”باپو اگلے دن ہی صبح ساتھ والے گاؤں چلا گیا۔ تاکہ سکھ جیت کی جہاں منگنی ہوگئی تھی‘ انہیں کہہ دے کہ وہ سکھ جیت کو بیاہ لے جائیں۔ ان کالڑکا جالندھر میں سرکاری نوکری کرتاتھا۔ انہو ں نے چند دن ہی میں سکھ جیت کو بیاہا اور وہ اپنے گھر کی ہوگئی۔ اب سارے بھائی انتظار کرنے لگے کہ کب رویندر گاؤں میں آتا ہے‘ سکھ جیت سے دست درازی کرنے کے ٹھیک دو ماہ بعد رویندر گاؤں آیا تو سارے بھائیوں نے مل کر رویندر کو پکڑ لیا۔
مجھے بھی ساتھ لیااور اس جگہ چلے گئے جہاں رویندر نے دست درازی کی کوشش کی تھی۔ وہاں لے کر انہوں نے رویندر کو اتنامارا‘ اتنامارا کہ اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ دونوں ہاتھ توڑ دیئے۔ پھراسے لے جاکر گاؤں کے چوراہے پرپھینک دیا۔“
”سرپنچ نے کوئی ردعمل…؟“ اس نے پوچھتے ہوئے اپنے سامنے پڑا چائے کا مگ اٹھالیا۔
(جاری ہے)
”اس نے اپنے بندے بھیجنے کی بجائے پولیس بھیج دی تھی۔
مگر اس سے پہلے ہی تیراباپو کلوندر سنگھ تھانے چلا گیا۔ اس نے وہاں جاکر یہ قبول کیا کہ رویندر کو اس نے مارا ہے۔ سرپنچ نے اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے پولیس بھیجی لیکن وہ کسی کوپکڑے بغیر واپس چلی گئی۔ تیرے دادا نے تو سب کچھ پہلے ہی سوچا ہوا تھا۔ ایک دن بعد تیرے باپو کی ضمانت ہوگئی وہ گھر آگیا۔ اب عدالت میں مقدمہ ہی چلناتھا۔ دوسری طرف دادا نے سرپنچ کو دھمکی لگادی تھی کہ اب اس کی باری ہے‘ اسے یونہی مارناہے اور گاؤں کے چوراہے میں اپاہج کرکے پھینکنا ہے۔
بات بڑھ گئی‘ گاؤں کا گاؤں داداجی کی طرف ہوگیا۔ یہاں تک کہ سرپنچ کو مقدمہ واپس لے کر معافی مانگنا پڑی اور معاملہ وقتی طور پر دب گیا۔ بہرحال رویندر کو اپاہجوں کی طرح بنا کر انہوں نے اپنا بدلہ لے لیاتھا۔“
”پھرکیاہوا۔“ اس نے پوچھا۔
”تقریباً ایک سال تک کوئی بات نہیں ہوئی اور سن چوراسی کی بیساکھی آگئی۔ میری شادی بھی ہوگئی تھی اور میں اس گاؤں میں رہ رہی تھی ۔
تیرے باپو کی شادی بھی ہوچکی تھی اور تو پیدا ہوچکاتھا۔اس برس تیرا باپ دربار صاحب تیری منت اتارنے گیا تھااور پھر لوٹ کر واپس نہیں آیا۔ اندراحکومت نے بہت بڑا ظلم کردیاتھا۔ تیرے سارے گھر والے تیرے باپ کی تلاش میں تھے‘کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیا کیاجائے۔سکھ نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کرمارا جارہاتھا۔ کوئی اس ڈر سے بھی باہر نہیں نکلتاتھا کہ پتا نہیں واپسی ہوبھی یانہیں۔
یہاں تک کہ اندرگاندھی کا قتل ہوگیا۔ پھر جو سکھوں پر بھاری آئی‘ وہ یاد کرکے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔“
” کیا بھاری پڑی؟“ اس نے تجسس سے پوچھا
”ہم سن رہے تھے کہ گھر گھر تلاشیاں لی جارہی ہیں۔ لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ انہی دنوں میں اچانک ایک رات اس گاؤں کو بھی فوج نے گھیرلیا۔ مجھے اس وقت یقین ہوا جب وہ ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور انوجیت کے باپو کو پکڑ کرلے گئے۔
اس وقت انوجیت اس دنیا میں آنے والا تھا۔ میری حالت اتنی ٹھیک نہیں تھی۔ مگر میں ہمت کرکے باہر نکلی تاکہ اپنے باپو کو بتادوں۔ وہاں جاکر پتا چلا کہ میرے باپو او ربھائیوں سمیت سب کو پکڑ کر لے گئے ہیں۔ پھر میں تم لوگوں کے گھر کی طرف گئی تاکہ تیرے دادا سے مدد لوں۔ مگر وہاں بھی سارے گھر کے مردوں کو پکڑ کر لے گئے تھے۔ تیری ماں‘ چاچی‘ تائیاں رو رہی تھیں۔
اچانک گاؤں کے باہر سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم تڑپ اٹھیں کہ نجانے کیا ہوگیا ہے۔ تیری ماں اور تائی تیار ہوگئیں کہ جاکرمعلوم کرتی ہیں۔ اس نے تجھے میری گود میں دیااور وہ دونوں پتہ کرنے چل پڑیں۔ ہم تینوں ابھی دالان پارکرکے باہر والے پھاٹک سے نکلی ہی تھیں کہ سامنے سے ایک جتھہ آتا ہوا دکھائی دیا۔
ہم فوری طور پر تو نہ سمجھ سکیں لیکن وہ تیرے باپ اور دادا کوغلیظ گالیاں نکال رہے تھے۔
اس وقت نجانے کیوں مجھے اندازہ ہوگیاتھا کہ یہ حویلی پرحملہ آور ہوں گے۔ میں تجھے لے کر سامنے والے گھر میں گھس گئی۔ تیری ماں اور تائی واپس پلٹ کر پھاٹک بند کرنے لگی تھیں، لیکن نہ کرسکی۔ فائرنگ ہوئی اور دونوں وہیں ڈھیر ہوگئیں پھر میں دیکھ تو کچھ نہ سکی لیکن حویلی سے فائرنگ کی آوازیں ‘ چیخ وپکار ابھرتی رہی۔پھر حویلی کوآگ لگادی گئی۔
مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے اندر تھے سب کو جلادیا گیا‘ حویلی کو آگ لگے سب نے دیکھی لیکن کسی نے آگ بجھانے کی ہمت نہیں کی۔ میں پریشان تھی ‘ تو بلک رہاتھا‘ میں واپس گھر چلی گئی۔ وہیں تمہیں اپنی گود میں سمیٹ کر واہ گرو کویاد کرتی رہی۔ اس سے مدد مانگتی رہی۔“
”پھر کیا ہوا!“ جسپال نے ہولے سے پوچھا۔
”ہوناکیاتھا‘ گاؤں سے جتنے بھی مرد پکڑ کر وہ لے گئے تھے‘ انہیں گاؤں سے باہر سڑک پر لے جاکر گولی مار دی تھی۔
ان پر دہشت گردہونے کاشک تھا۔ اس میں انوجیت کے باپو بھی…“ کلجیت کور کہتے کہتے رک گئی‘ پھر کافی دیر تک اس سے بولا نہیں گیا۔
”سوری پھوپھو…!“ جسپال نے مگ میز پررکھتے ہوئے کہا۔ اس دوران کلجیت کور نے خود پر قابو پالیاتھا۔ اس لیے خود کوسنبھال کر بولی۔
”وہ رات قیامت کی رات تھی‘ میرے گھر کے صحن میں میرے شوہر کی لاش رکھی ہوئی تھی۔
میری گود میں انجانابچہ اور خود میں‘ میری ماں کے گھر میرے باپو اور بھائیوں کی لاشیں‘ حویلی جل کر دھواں دے رہی تھی‘ وہاں سب ختم ہوچکے تھے۔ گاؤں کے کئی گھروں میں یہی قیامت ٹوٹی تھی۔ کون کس کو سنبھالتا‘ صبح ہوئی تو گاؤں کے لوگ آنا شروع ہوگئے۔ مجھے یاد رہاتو بس سکھ جیت کور کا چہرہ ‘ وہ آئی تو اس نے سب کچھ سنبھال لیا۔ اس کاشوہر بہت سمجھدار بندہ تھا۔
اس نے سب کی آخری رسومات ادا کیں‘ اور تجھے لے کر اپنے گاؤں چلے گئے۔ “ اس وقت کلجیت کور یوں ہوگئی جیسے اب اس سے بولنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اس کی آنکھیں بھیک گئی تھیں۔ تبھی انوجیت بولا۔
”بے بے …آگے بتاؤنا‘ اب جسپال کے سارے سوالوں کاجواب دو۔“
”بتاتی ہوں پتر…!“ اس نے یوں کہا جیسے اپنے اندر کی ساری ہمتیں جمع کررہی ہو۔” پھر سکھ جیت کور اپنے شوہر کے ساتھ چند دن بعد آئی۔
اس نے مجھے بتایا کہ وہ کینیڈا جارہے ہیں اور پھر میرا ان سے بہت عرصے تک رابطہ نہ ہوا۔ لیکن سکھ جیت کور کے سسر نے میری بڑی دیکھ بھال کی‘ اس نے مجھے اپنی بیٹی بنالیا‘ میں رہی تو یہیں اُوگی پنڈ میں لیکن میرا خیال وہی کرتے رہے۔“
”پھرپھوپھو سکھ جیت کور سے آپ کا رابطہ کب ہوا؟“ جسپال نے بہت سوچ کرسوال کیا۔
”کوئی تین چار سال بعد‘ وہ خود تو یہاں نہیں آنا چاہتی تھی لیکن اپنی ساری زمین اور جائیداد میرے نام کرنا چاہتی تھی‘ ہمارے درمیان یہ تکرار سال بھر چلتی رہی۔
میں نے اس کا جو کچھ تھایہاں پہلے ہی سنبھالا ہو تھا ‘ اس میں سکھ جیت کے سسر نے میری بہت مدد کی‘ چند سال پہلے ان کا دیہانت ہوگیا ہے۔“کلجیت کور کافی حد تک سنبھل گئی تھی۔
”لیکن انہوں نے مجھ سے کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔“ جسپال سنگھ نے کہا۔
”وہ نہیں چاہتی تھی کہ تم کبھی بھی بھارت واپس آؤ۔ وہ تم سے یہ سب کچھ چھپا کررکھنا چاہتی تھی۔
ادھر میری کوشش بھی تھی کہ جس کی امانت ہے‘ اسے مل جائے۔ پتر…! یہ گھر‘ یہ زمینیں تمہاری ہیں۔ تم ان کے مالک ہو۔ ہم تومحض امانت سنبھالے بیٹھے ہیں۔ میں نے ہی انوجیت سے کہا تھا کہ وہ کسی طرح تم سے رابطہ کرے۔ یہ اس رابطے کا نتیجہ ہے کہ تم یہاں پر ہو۔“
یہ سب سن کرجسپال سنگھ کچھ دیر خاموش رہا‘ پھر بڑے ہی ٹھہرے ہوئے انداز میں بولا۔
”ایک سوال ہے پھوپھو…! فوج نے گاؤں کے مرد مارے‘ وہ سمجھتے تھے کہ یہ خالصتان کے حامی ہیں اور فوج کے نزدیک دہشت گرد ہیں۔
لیکن گاؤں کے دوسرے گھروں کو جلایانہیں گیا۔ اس بے دردی سے ان کے گھروں کو تباہ نہیں کیا گیا۔ ان کی عورتوں اور بچوں کونہیں مارا گیا۔ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں؟“
”سرپنچ کی وجہ سے۔“انہوں نے سکون سے کہا۔ ”ساکاچور اسی کے بعد لوگوں نے اپنی دشمنیاں بہت نکالیں۔ سرپنچ نے فوج کو گاؤں میں موجود ان لوگوں کے نام بتادیئے جو کسی نہ کسی حوالے سے خالصتان تحریک کے حامی تھے۔
یہ فوج اور حکومت کا سرپنچوں پر دباؤ بھی تھا۔ لہٰذا جہاں انہوں نے خالصتان کے حامی سکھوں کے نام بتائے ‘ وہاں ان لوگوں کے نام بھی بتادیئے جن سے وہ کسی نہ کسی حوالے سے دشمنی رکھتے تھے۔ گاؤں کے گاؤں اُجڑ گئے۔ حکومت نے وقتی طور پر تو قابو پالیا مگر سکھ نسل کو کچل کررکھ دیا۔یہ اب تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔“
”میں سمجھ گیاپھوپھو…! اب آپ آرا م کریں۔ باقی باتیں صبح ہوں گی۔“ اچانک ہی جسپال اٹھ گیا تو باقی سب بھی اٹھ گئے۔ اس وقت جسپال کو خود پر قابو پانا بہت مشکل ہو رہاتھا۔
# # # #