”دیکھ جمال…! یوں غصہ نہ کر‘ میں شاید پلٹ کر کبھی یہاں نہ آتی‘ لیکن مجھے آنا پڑا‘ اسے میری مجبوری سمجھ لیں یا پھر… جو تیرا دل چاہے۔ اگرتم مجھ سے نفرت کرتے ہو‘ یا پھر تمہارے خیال میں ہم کوئی گھٹیا مخلوق ہیں تویہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مجھے اس سے بالکل انکار نہیں ہے کہ میں طوائف ہوں۔ میرا وجود ہی اس سماج میں ایک گالی ہے۔ تم بھی اگر مجھ سے نفرت کروگے تو مجھے کوئی دکھ نہیں ہوگا۔
“
”مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تم طوائف ہو یانہیں‘ مگر جو تو ڈرامے بازی کررہی ہے نااس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے۔ یہ تم کرکیا کررہی ہو‘ وہ کون سی مجبوری ہے جوتمہیں یہاں لے آئی ہے؟“
”یہی تو میں تمہیں بتانے کے لیے آئی ہوں‘ یہاں اتنا سفر کرکے تھکن اتارے بغیر۔“ اس نے میرے چہرے پر دیکھااور پھر میرا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بڑے اعتماد بھرے لہجے میں بولی۔
(جاری ہے)
”تم اب بھی پریشان ہونا کہ جیپ پر آنے والے وہ حملہ آور کون تھے۔ تم اب بھی اُلجھے ہوئے ہو کہ اس کے پیچھے کون ہے‘ پیرزادہ ہے یا شاہ زیب…؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ دونوں ہی نہیں ہیں۔“
“توپھر کون ہے وہ…؟“ میں نے تیزی سے بیڈ کی ٹیک چھوڑتے ہوئے پوچھا‘حالانکہ اس دوران میرے بدن سے کئی جگہوں پر ٹیسیں اٹھی تھیں۔
”وہ جو کوئی بھی ہے‘ تم اسے چھوڑو‘ اس وقت اگر وہ اندھیرے میں ہے تو اسے اندھیرے ہی میں رہنے دو۔
حملہ آور بھی اس کی طرف سے تھے اور پولیس بھی اس نے بھیجی تھی۔“
سوہنی نے کہا تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ان دیکھاوار کرنے والا دشمن اندھیرے میں تھا اور یہ اُسے اب بھی اندھیرے ہی میں رکھنا چاہتی تھی۔ دشمن کا ساتھ دینے والا بھی دشمن ہوتا ہے اور وہ منافق جو سازش کرکے خود اندھیرے میں رہنے کی کوشش کرے‘ اس کے باپ پر تو ویسے ہی شک ہوتا ہے‘ کیا یہ مجھے بے وقوف بنانے کے لیے آئی ہے؟ میرے دماغ میں غصے کی آگ بھری لہر اٹھی۔
اور میں نے زناٹے سے ایک تھپڑ سوہنی کے چہرے پر مار دیا۔ وہ الٹ کر بیڈ سے نیچے جاگری۔ لمحوں میں اپنا پسٹل نکالا اور اس کا سیفٹی کیچ ہٹادیا۔ تبھی سوہنی کی آنکھوں میں وحشت پھیل گئی۔ وہ موت کو اپنے سامنے دیکھ کر حواس باختہ ہوگئی۔ خوف کے عالم میں اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ وہ زمین پر گری پڑی تھی‘ میں نے بیڈ پر بیٹھے ہوئے ہی ایک پاؤں اس کی گردن پر رکھااور پسٹل کی نال اس کے سر پررکھتے ہوئے سرد لہجے میں پوچھا۔
”بولو… کون ہے وہ… ملک سجاد ہے؟“
”آں…آں…ہاں…وہ…ہی ہے …میں تجھے بتاتی ہوں نا… “ اس نے گھگھیائے اندا ز میں کہا‘ لیکن میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتاتھا۔ مجھے اس سے پوری بات معلوم کرناتھی‘ لیکن اسی لمحے اماں اندر داخل ہوئی اور تیزی سے بولیں۔
”جمال… یہ کیا کررہے ہو تم… چھوڑو اِسے… پاگل ہوگئے ہو۔“
اس حکم کے سامنے میں بے بس تھا‘ میں نے نال اور پاؤں ہٹایااور بیڈ پر سیدھا ہوگیا۔
وہ تیزی سے اٹھی اور میرے سامنے تن کر کھڑی ہوگئی۔ پھر مرتعش لہجے میں بولی۔
”میں تجھے سب کچھ بتادیتی لیکن ذرا صبر تو کرتے… تم…“
”تم ایک ہی سانس میں سب کچھ بتادو‘ خیریت اسی میں ہے…“ میں نے تیزی سے کہا۔
”لیکن تم وعدہ کرو کہ کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کروگے‘ ورنہ تمہارا غصہ تمہیں بہت نقصان پہنچادے گا۔“اس نے کافی حد تک اعتماد سے کہا تو مجھے غصہ آگیا۔
”اب تم بکواس کروگی یانہیں۔“
”میں ساری بات تمہیں بتادیتی ہوں…“ یہ کہہ کر اس نے اماں کی طرف دیکھااور خجالت بھرے انداز میں بولی۔”اماں…! اس سے وعدہ لو کہ یہ جو کچھ بھی کرے گا‘ سوچ سمجھ کر کرے گا‘ وہ لوگ اس کی سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔“
”سوہنی پُتر! جو یہ پوچھتا ہے وہ ساری بات اسے بتادے‘ یہ نہیں میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ یہ ایسا ویسا کچھ نہیں کرے گا۔
“
”ٹھیک ہے۔“ اس نے سرہلایااور پھر مجھ سے ذرا سا فاصلہ چھوڑ کر بیٹھ گئی‘ چند لمحے خاموش رہی پھر‘ میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے بولی۔
”ملک سجاد کے بارے میں تم جانتے ہی ہو‘ جو وفاقی وزیر ہے۔“
”ہاں…نام سنا ہے اس کا…“ میں نے کہا۔ تبھی اماں کافی حد تک مطمئن ہو کرباہر چلی گئی۔
”تم نے فقط نام سنا ہے‘ اُسے جانتے نہیں ہو‘ خیر…! میں جو یہاں آئی ہوں تو صرف اس وجہ سے کہ تمہیں سب سچ بتادوں۔
اُسے بہت بڑی غلط فہمی ہوگئی تھی۔ میں… میں تمہیں شروع سے بتاتی ہوں…“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہی پھر کہتی چلی گئی۔”ملک سجاد ‘ خوشاب کے علاقے کا بہت بڑا زمیندار ہے‘ ایم این اے کی سیٹ ان کی خاندانی سیٹ ہے۔ ظاہر ہے ایسے لوگ بڑے بڑے بدمعاش‘ قاتل‘ اشتہاری اور نجانے کیسے کیسے مجرم اپنی پناہ میں رکھتے ہیں۔ انہی کے ذریعے علاقے پر اپنی دھاک جما کر رکھتے ہیں لیکن وہ جو بھی ہے‘ میرا عاشق ہے‘ مجھ پر جان دیتا ہے‘ میری ماں نے مجھے اس کے ہاتھ بیچ دیا ہے‘ لیکن ابھی اس نے میری نتھ نہیں کھولی‘ بھاری رقم کے علاوہ‘ ایک کوٹھی اور کار مجھے دی ہوئی ہے‘ پر وہ مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا‘ میرے پاس ہوتا ہے تو مجھے ابکائی آتی ہے‘ میں اس سے جان چھڑانا چاہتی ہوں‘ اس لیے اسے قریب نہیں لگنے دیتی‘ ماں سے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اسے سب کچھ واپس کردے۔
“
”تم اس کے قصیدے ہی پڑھتی رہوگی یا بات بھی بتاؤگی۔“ میں نے اکتاتے ہوئے کہا۔
”میں وہی کہہ رہی ہوں کہ جب میرے خاندان کی لڑکیاں‘ یہاں آکر ناچنے کو تیار ہورہی تھیں تومیں نے یہاں آنے کا ارادہ کرلیا…ملک سجاد کو یہ بات بہت ناگوار گزری‘ وہ قطعاً نہیں چاہتاتھا کہ میں یہاں پر آؤں‘ مگر میں نے ضد کی اور باوجود اس کے روکنے کے میں آگئی۔
اس نے میرے پیچھے بندے بھیج دیئے کہ مجھے اٹھا کر لے جائیں‘ اب یقینا ان کا داؤ نہیں چلا‘ یا پھر ان کی ہمت نہیں پڑی‘ وہ مجھے اغواء تو نہ کرسکے‘ مگر جب پنڈال میں تم لوگوں کی لڑائی ہوگئی‘ فائرنگ ہوئی تو ہم وہاں سے نکلیں۔ قدرتی طور پر انہیں موقع مل گیا‘وہ مجھے گھیرے ہوئے ایک طرف لے گئے‘ چونکہ مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ ملک سجاد کے بندے ہیں‘ میں تو انہیں مقامی لوگ ہی سمجھ رہی تھی۔
ایک نے مجھے بازو سے پکڑ بھی لیا تھااور ایک طرف لے جانے کی کوشش بھی کرنے لگاتھا‘ میں نے تو یہی خیال کیاکہ وہ مجھے مال غنیمت سمجھ کر لے جاناچاہتا ہے‘ اس لیے میں نے اپنا بازو چھڑایا‘اندھا دھند بھاگتے ہوئے فصلوں میں جاچھپی‘ اور پھر تم مجھے مل گئے‘ اصل غلط فہمی یہیں سے ہوئی۔“
”مطلب… میں سمجھا نہیں۔“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”میں سمجھاؤں گی تو تم سمجھوگے۔
“ یہ کہہ کر وہ ہلکا سا مسکرائی اورپھر بولی۔”وہ ساری رات مجھے تلاش کرتے رہے تھے لیکن میں نہ ملی‘ اور پھر دوپہر تک انہوں نے کھوج لگالیا کہ میں کہاں پر ہوں اس میں انہوں نے پولیس کی مدد بھی لی تھی‘ اور تیرے علاقے کے کچھ پولیس کے مخبر بھی ہیں‘ جو اس معلومات کاسبب بنے ہیں۔ اصل کام ہے ان کو تلاش کرنا‘ جو گھر کے بھیدی ہیں ‘ اور تیرے مخالف…“
”تو اپنی بات مکمل کر سوہنی‘ میں جانتاہوں مجُھے کیا کرنا ہے۔
“میں نے پھر اُکتائے ہوئے کہا۔
”وہ جیپ والے حملہ آور ملک سجاد ہی کے تھے۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کا سامنا ماہر نشانہ باز سے ہوگا۔ وہ مار کھاگئے‘ جس پرملک نے پولیس کو پوری طرح استعمال کیا اور وہ تجھے پکڑ کر لے گئے۔ میں جو وہاں لاہور پہنچی ہوں تو مجھے ساری تفصیلات کا پتا چلا‘ میں اس لیے واپس آئی ہوں کہ …“
”بس تیرا کام ختم ہوگیا۔
اب تو ناشتہ واشتہ کر اور واپس چلی جا…“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو وہ میرے پیروں پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
”دیکھ جمال…! جو ہونا تھاوہ ہوگیا۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا ۔ ایک بار تو اپنے غصے کو پی جا‘ اور مجھ پر احسان کردے‘ بھول جا اس واقعے کو… میں بہت شرمندہ ہوں… تیرا مجھ سے وعدہ رہا‘ میں اس سے بدلہ ضرور لوں گی اور تجھے بتا کر لوں گی بدلہ…“
”میں پاگل نہیں ہوں کہ اس پر چڑھ دوڑوں گا۔
میں مان لیتاہوں تیری بات…لیکن وعدہ کرو‘ میں جو کچھ بھی کروں گا… تم میری مدد کروگی… “ میں نے ایک خیال کے تحت اس سے کہا تووہ خاصی حد تک مطمئن ہوگئی پھراٹھ کر باہر چلی گئی۔ کچھ ہی دیر بعد فرّی ناشتہ لے کر آگئی۔ اس نے کافی کچھ میرے سامنے رکھ دیا۔ میں سوچتے ہوئے ناشتہ کرنے لگا۔
ناشتہ کرنے کے کچھ دیر بعد میں صحن میں گیا تو مزدور سامان اُتار کر صحن میں رکھ رہے تھے۔
مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ میرے خاموش ہوجانے کی قیمت ادا کررہی ہے۔ تبھی میں نے جاکر سوہنی سے پوچھا۔
”یہ ساراسامان کتنے کا آیا۔ یہ صوفے‘ یہ فریج… یہ دوسرا سارا الیکٹرونکس کاسامان…“
”میں نے جمع نہیں کیا‘ بس جلدی جلدی میں لے لیا…“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی… اندازہ تو ہوگا…“ میں نے پوچھا تو اس نے چھ ہندسوں میں اندازے سے رقم بتائی۔
میں نے خاموشی سے سنی اور پھر اوپر چھت پر موجود کمرے میں چلا گیا۔ وہاں جاکرمیں نے اتنی رقم نکالی‘ پھر کچھ زائد رقم نکال کر نیچے آگیا‘ فرّی اور سوہنی اماں کے پاس ہی صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں‘ میں نے وہ رقم لے کر اس کے سامنے رکھ دی۔
”یہ لو رقم… اور دوسری بات نہیں کرنی‘ جب سامان اتر جائے تو اپنے ساتھ لائے لوگوں کو لے کر فوراً چلی جانا‘ میں کچھ دیر بعد واپس آؤں توتم یہاں پرنہیں ہونا…“
”جمال… یہ تم…“ اس نے تیزی سے کہناچاہا تومیں نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
”خاموش… کہانا دوسری بات نہیں کرنا۔“ یہ کہہ کر میں نے زائد رقم اماں کو تھماتے ہوئے کہا۔
”اس لڑکی کو دے دینا‘ جو اس کے ساتھ آئی ہے۔ خالی ہاتھ جائے‘ اچھا نہیں لگتا۔“ میں نے کہااور باہر کی طرف چل دیا۔
باہر والے کمرے میں چھاکا کرسی پرخاموش بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے جاتے ہی اس سے بائیک نکال لانے کو کہا‘ وہ اندرجاکر بائیک نکال لایاتو میں نے ڈیرے پر چلنے کو کہا۔
ہم اپنی گلی سے نکل کر ڈیرے کی جانب چل دیئے۔ میرا دماغ جب بھی سوہنی اور ملک سجاد کے بارے میں سوچتا‘گرم ہوجاتا‘ ایک طوائف کاکیا بھروسہ‘ وہ شایدا س وقت میرے گھر میں بیٹھی ملک سجاد ہی کی وکالت کررہی ہو‘رکھیل اپنے رکھنے والے ہی کی سلامتی چاہے گی‘ میں یہی سوچتا رہا اور چھاکا ڈیرے پرلے گیا۔ وہاں جاکر میں نے اطمینان سے ساری بات اُسے بتادی‘ وہ ساری بات سن لینے کے بعد کافی دیر تک سوچتا رہا پھر آہستگی سے بولا۔
”جمال… یہ تو سچ ہے کہ معاملہ کو ٹھنڈا کرکے ہی دیکھا جائے‘ لیکن پہلے مخبروں کی خبر لیں، باقی بعد میں دیکھیں گے۔“ اس نے کہا تو مجھے کافی حد تک پرسکون ہوگیا۔ میں بھی اسی نہج پر سوچ رہاتھا۔
# # # #