جسپال اور انوجیت سارا دن نکودر تحصیل کورٹ میں پھرتے رہے۔ وہ بہت سارے لوگوں سے ملے۔ یہ ملاقاتیں محض شناسائی کی حد تک تھیں جو دوپہر کے بعد تک جاری رہیں۔ دوپہر کے بعد وہ دونوں ایڈووکیٹ گل کے چیمبر میں چلے گئے۔ وہ بوڑھا سکھ تھا لیکن چہرے پر سرخی اور آنکھوں کی چمک سے وہ اپنے عزائم میں نوجوانوں سے کہیں آگے دکھائی دے رہاتھا۔ انوجیت نے تعارف کرایا تو مسکراتے ہوئے بولا۔
”پُتر…! جی آیاں نوں‘ تو وطن واپس آیا ہے تو اپنے وطن کی لاج بھی رکھنا۔ خیر‘ یہ باتیں یہاں کرنے والی نہیں ہیں‘ تُو انوجیت پتر ایسا کر‘ انہیں لے کرگھر آجا‘ ابھی تھوڑی دیر بعد‘ وہیں ساری باتیں ہوں گی۔“
”جیسے آپ کہیں۔“ انوجیت نے کہا تووہ فون پر نمبر پش کرتے ہوئے بولا۔
”لنچ کا وقت ہوگیا ہے‘ ابھی نکلیں گے تو…“ یہ کہتے ہوئے اس نے فون کی طرف توجہ کرتے ہوئے نجانے کسے کہا۔
(جاری ہے)
”دومہمان ہیں میرے ساتھ لنچ کریں گے۔ ہاں… ابھی نکل رہے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے کال ختم کی اور بولا۔ ”چل انوجیت اکھٹے ہی چلتے ہیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ گیا۔ وہ دونوں بھی اُٹھ گئے۔
”آپ چلیں گل صاحب‘ ہم پہنچتے ہیں۔“ انوجیت نے کہا تووہ سرہلاتا ہوا اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔اس دوران جسپال کچھ نہیں بولا ۔وہ پوری طرح انوجیت ہی پراعتماد کیے ہوئے تھا۔
کبھی وہ نکودر کا پوش علاقہ رہا ہوگا‘ لیکن ان دنوں اس علاقے کی حالت اتنی اچھی نہیں تھی۔ راستے میں سے انہوں نے کچھ پھل اور مٹھائی لی تھی۔ وہ ستر کی دہائی کی طرز پر کوٹھی نما گھر تھا۔ گیٹ پر رکتے ہی ایک چوکیدار نے انوجیت کو دیکھااور گیٹ کھول دیا۔ اس لمحے جسپال نے اندازہ کرلیا کہ ایڈووکیٹ گل اور انوجیت میں اچھے تعلقات ہیں۔ فوراً ہی انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھادیا گیا۔
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایڈووکیٹ گل شلوار قمیص پہنے ان کے پاس آگیا۔
”بھئی جسپال… وہاں چیمبر میں سوکان ہیں سننے والے‘ نجانے کون کیا ہے‘ ۔یہاں سہولت اور سکون سے باتیں ہوں گی۔“
”جی‘ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہاں کا سسٹم تو بالکل عجیب سا ہے۔ جسے میں بالکل بھی نہیں سمجھ پایاہوں۔“ جسپال نے پرسکون لہجے میں کہا تو گل مسکراتے ہوئے بولا۔
”سمجھ آئے گی بھی نہیں‘ لیکن اسے بڑی جلدی سمجھا بھی جاسکتا ہے۔“
”وہ کیسے …؟“ جسپال نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
”سیدھی سی بات ہے‘ سیدھا نظام سیدھی نگاہ ہی سے سمجھ میں آتا ہے اورا لٹا نظام‘ الٹی نگاہ سے۔ بس یہ نگاہ کا پھیر ہے۔ اس ٹیڑھے نظام کو تم سیدھی نگاہ سے دیکھوگے تو ذرا بھی سمجھ نہیں آئے گی۔ یہاں قانون روپیہ اور ضابطہ طاقت ہے‘ یہ صرف دو زبانیں ہیں جو سمجھ میں آتی ہیں۔
“ گل نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”توپھر یہ سب کیسے چلتا ہے؟ جو سائل بے چارے آتے ہیں‘ انہیں کیسے انصاف ملتا ہوگااور …“جسپال نے کہنا چاہا تو گل نے تلخی سے کہا۔
”انصاف‘ وہ بھی بھارت میں‘ یہ ناممکن سی بات ہے پُتر‘ لاکھوں لوگ انیس سو چوراسی سے اب تک انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جنہیں ان اٹھائیس برسوں میں کسی نے پوچھا تک نہیں کہ کس کے پُتر‘ کس کے باپ‘ کس کے شوہر کو کیوں زندہ جلادیا گیا۔
“
”اب تک تو پھر سب کچھ ختم ہوجانا چاہیے‘ جہا ں انصاف ہی نہیں وہاں معاشرہ کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟“ وہ حیرت سے بولا۔
”اس سے زیادہ اور کیا ختم ہونے والی بات ہے کہ سب لوگ بارود کے ڈھیر پربیٹھے ہیں۔ کون سی قوم ہے جو سکون سے سانس لے رہی ہے‘ بھارت میں اس وقت لگ بھگ ستر علیحدگی کی تحریکیں کام کررہی ہیں۔ ان تحریکوں نے اپنے تربیتی کیمپ قائم کررکھے ہیں۔
یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ساری دنیا کومعلوم ہے‘ کوئی قوم اس وقت ہی ہتھیار اٹھاتی ہے جب انہیں اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہوجائے۔“
”گل صاحب! آپ نے تو بھارت کا بڑا بھیانک نقشہ پیش کردیا۔ میں دراصل اپنے معاملے کی بات کرنا چاہتاتھا۔ انوجیت نے…“ جسپال نے کہناچاہا تو گل نے تاسف بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”انوجیت نے بہت پہلے مجھ سے بات کی تھی۔
اور میں نے اس پر تھوڑا پیپر ور ک بھی کیا ہے،سیدھی سی بات ہے پُتر‘ اگر تم کہو کہ تمہارا معاملہ انصاف اور قانون کے مطابق حل ہوجائے تو یہ ناممکن ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں تمہیں مایوس نہیں کررہا‘ حقیقت بتارہاہوں۔ میں کیا‘ کوئی بھی وکیل بے بس ہوگا‘ لیکن اگر دولت اوراس کے ساتھ طاقت استعمال کروگے‘ خصوصاً اس ٹیڑھے نظام کے تحت ٹیڑھا چلوگے تو سب کچھ ٹھیک ہوتاچلا جائے گا۔
“
”مجھے کیا کرنا ہوگا۔“ جسپال نے حتمی انداز میں کہا۔
”تمہارے پاس صرف اتنا ثبوت ہے کہ تمہارا نام تمہارے گاؤں اُوگی کے چوکیدار کے رجسٹر میں درج تھا‘ جو اس نے تحصیل میں درج کروادیا۔ میں مان لیتا ہوں کہ تم سچے ہو‘ لیکن یہ کیسے ثابت کرپاؤگے کہ وہ جسپال سنگھ‘ تُو ہی ہو آنجہانی کلوندر سنگھ کابیٹا ہے‘تمہارا پہلا امتحان یہی ہے کہ تم اپنا ہونا ثابت کردو‘ یہ ثابت کرو کہ تم کلوندر سنگھ کے پُتر ہو‘ جس دن تم انصاف اور قانون کے تحت یہ ثابت کرلو‘ تو میرے پاس آجانا۔
میں نہ صرف تمہارا مقدمہ لڑوں گا‘ بلکہ تمام اخراجات خود برداشت کروں گا۔“
”آپ قانون اور انصاف سے اتنے مایوس کیوں ہیں؟ اور پھرمیری راہ‘ میری شناخت اتنی مشکل کیوں گل صاحب…؟“ جسپال نے کافی حد تک غصے میں کہا۔ تو گل نے انوجیت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اسے یوں سمجھ نہیں آئے گی۔ چند دن بعد یہ خود کہے گا‘ خیر‘ آؤ کھانا کھاتے ہیں‘ میراخیال ہے لگ گیا ہوگا۔
“ گل نے اٹھتے ہوئے کہا توہ دونوں بھی اٹھ گئے۔
لنچ پر وہ تینوں ہی تھے۔ گل کاپریوار شاید پہلے لنچ کرچکاتھا‘ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ وہ بھی ہلکی پھلکی باتوں اور ادھر ادھر کے واقعات بتاتے ہوئے لنچ کرتے رہے‘ یہاں تک کہ وہ سیر ہوگئے‘ وہ دوبارہ اٹھ کر ڈرائنگ روم میں آگئے۔ تبھی انہوں نے واپسی کی اجازت چاہی۔
”دیکھو پتر! میری باتوں کا برامت ماننا‘اور نہ ہی میں تمہیں مایوس کررہاہوں۔
میں تمہارا سارا معاملہ ہی نہیں، مسئلہ بھی سمجھتا ہوں۔ میری تو یہی خواہش ہے کہ رب تجھے تیری مراد دے۔ میں ایک دو دن میں اُوگی آؤں گا‘ پھر تفصیل سے باتیں ہوں گی۔“ گل نے کہا اور انہیں ہاتھ جوڑ کر واہ گرو کہتے ہوئے فتح بُلائی۔ وہ اس سے اجازت لے کر جب اوگی کی جانب پلٹے تو شام ہونے کو تھی۔
اُوگی پہنچنے تک شام ڈھل چکی تھی اور اندھیرا چھاگیاتھا۔
راستے میں جسپال نے انوجیت سے کوئی بات نہیں کی۔ اسے گل کی سمجھ نہیں آئی تھی لیکن نجانے کیوں اسے وہ بندہ ٹھیک لگاتھا۔ پورچ میں گاڑی رکی تو اس نے دیکھا‘ ہرپریت کور لان میں بیٹھی ہے‘ اس نے سفید شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی اور باریک آنچل کرسی کی پشت پر پھیلا ہواتھا۔ وہ کوئی میگزین دیکھ رہی تھی‘ جس سے توجہ بدل کران کی طرف ہوگئی تھی۔ وہ دونوں گاڑی سے اترے تو ہرپریت بھی ان کے قریب آگئی۔
”آپ دونوں فریش ہو کر آجائیں میں آپ کے …“
”نہ ہرپریت‘ اس جسپال سے کہہ دے جو کہنا ہے‘ میں تو جارہا ہوں‘ شاید رات دیر سے آؤں…“ انوجیت نے کہااور اندر کی طرف چلا گیا۔
”پھوپھو کہاں ہیں؟“ جسپال نے پوچھا۔
”وہ اندر ہی ہیں‘ آپ فریش ہوجائیں پھر باتیں کرتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ اندر کی جانب چل دی تو وہ دونوں بھی اس کے پیچھے لپکے۔