صبح کی طلائی کرنیں اپنا آپ زمین پر نچھاور کررہی تھیں۔ جسپال سنگھ کوٹھی کی چھت پر کھڑا دُور تک پھیلے ہوئے کھیتوں کو دیکھ رہاتھا۔اوائل فروری کے دنوں میں گندم کی فصل سے زمین سبز دکھائی دے رہی تھی۔ کہیں کہیں کوئی دوسری فصل اپنے گہری یا کم گہری رنگت کے باعث الگ سے نظر آ رہی تھی۔ مشرق میں دور تک کھیت ہی تھے جبکہ مغرب کی جانب اُوگی گاؤں تھا جو بہت زیادہ پھیلا ہوا لگ رہاتھا۔
اس کی آنکھ اس وقت کھل گئی تھی‘ جب سورج نہیں نکلا تھا۔
وہ بستر میں پڑا نہ رہ سکا۔ اس نے منہ ہاتھ دھویا اور چھت پر چلا آیا۔اُسے پنجاب کی یہ کھلی ہَوا بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اگرچہ بہت ساری سوچیں اس کے دماغ میں آرہی تھیں‘ مگر وہ کچھ وقت کے لیے اس منظر میں کھوجانا چاہتاتھا۔ یہ منظر اس نے صرف فلموں میں یا پھر تصویروں میں دیکھے تھے۔
(جاری ہے)
مگر سوچ پر قابو کون رکھ سکا ہے؟ خیالوں پر گرفت نہیں ہوسکتی ‘ یہی وہ عطیہ ہے جس سے انسان خود کو قوت کے ساتھ آگے ہی آگے دھکیل رہاہے۔ خیال ہی زندگی میں رنگینیاں پیدا کیے ہوئے ہیں۔
وہ ان منظروں میں کھویا ہوا تھا مگر لاشعوری طو ر پر سوچتا چلا جارہاتھا کہ بھارت کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی اس کے لیے حیرت ہی کے دَر،وَا ہوئے تھے۔ ایک ہی دن میں انکشاف درانکشاف نے اُسے پوری جان سے ہلا کررکھ دیاتھا۔
بھارت کی سرزمین پر اس کے ساتھ ایسا بھی ہوگا‘ یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اب گولڈن ٹیمپل میں تووہ ماتھا ٹیکنے گیاتھا۔ اس کاارادہ تھا کہ جو کچھ اس نے آج تک وہاں کے بارے میں سنا ہے تصویروں یا فلموں میں دیکھاہے‘ وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھے گا‘ لیکن …! اس کے ساتھ ہوا کیا؟ وہاں پر جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہوا‘ وہ خود ہی جانتاتھا۔ اس کی وضاحت وہ کسی سے کر نہیں سکتاتھا۔
اس خیال کے آتے ہی وہ پھر سے اپنی کیفیت کو محسوس کرنے لگا تھا۔ انہی لمحات میں اس کے اندر سے یہ سوال ا ُبھرا کہ آیا وہ اپنی ان کیفیات کے بارے میں کسی کو بتائے یانہیں؟ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ہاں مگر وہ یہ ضرور سمجھ رہاتھا کہ اسے ”اشارہ“ ہوا ہے‘ اس نے یہاں پر کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ ایک طرح سے اُسے اپنے خیالوں‘ خواہشوں اور اُمیدوں کی تائید مل گئی تھی۔
اس کے لاشعور میں کہیں نہ کہیں یہ تھا کہ جس طرح اس نے اپنا مقصد چھپا کررکھا ہے‘ اس ”اشارے“ کو بھی اپنے تک رکھے اور اگر واہِ گرو نے چاہا تو خود ہی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے گی‘ جس میں اس راز کو افشا کرناضروری ہوگا۔
اور پھر جیسے ہی وہ گاؤں میں داخل ہوا تو انوجیت کے بارے میں انکشاف ہوگیا۔ وہ اس کے اتنا قریب بھی ہوسکتا ہے ‘ جب تک وہ اس گاؤں میں نہیں پہنچاتھا‘ اسے گمان بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ اتنے قریب لوگوں کے ہاں جارہا ہے۔
اس کی ملاقات ایسی ہستی سے بھی ہوجائے گی جس کے باعث اُسے نئی زندگی ملی تھی۔ اگر اس رات کلجیت کور اپنے گھر سے نکل کر ان کی حویلی کی طرف نہ جاتی تب وہ بھی دوسرے سب کے ساتھ آگ میں جل گیا ہوتا۔ اگرچہ زندگی دینے اور لینے والا وہی مالک ہے جس نے پیدا کیا۔ تاہم اس دنیا میں اس رب نے اپنے بندوں ہی کے ذریعے سب کچھ کروانا ہوتا ہے۔ پھوپھو سکھ جیت نہیں چاہتی تھی کہ وہ دوبارہ بھارت آئے لیکن وہ آگیا ۔
انوجیت کے بارے میں وہ یہی سمجھتا رہا تھا کہ اس نے انوجیت کو دوست بنا کر رکھا ہوا ہے حالانکہ انہوں نے خود اسے تلاش کرکے اس کے ساتھ نیٹ دوستی رکھی ہوئی تھی۔ اپنے شیرخوارگی کے دور سے لے کر اب تک پراگر وہ سوچے تو اس میں سے کیا نکلتا ہے کہ وہ دائرے کاپابند ہے اور پھر سے وہیں پر آن کھڑا ہوا ہے جہاں سے وہ اٹھائیس برس پہلے چلا تھا۔
اب اس کے پاس کیا تھا‘آگ کے سوا اس کے من میں کچھ نہیں تھا۔
انتقام کی بھڑکتی ہوئی آگ‘ لیکن وہ لوگ دکھائی نہیں دے رہے تھے‘جن سے اس نے بدلہ لینا تھا۔ یہ سب کیسے ہوگا؟ یہی سوال اس کے لیے سب سے بڑی اہمیت رکھتاتھا۔ سب سے پہلے اسے ان لوگوں کو تلاش کرنا تھا۔ ان کے بارے میں معلومات ہی سے وہ آگے بڑھ سکتا تھا‘ اس کا آغاز کہاں سے کرے؟ کیا انوجیت اس قدر بھروسہ مند ہوسکتاہے؟ کیا اس میں اتنا حوصلہ اور جرات ہوتی کہ وہ اس پر اعتماد کرکے سب کچھ بتادے؟ کیا وہ اس کابہترین ساتھی ثابت ہوسکتا ہے؟ کیا وہ …“
”آپ اِدھر ہیں میں اُدھر کمرے میں دیکھ رہی تھی آپ کو…؟“ ہرپریت کور کی آواز نے اُسے خیالوں سے باہر لاپھینکا۔
تبھی اس نے گھوم کر دیکھا۔ سفید لباس میں ‘ میک اپ سے بے نیاز چہرہ‘ کھلی زلفوں کے ساتھ وہ سراپا سوال بنی اس کے سامنے تھی ۔ چونکہ وہ سیڑھیاں چڑھ کرآئی تھی اس لیے ہلکے ہلکے لرزتے وجود سے وہ اپنی تیز سانسوں کو قابو میں کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ معصوم ساحسن سیدھا اس کے دل میں اترتا چلا گیاتھا۔ تبھی اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”بس ایسے ہی یہ منظر دیکھنے یہاں چھت پرآگیا تھا۔
شاید تمہیں معلوم نہیں ‘ میں پہلی بار یہ نظارے دیکھ رہا ہوں۔“ اس نے عجیب سے لہجے میں اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔ تووہ شوخی سے بولی۔
”ویسے میرے لیے بڑی عجیب سی بات ہے کہ ان کھیتوں کے نظارے آپ کو اتنے اچھے لگ رہے ہیں۔ ظاہر ہے ہم نے تو ہوش سنبھالتے ہی انہیں دیکھا‘مگر آپ نے نہیں ۔“
”یہ تو فطری سی بات ہے ناہرپریت…! جس کے پاس جو چیز جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اس کے لیے اتنی ہی بے اہمیت ہوتی ہے۔
“ جسپال نے عام سے انداز میں کہاتو پھر وہ اسی شوخی ہی سے بولی۔
”لیکن سب چیزوں کے بارے میں ہم ایسا نہیں کہہ سکتے۔ مثلاً دولت…، زیادہ تر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ ہو اور اس کی اہمیت بھی بہت ہوتی ہے۔ کسی کا پیار… جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اچھا ہے۔“
”تم ٹھیک کہتی ہو۔“ اس نے اُداس ہوتے ہوئے کہا۔
”اچھا‘ آپ ناشتہ کرلیں آکر… اور اگر آپ کو یہاں بہت اچھا لگ رہا ہے تو میں ناشتہ یہاں لے کر …“
”نہیں‘اتنا سب کچھ یہاں لاؤگی۔
چلتے ہیں۔“ اس نے جلدی سے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”چلیں پھر آئیں۔“ یہ کہتے ہی وہ اُلٹے قدموں پلٹ گئی۔ وہ بھی اس کے پیچھے لپکا۔ وہ اس کے آگے آگے سیڑھیاں اُتر رہی تھی‘ وہ اُسے غور سے دیکھ رہا تھا‘ اُسے وہ ہرنی کے جیسے لگی۔ پتلی سی کمر‘ لچکتی ہوئی‘ بل کھاتی ہوئی وہ سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ وہ یونہی آگے پیچھے چلتے ہوئے ڈرائننگ ٹیبل پرجاپہنچے‘جہاں کلجیت کور پہلے ہی سے ان کاانتظار کررہی تھی۔
”آپُتر… بیٹھ ناشتہ کر۔“
”اُو…! یہ تو آپ نے اتنا اہتمام کرلیا۔“ جسپال نے بھری ہوئی میز پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہ سب ہرپریت نے کیا ہے۔“کلجیت کور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’میں نے سوچا ‘پتا نہیں دیسی ناشتہ پسند کرے کہ نہ کرے… اس لیے ولائتی بھی بنادیا۔ اب جو دل کرے۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولی تو جسپال نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
”پھوپھو…! ادھر وینکورو میں پھوپھو سکھ جیت زیادہ تر یہی دیسی ناشتہ کرواتی تھی اور جس دن چھٹی ہوتی تھی تو دیسی کھانے پکاتے رہتے اور کھاتے رہتے۔“
”ہاں دل کی بڑی اچھی تھی سکھ جیت‘ میرے تو ساری زندگی وہ کام آئی ہے۔ اب یہی دیکھ لو‘ جوہم اتنے سکون سے رہ رہے ہیں۔ یہ سب اس کی وجہ سے ہے۔ اس نے …“
”پھوپھو‘ یہ انوجیت کہاں ہے‘ ابھی تک اٹھانہیں۔
“ جسپال نے واضح طور پرکلجیت کور کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا تو وہ چند لمحے خاموش رہی۔ سمجھ گئی کہ وہ اس کی یہ بات سننا نہیں چاہتا ‘ پھر بولی۔
”اُٹھ تو وہ کافی دیر پہلے سے گیا ہی‘ وہ کسرت کرتا ہے‘ ابھی تیار ہو کر آتاہی ہوگا‘ جا،بُلالاویر کو۔“
”جی‘ بے بے…“ ہرپریت نے کہااور انوجیت کوبلانے چل دی۔
ناشتہ بہت خوشگوار ماحول میں کیا گیا۔
انوجیت کافی خوش دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے چائے ختم کی اور دونوں اُٹھ کر باہر لان میں آگئے۔ دھوپ خاصی چڑھ آئی تھی۔ مگر اچھی لگ نہیں رہی تھی۔ اس لیے وہ کرسیاں اُٹھا کر پورچ کے ساتھ دالان میں آبیٹھے۔ اتنے میں ہرپریت بھی ان کے پیچھے ہی آگئی۔ وہ بھی کرسی اُٹھا کر انہی کے پاس آبیٹھی۔ تبھی انوجیت نے پوچھا۔
”اچھا یہ بتا جسپال ! جتنے تمہارے پاس دن ہیں‘ ان کابہترین استعمال کرنے کے لیے تو کیا کرنا چاہتا ہے‘ کچھ تو پلان ہوگا تیرے ذہن میں‘ یا پھر… “ اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
تب وہ خاموش رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ کیا بات کرے۔ کچھ دیر پہلے وہ چھت پر انوجیت کے بارے میں سوچ رہاتھا‘ اس کے بارے میں مطمئن نہیں تھا۔ اس نے تو بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔اب وہ سب تو انوجیت کو نہیں بتاسکتاتھا۔ اُسے کچھ بھی نہیں سوجھ رہاتھا کہ ہرپریت بولی۔
”جسپال…! آپ سوچ میں کیوں پڑگئے ہو؟ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو ہمیں بتاؤ‘ ہم پلان کرلیتے ہیں‘ آپ بولو تو سہی۔
“
تبھی اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی مانند لپکا تووہ بولا۔
”میرا دل چاہتا ہے کہ میں سب سے پہلے اپنی حویلی کو ٹھیک کروں‘ اسے پہلے کی مانند بالکل نئی بنا دوں…لیکن…؟“ وہ کہتے کہتے رک گیا۔پھر کچھ سمے بعد بولا”لیکن یہ میرے ویر،کیا اس حویلی پرمیں قانونی طور پر کوئی حق رکھتا ہوں؟ اور اگر کوئی قانونی حق نہیں رکھتا تو پھرمیں کس طرح ثابت کرسکتا ہوں کہ وہ حویلی اس وقت میری ملکیت ہے۔
میرے پرکھوں کی جائیداد ہے اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ اب تک اس حالت میں کیوں ہے‘ اسے آپ لوگوں نے ٹھیک کیوں نہیں کروایا‘ یہاں نئی کوٹھی بنانے کی بجائے وہاں کیوں نہیں رہے۔ “ وہ ایک ہی سانس میں کئی سوال کرگیا۔ انوجیت بڑے سکون سے سنتا گیا پھر اسی سکون سے بولا۔