Episode 16 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 16 - قلندر ذات - امجد جاوید

میرے حواس بیدار ہوئے تو میں ایک اندھیرے کمرے میں تھا۔ پھر کچھ دیر بعدمجھے روشنی کااحساس ہونے لگا۔ مجھے اپنے گردوپیش کااحساس ہواتو دیکھا کہ کچھ پولیس والے کھڑے تھے اور میں فرش پر چت لیٹا ہوا تھا۔ ایک پولیس والے کے ہاتھوں میں پانی کی بوتل تھی جس سے وہ پانی میرے چہرے پر پھینک رہاتھا۔ باوجود خواہش کے میں اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکا۔
میں نے اپنی طرف سے چیخ کر کہاتھا کہ مجھ پرپانی مت پھینکو… لیکن میرے لبوں سے ایک لفظ تک ادا نہیں ہوپایا۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے میں پتھر کابن گیا ہوں۔ پھرآہستہ آہستہ مجھے ہوش آنے لگا۔ یہاں تک کہ مجھے اردگرد کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔
”اوئے ہوش نہیں آیا… اس بہن…“کسی نے کرخت انداز میں پوچھتے ہوئے نہایت غلیظ انداز میں گالی دی ۔

(جاری ہے)

تبھی میرے قریب ہی سے آواز آئی۔
”بس آہی گیا ہے جی۔“
”تو لے آؤ پھراُسے…“ اتنا کہنے کے بعد گالیوں کی ایک لمبی فہرست تھی جسے برداشت کرنا انتہائی ناممکن تھا۔ میرے بدن میں آگ بھڑک گئی۔ میرے ہوش کرنے پر انہوں نے مجھے زبردستی اٹھایا اور چند قدم کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے افضل رندھاواکے سامنے پیش کردیا۔اس نے میری طرف دیکھا اور کرسی کی ٹیک چھوڑ کر بولا۔
”اوئے(…گالی) اب جلدی سے بَک دے ڈکیتی کا مال کدھر ہے؟“
میں اس وقت تک پورے حواس میں آگیاتھا ‘ اس لیے اپنا آپ چھڑواتے ہوئے بولا۔
”تیری بہن کے گھر پڑا ہے‘ جہیز کی کمی تھی، وہ پوری کی ہے۔“
میرے اس طرح کہنے پر وہ بری طرح چونک گیا۔ حیرت سے چندلمحے میری طرف دیکھتا رہا پھر بجائے بھڑکنے کے اسی کرخت لہجے میں یوں بولا جیسے میں نے کچھ بھی نہ کہا ہو۔
”جیپ تیرے گھر کے باہر سے برآمد ہو گئی ہے یہ میرے سامنے چوہدری حفیظ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے بیٹے سے گاڑی چھینی گئی تھی۔ جومال…“ اس نے کہنا چاہا مگر میں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”اگر کوئی تیری بیوی میرے گھر کے سامنے لاکر چھوڑ دے تو کیا اسے بھی میں نے اغوا کیا ہے؟“
”اوئے زیادہ سیانا نہ بن‘ اور اپنی زبان قابو میں رکھ۔ ورنہ تیرے بدن کا ہر سوراخ بولے گا کہ مال کہاں ہے بے غیرت…“ اس نے غصے میں سرخ ہوتے ہوئے کہا۔
میں رُخ پھیر کر اس چوہدری حفیظ کودیکھنے لگا جو بڑے ٹھسّے سے کرسی پربراجمان تھا۔ میں نے پہلی بار اسے دیکھاتھا۔ یہ کون ہے؟ اور میرے گھر سے باہر جیپ تک کیسے پہنچا؟ یہ سوال میرے ذہن میں گونج کررہ گئے۔ تب تک افضل رندھاوا نے کہا ”اتنی ٹھکائی کے بعد تجھے عقل آجانی چاہیے ورنہ رات بھر تک تیرے جسم کے ریشے تک اُدھڑ جائیں گے۔“
”اُوئے سن اُوئے رَندھاوے… اس جیپ پر چھ حملہ آور ،اسلحہ سمیت مجھے قتل کرنے کے لیے آئے تھے۔
میں نے ان بزدلوں کو مار بھگایا۔ یہ جیپ ان لوگوں نے وہاں چھوڑی اور بھاگ گئے۔ مجھے نہ کسی ڈکیتی کاپتا ہے اور نہ میں کسی مال کے بارے میں جانتا ہوں۔ یہی سچ ہے اوریہی میرا بیان ہے۔ اب تو جو چاہے کرلے ‘میرا بیان یہی رہنا ہے لیکن یہ یاد رکھ اپنی اتنی ہی اوقات دکھانا جتنی تو بعدمیں برداشت کرسکے۔“ میں اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔
میں اس کی آنکھوں میں غصے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت دیکھ رہا تھا۔ چند لمحے یونہی گزر گئے‘ تو وہ انتہائی غضب میں بولا۔
”تو بول کہاں سے رہا ہے‘ مجھے تو اتنا بے وقوف نہیں لگتا کہ تجھے یہ معلوم ہی نہ ہو تو کہاں کھڑا اور کس سے بات کررہا ہے۔ تو میر ی اوقات دیکھنا چاہتا ہے تو پھر دیکھ میں دکھاتاہوں تجھے اپنی اوقات۔“ یہ کہہ کر اس نے چوہدری حفیظ کی طرف دیکھا۔
”چوہدری صاحب ! آج آپ جائیں ‘میں ذرا اسے بات کرنا سکھالوں‘ کل آپ تشریف لائیں‘ میں جیپ آپ کے حوالے کردوں گا۔“
”جی بہتر…!“ وہ اٹھتے ہوئے بولا‘ تبھی اس نے دوسرے کمرے میں موجود اپنے ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ کیا اور تھانے سے نکلتا چلا گیا۔ تبھی افضل رندھاوا نے اپنے قریب کھڑے پولیس والوں سے کہا۔
”اُوئے ‘ لے جاؤ اِسے‘ اور چھترول کرکے سمجھاؤ کہ بولتے کیسے ہیں۔
آج رات کوئی ڈکیتی‘ کوئی مال برآمد کروانے کی ضرورت نہیں ہے‘ مرتا ہے تو مرجائے… میں سنبھال لوں گا۔“
”کیوں‘ تمہارے ہاں مُردوں کے ساتھ رشتہ جوڑتے ہیں۔ کون سا رشتہ دے گا مجھے ؟“ میں نے انتہائی نفرت سے طنزیہ انداز میں کہا تووہ غصے میں پاگل ہوگیا۔ میں اسے جس قدر غصہ دلانے کی کوشش کررہاتھا‘ میری ہر کوشش بے کار جارہی تھی۔ وہ میرا ارادہ بھانپ گیاتھا یا قدرتی طور پر وہ کچھ نہیں کررہاتھا جو میں چاہ رہا تھا۔
 
اس بار جو میں نے کہا تو واقعتا غصے میں اپنے حواس کھو بیٹھا اور پوری قوت سے مجھے تھپڑ مارنے کے لیے لپکا‘ یہی وہ موقع تھا جس کے لیے میں کوشش کررہاتھا۔ اس کا دائیں ہاتھ اوپراٹھا ہوا تھا‘ بائیں ہاتھ کی بھینچی ہوئی مٹھی کمر کے پیچھے تھی‘ وہی ایک لمحہ تھا، میں نے آگے بڑھ کر اس کے ریوالور پر ہاتھ ڈال دیا‘ دوسرا ہاتھ اس کی مٹھی والے بازو پر ڈالاا ور چشم زدن میں گھوم کر اس کی گردن میں بازو حمائل کردیا۔
وہ ایک دم سے ٹھٹک گیا اور پھر وہیں ساکت ہوگیا۔ میں نے ریوالور کے وزن سے اندازہ لگالیاتھا کہ وہ خالی نہیں ہے۔ بس سیفٹی کیچ نہیں ہٹا ہوا تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں کے سامنے ریوالور لاکر سیفٹی کیچ ہٹایا اور سرد لہجے میں بولا۔
”یہ ہے تیری اوقات…! اب چل وہیں لے چل جہاں سے تو مجھے لایا تھا‘ ورنہ تُو تو مرے گا ہی باقی کامجھے پتا نہیں۔
”دیکھ گولی نہیں چلانا‘ میں…تجھے لے چلتا ہوں…چل…“ اس نے تیزی سے کہااور باہر جانے کو تیار ہوگیا۔ قریب کھڑے سپاہی اس صورت حال سے حواس باختہ ہوگئے تھے۔ ان میں سے ایک تیزی سے باہر کی جانب بھاگا۔ میں نہیں جانتاتھا کہ وہ کیا سوچ کربھاگاتھا۔ چاہے انتہائی غصے میں ہی سہی‘ مگر میں خواہ مخواہ خود کومجرم ثابت کررہاتھا۔ میرا لاشعور مجھے ایسی حرکت کرنے سے باز رکھ رہا تھا۔
مگر وہ وقت ایسا نہیں تھا کہ میں ذرا سی بھی کمزوری دکھاؤں۔ بعد میں جو ہوتا وہ میں بھگت لیتا۔ اس وقت جو انہوں نے مجھے ذلیل کرکے پکڑاتھا‘ اس نے میرا دماغ گھماکے رکھ دیا تھا۔ 
میں رندھاوا کو قابو کیے جب اندرونی کمرے سے باہر برآمدے میں آیا تو پورے تھانے میں لوگ ہم دونو ں کاتماشا کررہے تھے۔ ان میں پولیس والے بھی تھے اور سویلین بھی۔
کچھ جذباتی پولیس والوں نے اپنی گنیں سیدھی کیں اور کچھ غیر ارادی طور پر ہماری جانب لپکے مگر افضل رندھاوا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔ اس سے پہلے کہ میں برآمدے کی دوچار سیڑھیاں اُتر کر صحن عبور کرتا اور پھر باہر نکل جاتا‘ تھانے میں آگے پیچھے دو گاڑیاں تیزی سے آن رکیں۔
سفید رنگ کی کار میں سے شاہ زیب باہر نکلا۔ وہ میری جانب حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ میری توجہ بٹی اور شاید اس پر افضل رندھاوا نے میری گرفت کو ڈھیلی محسوس کیا۔ اس لیے میرا بازو اپنی گردن سے ہٹانے کی تیزی سے کوشش کی۔ میں نے اسے مزید دبادیا۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھیں باہر ابل پڑیں۔ یہ لمحوں میں ہوا تھا۔ دوسری گاڑی فوروہیل جیپ تھی جس کے شیشے کالے تھے۔ اس میں سے پیرزادہ وقاص باہر نکلا۔ وہ میری طرف انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
اس کے چہرے پر ایک استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔ تبھی شاہ زیب نے اونچی آواز میں کہا۔
”چھوڑ دے جمال اسے… میں آگیا ہوں… اب یہ تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاسکتے۔“
میں نے افضل رندھاوا کو چھوڑنے میں ذرا ساتوقف کیا تھا۔ شاید اس لیے پیرزادہ وقار پرسکون مگر بھاری لہجے میں بولا۔
”اب چھوڑ بھی دے یار‘ یہ رندھاوا اپنا ہی بندہ ہے۔“
میں نے ایک دم سے اسے چھوڑا تووہ کھانسنے لگا۔
میں نے ریوالور کے چیمبر میں سے گولیاں نکالیں اور خالی ریوالور اس کے ہولسٹر میں ڈالنے کی بجائے اس کی جانب بڑھادیا۔ جسے اس نے آرام سے پکڑ لیا‘ اس کے انداز میں شرمندگی کا بھرپور تاثر تھا۔ میں باہر کی جانب نہیں لپکا بلکہ واپس مڑااور ایس ایچ او کے کمرے میں جاکر ایک کرسی پربیٹھ گیا۔ میرے پیچھے پیچھے وہ بھی آگئے ۔اس بار رندھاوے کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ میری جانب ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھے۔
میرے دائیں جانب پیرزادہ وقاص اور بائیں طرف شاہ زیب آکر بیٹھ گئے۔
”کیوں پکڑ کر لائے ہو اُسے؟“ شاہ زیب نے بظاہر سکون سے پوچھا تھالیکن اس کے لہجے میں سے غصہ چھلک رہاتھا۔
”گاڑی برآمد ہوئی تھی اس سے‘ چند دن پہلے ڈکیتی ہوئی تھی اور اس…“ رندھاوا نے کہنا چاہا مگر اس کی بات کاٹتے ہوئے پیرزادہ وقاص نے پوچھا۔
”یہ بتایا کس نے کہ گاڑی اس کے گھر کی سامنے کھڑی ہے…؟“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط