جسپال چھت پر کھڑا تھا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈ اسے اچھی لگ رہی تھی۔ سامنے اُوگی کی روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ جو وہاں کسی آبادی کے ہونے کا احساس دلا رہی تھیں۔ وہ سوچ رہاتھا کہ اس گاؤں میں اس کی حویلی ہے‘ جو اس کے خاندان کا مقتل بنی تھی۔ اسے یہاں آکر بڑا عجیب سا لگا تھا۔ اسے کتنی ہی دیر ہوگئی تھی یہاں کھڑے ہوئے‘ وہ کچھ سوچنا چاہتاتھا‘ کئی سوال اس کے ذہن میں تھے لیکن کسی ایک پر بھی وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کرپایا تھا۔
ایڈووکیٹ گل کے ساتھ ہوئی باتیں اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔ لیکن ایک سوال اس کے ذہن میں اچانک اُبھرا تھا۔ نجانے اسے کیوں لگا تھا کہ ایڈووکیٹ گل اور اس سوال کا کہیں گہرا تعلق ہے۔ تبھی اسے اپنے عقب میں قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھاتو توقع کے مطابق وہاں ہرپریت کھڑی اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھ رہی تھی۔
(جاری ہے)
وہ چند لمحے یونہی دیکھتی رہی پھر بولی۔
”لگتا ہے آپ کو یہ جگہ بہت پسند ہے۔ آپ یہاں آکر کیوں کھڑے ہوجاتے ہیں؟“
”ہرپریت… میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ شاید میں اس گاؤں کی فضاؤں سے بہت ساری باتیں کرناچاہتا ہوں‘ یاشاید اپنے اندر کے شور کو سننے کے لیے اس پرسکون جگہ پر آجاتاہوں۔“
”جسّی جی میں جو ہوں باتیں کرنے کے لیے‘ مجھ سے باتیں کیا کریں نا۔“ وہ آہستگی سے بولی۔
”ہاں‘ تم بھی ٹھیک کہتی ہو‘ خیر…! میری ایڈووکیٹ گل کے ساتھ بات ہوئی‘ اس کے بارے میں سوچ رہاتھا اور… “ یہ کہتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہا پھر اختصار سے باتیں بتانے لگا۔ ساری بات سن کرہرپریت ذرا سا مسکرائی اور بولی۔
”وہ ٹھیک کہتا ہے‘ لیکن اس کی سمجھ ابھی تمہیں نہیں آئے گی۔“
”کیوں…؟“ وہ تیزی سے بولا تو وہ عام سے لہجے میں بولی۔
”تم ابھی اس ماحول کو نہیں جانتے‘ جب ماحول کو سمجھوگے تو ساری باتیں سمجھ میں آنے لگیں گیں۔“
”اچھا‘ ایک بات بتاؤ‘ آج صبح تم نے اس پولیس آفیسر کے بارے میں بتایا تھا‘ وہ کیا کہانی ہے؟“
”مجھے معلوم تھا کہ تم یہی بات کروگے…“ وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولی۔ ”وہ بہت بے غیرت قسم کا پولیس آفیسر تھا اور اسے خاص طو رپر یہاں لگایا گیا تھا‘ بہت دنوں سے لوگ اس کی تاک میں تھے‘ رات وہ قابو آگیا۔
“
”لیکن تم تو کہہ رہی تھی کہ یہ میرے لیے پیغام تھا؟“جسپال نے تیزی سے پوچھا۔
”بن گیانا‘ پیغام بن گیا‘ اور یہ جو تم نے سوچا ہے کہ ایڈووکیٹ گل کی بات اور اس قتل میں کہیں تعلق ہے تووہ ہے… میں تمہیں مزید نہیں اُلجھاناچاہتی ہوں جسّی‘ میں صاف لفظوں میں تمہیں بہت کچھ بتادینا چاہتی ہوں آؤ…نیچے چل کرتمہارے کمرے میں سکون سے بیٹھتے ہیں۔
وہیں باتیں کرتے ہیں۔“
”چلو…“ اس نے کہاتودونوں آگے پیچھے نیچے کی طرف سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ کمرے میں پہنچ کر جسپال بیڈ پربیٹھا توہرپریت نے ایک کرسی کھینچی اور بیڈ کے قریب بیٹھ گئی۔ پھر بڑے سکون سے بولی۔
”میں جالندھر میں پڑھتی تھی‘ خالصہ کالج جالندھر‘ وہیں ہاسٹل میں رہتی تھی۔ میں اکیلی ہی وہاں پر ایسی نہیں تھی کہ جس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے قتل ہوگیا۔
کسی کاباپ‘ کسی کابھائی‘ ہر ایک ایسی تھیں‘ جس کے گھر سے کوئی نہ کوئی قتل نہ ہوا ہو۔ سکھوں کے لیے سن چوراسی قیامت کا سال تھا۔ میرے اندر انتقام تو تھاہی ‘ وہاں جاکر شعور ملا کہ ہمیں کرنا کیا ہے‘ وہیں ہماری ایک لیڈر تھی‘ جس کے باپ کو اس کی نگاہوں کے سامنے زندہ جلادیاگیا تھا‘ اس کی کہانی بڑی درد ناک تھی‘ سوہم شعوری اور لاشعوری طور پر سکھ حریت پسند تحریک کے ساتھ جڑ گئے۔
ہم نے بہت کام کیا خالصہ پنتھ کے لیے‘ جس میں قوت ہمارے اندر پلنے والے انتقام سے تھی۔ یہ تحریک بہت مضبوط ہے‘ سمجھ لو کہ گھاس کے اندر ہی اندر ایک دریابہہ رہا ہے‘ جو کسی بھی دن شوریدسر لہروں کے ساتھ نمودار ہوجائے گا۔“ وہ کسی جذباتی حریت پسند کی طرح کہہ کرخاموش ہوگئی۔
”حکومت کوپتہ ہے…؟“ جسپال نے پوچھا۔
”پتہ ہے‘ ہماری گوریلا جنگ جاری ہے‘ اور یہ پولیس آفیسر ہم نے ہی مارا ہے۔
“ ہرپریت نے نفرت آمیز لہجے میں کہا تو جسپال نے گہرا سانس لے کر ہنکارا بھرا۔
”ہوں…“
”سوال یہ جسّی‘ جب تک تم اپنے بارے میں‘ اپنے مقصد کے بارے میں نہیں بتاؤگے‘ ہم تمہاری مدد کیسے کرپائیں گے‘ اگر تم صرف اپنی جائیداد…“
”نہیں‘مجھے جائیداد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے‘ اس سے کہیں زیادہ میرے پاس وینکوور میں ہے ‘یہ میں نے تمہیں بتایا تھا۔
میں سکون اور عیاشی کی زندگی وہاں گزار سکتا ہوں۔ میں یہاں پر کیوں آیاہوں؟ صرف ان لوگوں کو‘ جو کسی نہ کسی حوالے سے میرے خاندان کے قتل میں ملوث ہیں۔ انہیں ختم کرنے کے ذمے دار ہیں‘ میں نے انہیں نہیں چھوڑنا۔ بس ‘یہی میرا مقصد ہے۔“ اس نے ہرپریت کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”پھر وہ تو رویندر سنگھ خاندان ہے‘ جس کے بارے میں نے تمہیں بتایا تھا۔
“ وہ تیزی سے بولی۔
”ہاں وہی‘ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سارے لوگ ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ چندلمحے خاموش رہا‘ پھر بولا۔”تمہاری یہ بات بالکل درست ہے کہ مجھے یہاں کے ماحول کے بارے میں نہیں معلوم اور نہ ان لوگوں کے بارے میں پوری معلومات رکھتا ہوں۔ مجھے یہاں کے لوگوں کی مدد درکار ہوگی۔ لیکن میں محتاط اس لیے ہوں ہرپریت کہ میں اپنا کام ختم ہونے سے پہلے نہ مرنا چاہتا ہوں‘ اور نہ کام ادھورا چھوڑنا چاہتاہوں‘ کہ کس کے ہتھے چڑھ کرجیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہوجاؤں۔
“
”تم چاہو تو میں تمہیں اپنی تحریک کے لیڈروں سے ملواسکتی ہوں‘ وہ تمہاری مدد…“اس نے کہناچاہا تو جسپال نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”نہیں‘ ابھی نہیں…مگر میں چاہوں گا کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا جائے۔“
”مطلب‘ پلان کیا جائے…“ ہرپریت مسکراتے ہوئے بولی تو اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”یہ تو کرنا ہی ہوگا۔“
”اوکے… آؤ کھانا کھاتے ہیں۔ پھر پوری رات پڑی ہے‘ باتیں کرنے کے لیے۔ بے بے انتظار کررہی ہوں گی‘ میں تمہیں بتاتی ہوں کہ ہمیں کرنا کیا ہوگا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی‘ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو جسپال نے مسکراتے ہوئے اس کاہاتھ پکڑ لیا۔ پھر دونوں ہی مسکرادیئے۔
# # # #