”اس نے اپنے بندے بھیج د یئے ہیں۔“ میں نے کہا تو اس کی آنکھوں میں چمک لہراگئی۔ پھر دھیمے سے لہجے میں بولا۔
”بات تو نہ بنی نہ یار‘ کچھ بندوں کو آگے کرکے وہ …“
اس نے کہنا چاہا ‘مگر میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے رندھاوا سے ہونے والی تفصیل بتادی۔ وہ خاموشی سے سنتا رہا پھر جب میں نے کہا کہ تمہارا کیا خیال ہے تووہ بولا۔
”دیکھ لو… بندے اگر شاہ دین کے ڈیرے پرہیں اور ہم انہیں وہیں قابو کرتے ہیں تو معاملہ شاہ دین کی انابن جائے گا۔
مطلب سیدھے سیدھے شاہ دین سے ٹکرانا ہوگا‘ اوراگر کہیں دوسری جگہ آمنا سامنا ہوتاہے تو پھر یہ شاہ دین بے نقاب نہیں ہوگا۔“
”تویہ کہنا چاہ رہا ہے کہ انہیں شاہ دین کے ڈیرے پر ہی …“ میں نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیاتووہ تیزی سے بولا۔
(جاری ہے)
”تواور کیا… اس شاہ دین کو بھی تو پتہ چلے کہ ہم سوئے ہوئے نہیں ہیں۔ لیکن …! اس کافیصلہ صرف تم نے کرناہے کہ اس سے دشمنی نبھاپاؤگے یانہیں۔
“
”یہ تو بعد کی بات ہے چھاکے کہ ہم دشمنی نبھاپائیں گے یانہیں‘ جب دشمنی ہوہی گئی تو کسی ایک کو تو ختم ہونا ہے‘ ہم یا وہ… اور کبھی نہ کبھی تو یہ ہونا ہی ہے… کیوں ناابھی سہی۔“ میں نے کہاتو اس نے حتمی انداز میں پوچھا۔
”توپھر دیکھتا کیا ہے‘ چل اٹھ… نکلتے ہیں۔ کرتے ہیں ان کا کچھ نہ کچھ۔“
”مجھے رندھاوا کی طرف سے نشاندہی کاانتظار ہے۔
“ میں نے کہا تووہ بولا۔
”چل تو کرانتظار‘ میں کچھ دیر میں آتاہوں۔“
”یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا تومیں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
”توجاکہاں رہا ہے…“
”میں آکے بتاتاہوں۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر کی جانب چل دیا۔ میں چارپائی سے اٹھ ہی رہاتھا کہ ماں آگئی۔ اس نے مجھے عجیب سی نگاہوں کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔
”جمال آخر وہ دن آہی گیا‘ جس کا برسوں سے ہم دونوں انتظار کررہے تھے۔
“
”ہاں ماں…! ایک دن تویہ آنا ہی تھا۔ بس تم میرے لیے دعا کرتی رہنا۔ ماں کی اور وہ بھی مظلوم ماں کی دعا میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور میرا یقین ہے ماں جب تک تیری دعائیں میرے ساتھ ہیں‘ میرا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔“
”بس…! اس پیدا کرنے والے کی ذات پر بھروسہ رکھنا‘ میرے پتر۔ وہی زندگی اور موت دینے والا ہے۔ کبھی ظالم کا ساتھ مت دینا۔
میری دعائیں تیرے ساتھ ہیں۔ اللہ پاک تجھے کامیابیاں دے۔“ یہ کہ کر ماں نے مجھے اپنے سینے کے ساتھ لگایا‘ میرا ماتھا چھومااور دھیرے سے کہا۔ ”جا…! اللہ کے حوالے…“ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں نے تڑپ کر کہا۔
”ماں…! میں اپنی جان ہار سکتاہوں‘پرتیری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ ایسے ہی آنسو تیری آنکھوں میں تھے جب میں نے تجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں اپنے دشمنوں سے بدلہ لوں گا‘ پھراب کیوں…؟“
”نہیں پتر…! وہ آنسو بے بسی کے تھے لیکن یہ آنسو خوشی کے ہیں۔
میں خوش ہوں کہ تو اب اتنا بڑا ہوگیا ہے۔ اس وقت ماں باپ سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوجاتے ہیں‘ جب ان کے بچے یہ کہہ دیں کہ ہم ساری ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ توپریشان نہ ہومیراپتر! اورمیری فکر مت کرنا۔“ ماں نے مجھے پھر سے اپنے ساتھ لگا کر نرمی سے کہا‘ میں کچھ دیر مامتا کی چھاؤں میں رہا اور پھر الگ ہو کر باہر والے کمرے کی طرف چل دیا۔
میرے اندر بے چینی بڑھ گئی تھی۔
دوپہر ہونے کو آگئی تھی لیکن رندھاوا کا کوئی بندہ میرے پاس نہیں پہنچا تھا۔ جب بندے کی بے چینی عروج پر پہنچ جائے تو خیالات میں وسوسے بھی اُگنے لگتے ہیں۔ ایک وسوسہ یہ تھا کہ کہیں رندھاوا میرے ساتھ کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہا۔ میں نے اپنے طور پر ایک وقت متعین کیا اور گھر سے باہر نکلنے کی ٹھان لی۔ میں نے اپنا پسٹل دیکھا‘ اضافی میگزین اپنی جیب میں ڈالے اور باہر والا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا‘ ایسے میں چھاکے نے اپنی بائیک روکی اور سیدھا میری طرف بڑھا۔
مجھے تنہاپاکربولا۔
”رندھاوا ٹھیک کہتا ہے جمالے‘ بندے شاہ دین کے ڈیرے پر موجود ہیں۔“
”تجھے کیسے پتہ چلا۔“ میں نے خود پربمشکل قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
”اپنا چاچابیرو ہے نا جو شاہ دین کے ڈیرے پر خدمت گار ہے۔ اس نے ساری تفصیل بتادی ہے۔“
”وہ تیرے کیسے قابو آگیااور کیا…“
”میں نے اس کی بیٹی کی نہ صرف شادی کروائی ہے بلکہ سارا خرچہ بھی کیاتھا‘ تب سے وہ…خیر …! اس نے بتایا ہے کہ کچھ آدمی ہیں اور سارے ہی اشتہاری ہیں۔
رات کے پچھلے پہرپہنچے ہیں اور جس طرح ہم ان کے بارے میں پوچھ رہے ہیں وہ بھی تیرے بارے میں اتنے ہی متجسس ہیں۔ وہ وہیں کے خدمات گاروں سے پوچھ رہے تھے۔ وہ آج باہر نکل چکے ہیں۔ کہیں بھی ہمیں پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ “چھاکے نے پوری تفصیل بتائی تو میں نے کہا۔
”مگرہم تو انہیں ڈیرے پر پکڑنا چاہتے ہیں۔“
”میں چاچے بیرو سے کہہ آیا ہوں‘ وہ جب بھی واپس ڈیرے پر آئیں تو وہ ہمیں بتادے‘ اور ہماری خوش قسمتی یہ ہے جمالے… ان کے سوا‘ کوئی اور نہیں ہے وہاں پر…“ اس نے بتایا۔
”یہ ممکن نہیں ہے…چھاکے… ایک دم سارے وہاں سے ہٹادیئے جائیں۔ بات دماغ کو نہیں لگتی۔“ میں نے سوچتے ہوئے کہاتووہ بولا۔
”میری تو یہی اطلاع ہے‘ چاچے بیرو کے علاوہ دو خدمت گار ہیں وہاں پر… میں نے ایک بندہ بھیجا ہے‘ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے گا تو تسلی ہوجائے گی۔“
”توٹھیک ہے پھر انتظار کر…“ میں نے ایک طویل سانس لے کر کہاتو وہ میرے پاس آکربیٹھ گیا۔
ہم دونوں ہی اپنی اپنی جگہ سوچنے لگے کہ کیا کرنا ہوگا۔ میرے دماغ میں صور تحال واضح نہیں ہو رہی تھی ۔ اس لیے میں مطمئن نہیں تھا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ رندھاوے کاایک بندہ آگیا۔ وہ سادہ کپڑوں میں تھااور مجھے پہچان کربولا۔
”رندھاوا صاحب نے بھیجا ہے۔ اس وقت وہ لوگ نزدیکی قصبے میں گئے ہوئے ہیں۔ نورنگرمیں نہیں ہیں‘ واپس کب آتے ہیں اس بارے میں کچھ کہانہیں جاسکتا۔
“ یہ کہہ کر اس نے بندوں کی تعداد اور ان کے حلیے اور تھوڑی بہت معلومات دیں‘ جب وہ کہہ چکا تو آخر میں بولا۔ ‘”رندھاوا صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ زندہ یامردہ جس حالت میں بھی ہوں… تھانے میں… اطلاع ہی کردیں بس… یا پھر…میں آپ کے ساتھ…اگر آپ مجھ پر اعتماد کریں تو…؟“ یہ کہہ کر اس نے میرے چہرے کی طرف دیکھا۔
”تم جاؤ‘ باقی میں سب دیکھ لوں گا۔
“میں نے آہستگی سے کہا تووہ تھوڑی دیرمزید بیٹھ کر چلا گیا۔ اس نے جومعلومات بھی دی تھیں بالکل ٹھیک دی تھیں‘ اب رندھاوا کیاچاہتاتھا؟ واقعتا میری مدد یا پھر اپنی خفت کابدلہ‘ میں کچھ نہیں کہہ سکتاتھا۔ یہ آنے والا وقت ہی فیصلہ کرنے والا تھا۔
# # # #
جسپال اور ہرپریت دونوں ہی رات دیر تک جاگتے رہے تھے۔ وہ اپنے بارے میں بتاتی رہی کہ کالج لائف سے لے کر اب تک اس نے اپنی تنظیم کے لیے کیا کچھ کیا ہے‘ لیکن جسپال نے فقط اتنا بتایا کہ وہ مختلف شوٹنگ کلب کاممبر رہا ہے۔
مختلف ہتھیار چلانے اور تھوڑی بہت فائٹ کی تربیت لی ہے۔ وہ بہت کچھ چھپاگیاتھا۔ وہ ہرپریت کے ذہن میں کوئی ایسا تاثر نہیں بنانا چاہتاتھا جس سے وہ کسی غلط فہمی کاشکار ہوجائے اور ایسا ویسا تاثر قائم کرلے جس سے بعد میں اسے پریشانی لاحق ہوجائے۔ وہ ابھی کسی پربھی نہیں کھلنا چاہتاتھا ۔ راز وہی ہوتاہے جوخود تک محدود رہے۔ جو خود ہی ر از نہ رکھ سکا تووہ راز پرایا ہوگیا۔
اس لیے وہ دوپہر کے بعد جاکرکہیں بیدار ہوا۔ پھر وہ سکون سے تیار ہو کرنیچے ڈرائنگ روم میں آیا تو ہرپریت صوفے پر آلتی پالتی مارے اس دن کا اخبار پڑھ رہی تھی جو گُر مکھی میں تھا۔ جسپال سنگھ کو وہ زبان پڑھنی نہیں آتی تھی۔ وہ اس کے قریب بیٹھ گیا توہرپریت نے اخبار سمیٹ کر ایک طرف رکھااور اٹھنے لگی۔
”کدھرجارہی ہو؟“
”جُوتی کوناشتے کاکہہ آؤں۔
وہ کچن میں مصروف ہوگی۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے سلیپر پہنے اور اندر کی جانب بڑھ گئی جبکہ وہ سیل فون پر انوجیت کے نمبر ملانے لگا۔کچھ دیر بعد اس کی کال مل گئی۔
”کدھر ہو یار؟“
‘”میں یہاں مہتاپور میں ہوں۔ تھوڑا کام تھا یہاں۔“ انوجیت نے ایک نزدیکی جگہ کے بارے میں بتایا۔
”چلوٹھیک ہے۔“ اس نے کہااور فون بند کرنے لگاتو وہ بولا۔
”اچھا‘ تم گھر پر ہی رہنا۔ وہ ایڈووکیٹ گل آج آئیں گے‘ تب تک میں بھی آجاؤں گا۔“
”اوکے…! میں گھر پر ہی ہوں۔“ اس نے کہاتو انوجیت نے فون بند کردیا۔ تبھی فطری طور پر اس کاذہن اس بوڑھے ایڈووکیٹ کی طرف چلا گیاجو اوپر سے بہت جذباتی لگتاتھا لیکن حقیقت میں وہ بہت ٹھنڈا انسان تھا۔ ہرپریت سے باتیں کرنے کے بعد اسے لگا تھا کہ وہ تنظیم کا کوئی اہم بندہ ہی ہوسکتا ہے۔
وہ ابھی یہی سوچ رہاتھا کہ ہرپریت واپس آگئی۔صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا۔
”ناشتے سے پہلے نیوز سنوگے یابعدمیں…“
”یہ تو تم ایسے پوچھ رہی ہوجیسے تم مجھے کوئی میڈیسن دے رہی ہو۔“ جسپال نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ کھل کر ہنس دی۔ بلاشبہ اسے ہرپریت کی ہنسی جلترنگ ایسی ہی لگی تھی۔ کھنکتی ہوئی۔ کانوں میں رس گھول دینے والی ہنسی۔ پھر اخبار کااندرونی صفحہ اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔
”یہ دیکھو… اس پولیس آفیسر کے بارے میں تفتیش کے لیے خفیہ والے متحرک ہوگئے ہیں۔“
”پہلی تو یہ بات ہے مجھے یہ گُرمکھی پڑھنی نہیں آتی اور دوسری بات اس خبر سے تم لوگوں کو الرٹ ہونا چاہیے مجھے تونہیں۔“