں کیوں ایسے بندے کو پسند کروں جو مجھے اچھا نہیں لگتا اور جہاں تک وقت کی نزاکت کا خیال ہے نا شاہ زیب… جو حملہ آور میرے گھر پر چڑھ دوڑے تھے۔
انہیں اگر لمحوں کا وقت بھی دے دیتا نا تو وہ مجھے مار کر وہیں پھاٹک پر پھینک جاتے، جہاں ابھی تک ان کی جیپ کھڑی ہوئی ہے۔“ 
”انہی بندوں کا تو پتا نہیں چل رہا کہ وہ کون تھے ۔ہمیشہ ادھوری بات ہی الجھن پیدا کرتی ہے جمال‘ کوئی ایک بندہ بھی ان کا پکڑ لیتے نا تم، تو آج یہاں آکر تم سے بات نہ کرنا پڑتی۔ تجھ پر سارا کچھ خود بخود کھل جاتا۔
تیرے اندر جو شک کا ناگ پھنکارنے لگا ہے نا ایسا نا ہوتا…!“ وہ اس طرح تشویش سے بول رہا تھا کہ جیسے واقعتاً بہت بڑا نقصان ہوگیا ہو۔ 
”سوچنے والی بات یہ ہے میں نے تم سے کوئی بات نہیں کی‘ کوئی گلہ‘ کوئی شکوہ‘ نہ کوئی شکایت اور شاہ زیب نہ ہی تم پہنچے ہوئے بابا ہو کہ میرے اندر بیٹھے شک کے ناگ کو پھنکارتے ہوئے دیکھ رہے ہو، بات کیا ہے سردار‘ ذرا کھل کے بولو۔
“ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تجسس سے پوچھا تو وہ غصے سے بولا۔ 
”ساری کہانی مجھے پیر زادہ وقاص نے فون پر بتائی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ رات ہونے سے پہلے پہلے اس نے اپنا بدلہ لے لیا ہے۔ اس نے مجھے اس پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے کہ میں تجھے اپنی صفائی بھی نہیں دے سکتا اور نہ تجھے یہ باور کراسکتا ہوں کہ یہ سارا کچھ اسی کا کیا دھرا ہے۔
اس نے سازش کی ہے میرے خلاف‘ تجھے بھڑکانے کے لیے۔ میں اعتراف کرتا ہوں جمال کہ وہ اس میں کامیاب ہے۔“
”ٹھیک ہے مان لیا سردار جی کہ ایسا ہی ہوگا لیکن اس وقت میرے لیے کیا حکم ہے۔“ میں نے پر سکون لہجے میں پوچھا۔ 
”صرف اتنا کہ میری طرف سے یا پھر حویلی والوں کی طرف سے اپنا دماغ مت خراب کرنا۔ سچ یہ ہے کہ اس نے اپنے غنڈے بھجوائے، وہ اگر کامیاب ہوجاتے تو بھی وہ اپنا بدلہ لے لیتا کہ ہماری ”جُو“(علاقے) سے لڑکی اٹھا کر لے گیا ہے اور اب ناکام ہوا تو ہم نے اپنے ہاتھوں سے لڑکی اُسے دی، اپنی حفاظت میں لڑکی کو شہر تک چھوڑا، غور کرو‘ اس کی سازش کامیاب ہے۔
“ وہ تاسف سے بولا۔ 
”تمہیں معلوم ہے شاہ زیب کہ میں اپنے دماغ سے سوچتا ہوں۔ وہ میں نے سوچ لیا ہے ۔ہاں اس کامیاب سازش کو اگر ناکام کرنا چاہتے ہو تو اب بھی وقت ہے کرسکتے ہو۔ ورنہ میں نے تو وہی کرنا ہے نا جو میں نے سوچا ہے۔“ 
”وہ کیا؟“ اس نے چونکتے ہوئے کہا۔ 
”میرے گھر کے سامنے کھڑی ہوئی جیپ، یہ پکی بات ہے کہ وہ چوری کی ہوگی۔
سردار شاہ دین ایم این اے ہیں۔ پارٹی میں بڑا اثر و رسوخ ہے۔ پولیس والے ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ پتا کروالیں یہ کس نے چوری کی ہے۔ معاملہ صاف ہوجائے گا۔“ میں نے کہا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر وہ ایک دم سے تن گیا جیسے بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ 
”ٹھیک ہے اب مجھے صفائی دینے کی ضرورت نہیں‘ سارا معاملہ پولیس حل کردے گی۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
میں روایتی طریقے سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اس کے ساتھ مصافحہ کیا۔ اس نے ایک نگاہ میرے چہرے پر ڈالی اور واپس پلٹ گیا۔ میں اسے اس وقت تک دیکھتا رہا۔ جب تک وہ اپنے ساتھ آئے لوگوں کے ساتھ کچے راستے پر گاڑیاں دوڑاتے ہوئے نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگئے۔ میں دھیرے سے ہنس دیا۔ مجھے اپنی انگلی پر نچانے والے اب خود ناچنے لگے تھے۔ 
مغرب سے ذرا قبل میں نے گھر لے جانے کے لیے دودھ کا برتن بائیک کے پیچھے رکھا اور چل دیا۔
گوالے کب کا دودھ لے جا چکے تھے۔ ڈیرے سے گھر کا فاصلہ تقریباً اڑھائی کلو میٹر تھا جو سارے کا سارا کچا تھا۔ میں گاؤں میں داخل ہو کر چوک تک آیا تو فضل کمہار نے مجھے روک لیا پھر جلدی سے بولا۔ 
”ابھی اپنی گلی میں مت جاؤ‘ ادھر پولیس آئی ہوئی ہے۔ تیرے گھر کے سامنے کھڑی ہے نا وہ جیپ۔“ 
”پولیس مگر وہ کیوں؟“ میں نے تجسس سے پوچھا ،حالانکہ میرے لاشعور میں کہیں تھا کہ ایسا ہی ہونے والا ہے۔
وہ جب بھی بنی، میرے گلے میں پھندا بننے کی وجہ بنے گی۔ اب وہ پھندا بنتی ہے یا نہیں لیکن اس سے یہ تصدیق ہوجانی تھی کہ حملہ آوروں کا تعلق کن سے تھا ،پیر زادہ وقاص‘ یا سردار شاہ دین؟
”پتا نہیں وہ جیپ کو گھیرے کھڑے ہیں۔ تیری اماں نے تو کہا ہے کہ وہ آئے گا تو اس سے پوچھ لیں۔ وہ آنے والا ہی ہے۔ میں یہاں تیرے انتظار میں کھڑا تھا کہ تجھے بتادوں۔
“ اس نے احسان جتانے والے انداز میں کہا تو میں نے اسے جواب نہیں دیا بلکہ آگے بڑھ گیا۔ میں بھی شدت سے یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ جیپ کس کی ہے۔ 
گلی میں پولیس والے کھڑے تھے دو پولیس وین ایک جیپ اور جدید ماڈل کی دو کاریں بھی تھیں۔ میں نے بے دھڑک اپنی بائیک ان کے پاس روک دی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ الرٹ ہوگئے ۔ میں نے دودھ کا برتن اتارا ہی تھا کہ مجھے لگا جیسے وہ میرے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔
تبھی ایک ادھیڑ عمر ایس ایچ او نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ میں نے اس دوران اس کے سینے پر لگے بیج پر اس کا نام افضل رندھاوا پڑھ لیا تھا۔ اس کا لہجہ کرخت تھا۔
”تم جمال ہو اور یہ گھر تمہارا ہے۔“ 
”ہاں میں ہی جمال ہو اور یہ میرا ہی گھر ہے‘ خیریت…!“میں نے پرسکون لہجے میں کہا
”ہم تجھے گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں‘ چلو ہمارے ساتھ…!“ وہ بڑے رعب سے بولا۔
 
”کیوں؟ مجھے گرفتار کرنا ہے؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔ ابھی لفظ میرے منہ میں ہی تھے کہ پشت سے میری گردن پر زور دار گھونسہ پڑا۔ ایک لمحے کے لیے میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔ میں ایک دم سے بھنا گیا۔ لاشعوری طور پر جو دودھ والا برتن میرے ہاتھ میں تھا میں نے گھما کر اندازے سے ایک بندے کے سر پر دے مارا۔ اگلے ہی لمحے گنیں اور رائفلیں میری طرف سیدھی ہوگئیں۔
افضل رندھاوا نے انتہائی سرعت سے اپنا ریوالور نکال لیا۔ 
”خبردار‘ حرکت مت کرنا۔ ورنہ گولی مار دوں گا۔“ 
اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ کئی پولیس والے مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ دودھ والا برتن میرے ہاتھ سے نکل گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کتنے لوگ تھے۔ میں مزاحمت میں فقط اتنا بچاؤ کر رہا تھا کہ کوئی ضرب نازک جگہ پر نہ لگے۔ پتا نہیں کتنا وقت گزر گیا، وہ نجانے کتنے تھے جو مجھے پیٹتے رہے۔
میں بے دم سا ہونے لگا۔ مجھے کچھ بھی سمجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسے میں مجھے کسی نے کمر سے پکڑ کر زمین سے اٹھایا۔ اگلے ہی لمحے کئی ہاتھ میری طرف بڑھے۔ انہوں نے کسی بوری کی مانند پولیس وین میں مجھے پھینک دیا۔ تب مجھے اپنے سر پر شدید چوٹ کا احساس ہوا۔ پھر میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتا چلا گیا۔
                                      #…#…#

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط