میں اور چھاکا دوپہر کے بعد تک ڈیرے ہی پر رہے۔ہم نے اپنے طور پر پورے گاؤں کے لوگ کھنگال مارے کہ ان میں مخبر کون ہوسکتے ہیں؟ ساری زندگی اسی گاؤں میں گزر گئی تھی لیکن کبھی کسی کے بارے میں شک تک نہیں ہوا تھا کہ وہ پولیس کامخبر بھی ہوسکتا ہے۔ اب شاید ہم خود اس معاملے سے گزرے تھے ،اس لئے ہمیں انکشاف ہوا تھا، جو بہرحال خطرناک تھا۔ شاید پولیس تم تک نہ پہنچ پاتی اگر اس مخبر نے ہمارے بارے میں اطلاع نہ دی ہوتی۔
ہمارا ہونا بھی پھر کیا ہوتا اگر ہم شام سے پہلے اس نادیدہ مخبر کو تلاش نہ کرلیتے۔
”چل یار اٹھ گاؤں چلتے ہیں۔ یہاں ہاتھ پرہاتھ رکھ کر تو اس مخبر کو تلاش نہیں کیاجاسکتا۔ “ چھاکے نے ایک دم سے اُکتائے ہوئے انداز میں کہا۔ تبھی بھیدے نے کہا۔
”جاؤ جاؤ… میں سنبھال لوں گا سب کچھ… تم جاؤ۔
(جاری ہے)
“
شاید اس نے ادھر ادھر پھرتے ہوئے ہماری باتیں سن لی تھیں ‘اس لیے ہمیں ڈھیل دی تھی کہ ہم جاکر یہ کام کریں۔
”لے پھر بھیدے جارہے ہیں ہم۔“ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا تو چھاکا بھی اُٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد ہم ڈیرے سے نکل کر گاؤں جانے والے راستے میں تھے۔ ہم دونوں اپنے اپنے تئیں خاموش سو چ رہے تھے کہ اچانک چھاکے نے میرے پیچھے بیٹھے ہوئے چونک جانے والے انداز میں کہا۔
”اُوئے…! مجھے یہ بتا‘ شاہ زیب اور پیرزادے کو معلوم ہوگیا کہ توتھانے میں ہے اور وہ فوراً وہاں پہنچ گئے؟“
”بات تو تیری ٹھیک ہے یار‘ چلو شاہ زیب کے بارے میں تو کہاجاسکتا ہے کہ گاؤں کے کسی بندے نے اطلاع دے دی ہوگی لیکن پیرزادہ تو…“
”بندہ انہی دونوں کے درمیان ہے جمال… وہ بندہ محض پولیس کامخبر نہیں ہے۔
ان سب کی ملی بھگت لگتی ہے۔ تومان جا…“
”مان گیا‘ پراس بندے تک تو پہنچ…“ میں نے تیزی سے کہا۔
”سمجھو پہنچ گیا۔ اچھوکریانے والا… سارے گاؤں کی خبر اس کے پاس ہوتی ہے۔ اتنی تیزی سے رابطہ صرف اور صرف فون پر ہوسکتا ہے‘ ورنہ نورنگر سے پیرزادے کے گاؤں تک کوئی بندہ جائے‘ اسے بتائے‘ تو پھر تھانے تک جائے‘ جبکہ شاہ زیب کو اس سے پہلے پہنچ جاناچاہیے تھا۔
دونوں کا ایک ہی وقت پہنچ جانے کا مطلب ہے کہ دونوں کو اطلاع ایک ہی وقت میں ملی اور آگے پیچھے تقریباً ایک ساتھ وہاں پہنچ گئے۔“ چھاکے نے پیچھے بیٹھے ہوئے تفصیل سے کہاتو میں چونک گیا۔
”بات تیری ٹھیک ہے چھاکے‘ چل‘ اس سے پوچھتے ہیں۔“ میں نے کہا اور بائیک کی رفتار مزید بڑھادی۔
سہ پہرہوچکی تھی جب ہم اچھو کریانے والے کی دکان پر پہنچے۔
وہ دکان کے اندر کھڑا گاہکوں کو نمٹارہاتھا۔ جبکہ دُکان کے باہر چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے بائیک ایک طرف لگائی‘ اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے سلام دعا کرنے لگے۔ مجھے انتظار تھا کہ وہ دکان پرموجود گاہکوں کو سودا وغیرہ دے لے تو پھر اسے دکان سے باہر بلا نا آسان تھا۔ چند منٹ بعد ایسا ہی ہوا۔ گاہک تو چلے گئے لیکن وہ دکان کے اندر ہی رہا۔
تبھی میں نے اسے بلایا تووہ باہر آگیا۔ جب تک وہ میرے پاس آیا تب تک میں نے اپنا پسٹل نیفے میں سے نکال لیاتھا۔ میرے اس عمل سے اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔ تب ہمارا شک یقین میں بدل گیا۔
”دیکھ اچھو‘… تو مجھے بچپن سے جانتا ہے۔ میں تجھے ماروں گا نہیں‘ لیکن زندگی بھر کے لیے اپاہج ضرور کردوں گا۔ سچ سچ بتادے تو میرے بارے میں کب سے اور کسے اطلاع دیتا ہے۔
“میرے یوں کہنے پر وہ ایک دم میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور گھگیائے ہوئے اندازمیں بولا۔
”مجھے معاف کردے جمال…!یقین جانو مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ یہ سب کیا ہوا ہے‘ میں تمہیں ساری بات بتادیتا ہوں… آگے فیصلہ تم کرلینا… میں حرف بہ حرف سچ کہوں گا۔“
”تو بولو… روکا کس نے ہے۔“ چھاکے نے انتہائی غصے میں کہا۔
”جس وقت تم فون کرکے گئے تھے ،اس سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ایک بندے نے آکر مجھ سے سگریٹ لیئے اور یونہی باتوں ہی باتوں میں میلے کی بات کرنے لگا۔
پھر اس نے سوڈے کی بوتل کھولی اور وہی میلے کی باتیں کرتا رہا۔ وہ اصل میں مجھ سے یہ پوچھنا چاہ رہاتھا کہ فائرنگ کرنے والا بندہ کون ہے اور اس کے ساتھ لڑکی تو نہیں آئی۔“
”تم بے وقوف تھے کہ وہ تم سے پوچھ رہا تھا اور تم بتارہے تھے۔“ چھاکے نے اس کاگریبان پکڑتے ہوئے کہا۔
”یہ تو مجھے اب پتا چل رہا ہے نا… ورنہ اس وقت تووہ فائرنگ کرنے والے کی بڑی تعریف کررہاتھا‘ اب میں نے اکیلے تھوڑی جمال کو دیکھاتھا اس لڑکی کے ساتھ‘ رات بہت سارے لوگ اس چوک میں تھے۔
ان سب نے دیکھاتھا۔ یہاں ایسے کچھ اورلوگ بھی تھے۔ وہ بھی بتانے لگے‘ جب اس بندے کو پکی تصدیق ہوگئی کہ لڑکی جمال کے پاس ہے‘ اور اس کا گھر قریب ہی ہے تووہ چلاگیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور آکر فون کیا‘ کوئی اتنی لمبی چوڑی بات نہیں کی‘ جس پرمیں نے دھیان بھی نہیں دیا۔ کافی دیر بعد تم آئے…“
”تو مجھے بتاتے کہ میرے بارے میں کوئی پوچھ رہاتھا۔
“ میں نے تیزی سے کہا۔
”میں ڈرگیاتھا کیونکہ اس وقت تک وہ جیپ پر سوار تھا… سو…“بات اس کے منہ ہی میں رہ گئی اور چھاکے نے ایک زور دار تھپڑ اس کے مار دیا۔ وہ زمین پر جاگرا۔ تبھی وہ لرز گیا کیونکہ چھاکے نے بڑے غصے سے اسے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”پھر پیرزادے اور شاہ زیب کو فون کیوں کیا؟ جب اسے پولیس پکڑ کر لے گئی تھی۔“
”میرے تو خیال میں بھی نہیں تھا کہ پولیس آئے گی اور جمال کو پکڑ کر لے جائے گی‘ میرے پاس جمال کو بچانے کا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
شاہ زیب کو تو بتانا ہی تھا لیکن میں نے پیرزادے کو اس لیے بتادیا کہ یہ جمال اس سے بھی باتیں کرکے گیا تھا۔میں نے تو یہی سمجھا کہ وہ بھی اس کادوست ہے‘ اور پھر ہوا بھی یہی…“ اچھونے ڈرتے ڈرتے ساری بات بتادی۔
”میں تجھے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا‘ جب تک تو سچ نہیں بولے گا…“ چھاکے نے یونہی اندھیرے میں تیر مارا۔
”مجھ سے جیسا چاہے حلف لے لو… یہی سچ ہے۔
“ وہ گھگھیائے ہوئے انداز میں بولا۔
”توپھر وہ نمبر لاؤ‘ جس پر اس بندے نے کال کی تھی۔“ چھاکے نے کہا۔
”وہ میں دے دیتا ہوں‘ وہ میں نے نوٹ کرلیاتھا، ابھی دیتا ہوں۔“ اچھونے اجازت طلب نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تو چھاکے نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ فوراً دکان میں گیا‘ ایک کاپی نکالی‘ اس میں نمبر دیکھا اور باہر آگیا۔ پھرایک نمبر پر انگلی رکھ کر بولا۔
”یہ رہا اس پر کال کی تھی اس نے۔“
میں نے نمبر دیکھا‘ وہ کسی سیل فون کانمبر تھا۔اس وقت بیشتر علاقوں میں سیل فون سروس آگئی تھی۔ لیکن ابھی ہمارے علاقے میں یہ سروس نہیں آئی تھی،بس ٹاور وغیرہ لگ رہے تھے ۔ سنا تھا کہ آج کل میں شروع ہونے والی ہے۔ تبھی میں نے اچھو سے کہا۔
”چلو… یہ نمبر ملاؤ۔“
”ابھی ملاتاہوں۔“ وہ جلدی سے فون کی جانب بڑھا۔
پھر نمبر ملا کرریسیور میری جانب بڑھادیا۔ بیل جارہی تھی اور پھر کچھ رنگ جانے کے بعد فون ریسیو کرلیا گیا۔
”کون…؟“ دوسری طرف سے بھاری آواز ابھری۔
”میں جمال بات کررہاہوں۔نورنگر کاجمال… تم کون ہو؟“
”اُوہ جمال…!“ دوسری طرف سے کافی حد تک حیرت بھری آواز میں کہا گیا۔ پھر دوسری جانب سے آواز ابھری۔”یہ تو میں مانتاہوں کہ تم دلیر ہو‘ لیکن اتنی جلدی مجھے فون کرلوگے یہ بہرحال میں نے نہیں سوچاتھا۔
“
”نام بتاؤ۔“ میں نے اختصار سے پوچھا۔
”نام بتایا تو شاید تیراسانس بند ہوجائے۔ اس لیے خاموشی کے ساتھ ریسیور رکھ اور بھول جا کہ تیرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ غلط فہمی تھی‘ اس لیے تو بچ گیا۔“
”تُوبھڑکیں ہی لگاتا ہے یا پھر تم میں کوئی ہمت یاحوصلہ بھی ہے‘ یا پھر تیری فون پر ہی بدمعاشی چلتی ہے۔“میں نے جان بوجھ کر اسے غصہ دلایا۔
جس کا فوری ایکشن ہوا۔
”اوئے زبان سنبھال کے بات کر‘تو نہیں جانتا کہ میں کون ہوں…؟“
”شاید ببلی کھسرا… یا پھرنیلی کھسرا… جو اپنا نام چھپارہا ہے‘ مرد تو اپنا نام ظاہر کرتے ہیں‘چھپاتے نہیں۔“ میں نے پھر اسے بھڑکایا۔
”اوئے بے غیرت، مجھے ملک سجاد کہتے ہیں…اور میں …“ وہ کہنا چاہتاتھا کہ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
”یو ں کہو کہ تو بھڑوا ہے‘ پہلے اپنی عورتیں دوسروں کے گھروں میں بھیجتے ہو اور پھر انہیں بلیک میل کرتے ہو۔“ میں نے فوراً ہی گالی کابدلہ لے لیااور اسے مزید تپا دیا۔
”لگتا ہے تیری موت میرے ہاتھوں لکھی ہے۔ اب انتظار کرمیں تجھے خود ڈھونڈ کرتیری اس بے غیرتی کامزہ دیتا ہوں۔“
”ایک تووہ مزہ دے گئی ہے جو تو نے بھیجی تھی‘ اب ویسی ہی کوئی اور بھیجے گا یا پھر تو خود آئے گا‘ اوئے بھڑوے تو بول‘ میں تجھے خود تلاش کرلوں گا…‘ میں نے کہا تو شاید وہ سمجھ گیا کہ میں کیا کررہاہوں۔
اس لیے بغیر کچھ سنے اس نے فوراًفون بند کردیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے ریسیور کریڈل پر رکھا‘ پھر اچھوکی طرف دیکھ کربولا۔ ”تو اب سمجھ لے …“
”سمجھ گیا جی…“ اس نے انکساری سے کہا تو میں اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا۔ تبھی چھاکا میرے پیچھے آبیٹھا تو میں نے بائیک کارخ گھر کی جانب کردیا۔