صبح کی سحر انگیزی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ مشرق سے طلوع آفتاب کے آثار واضح ہونے کو تھے۔ جب میں اپنی بائیک نکال کر گھر سے نکلا‘ میں اپنے معمول کے مطابق ڈیرے کی طرف نکل پڑا تھا۔ میراارادہ تھا کہ میں وہیں پرجاکر سوجاؤں کیونکہ رات بھر مجھے اور چھاکے کو نیند نہیں آئی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد بہت دیر تک ہم چھت پر جاکر باتیں کرتے رہے تھے پھر میں وہیں چارپارئی گھسیٹ کر لیٹ گیا جبکہ وہ باہر والے کمرے میں جاکر سوگیاتھا۔
کچھ دیر پہلے میں نے جاکر اسے دیکھا تھا‘ وہ وہاں نہیں تھا۔ میرے چھت پر سے نیچے اترنے سے پہلے ہی وہ چلاگیاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے من میں تجسس تھا کہ جو کچھ بھی ہم نے رات کیا اس کاردعمل کیاہوا؟ سردار شاہ دین کے ڈیرے پر نہ صرف فائرنگ ہوئی تھی‘بلکہ وہاں سے بندے اغوا کرلیے گئے تھے‘ جن کی لاشیں دور ویرانے میں پائی گئی تھیں۔
(جاری ہے)
اصل سوال یہ تھا کہ کیا سردار شاہ دین انہیں کسی بھی صورت میں قبول کرتا ہے؟یاپھرانجان بن جاتا ہے؟ وہ ملک سجاد کو کیا جواب دے گا؟ ملک سجاد کا ردعمل کیا ہوگا۔
وہ انتقام لینے کے لیے مزید طاقت استعمال کرے گا یا پھر خوف زدہ ہو کر خاموش ہوجائے گا؟
پیرزادہ کے بندے مارے گئے تھے۔ اس کاردعمل کیا تھا؟ اور رندھاوا اس نے سارے کھیل کا کیا کیا تھا‘جس کی بساط میں نے بچھادی تھی۔ کیا دلبر اور ساتھی وہیں کنویں پر ہوں گے یاپھر کہیں ادھر ادھر ہوگئے ہوں گے؟ میرا دل چاہ رہاتھا کہ میں دلبر کے کنویں کی طرف سے ہو کر جاؤں مگر اس میں کافی حد تک رسک تھا۔
یامیرے معمول کے خلاف تھا‘ میں کم از کم اپنی طرف سے کوئی شک چھوڑنا نہیں چاہتاتھا۔ میں انہی سوچوں میں غلطاں گھر سے نکل کر چوک میں پہنچا تو کافی سارے لوگ جمع تھے۔ میں نے بھی ان کے قریب جاکر بائیک روک دی اور اونچی آواز میں پوچھا۔
”اوئے سب خیرتو ہے نا‘ یہ تم لوگ یہاں کیوں جمع ہو؟“
”اوئے جمالے…! تجھے نہیں پتہ۔ یہاں تو پورے علاقے میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔
“ ایک جوشیلے نوجوان نے تیزی سے کہا تو میں نے اپنے اندر کاتجسس دباتے ہوئے لاپرواہی سے پوچھا۔
”کیا زلزلہ آگیا تھا رات…؟“
”اوئے‘تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے‘ ادھر نوبندے ایک ہی رات میں قتل ہوگئے ہیں۔“ اس نے دیدے پھیلا کر یوں کہاجیسے مجھے ڈرادینے کوہو۔
”نوبندے…؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔” اتنے بندے کس نے مار دیئے…؟“
”یہ نہیں پتہ چلا۔
ان سب کی لاشیں تھانے میں ہیں۔ رات پولیس بھی ادھر پہنچ گئی تھی۔“ ایک دوسرے بندے نے مجھے معلومات دیں۔
”وہ تو ٹھیک ہے‘ پر اتنی جلدی پولیس وہاں کیسے پہنچ گئی‘ اور وہ بندے کون تھے؟“ میں نے پوچھا تو اس نے بتایا۔
”تین بندے تو پیرزادے کے تھے‘ اس کے گاؤں کی ساتھ والی بستی میراں شاہ میں رہتے تھے۔ باقی چھ کا پتہ نہیں چلا‘ وہ کوئی باہر کے تھے۔
سناہے وہ سارا دن اس علاقے میں پھرتے رہے ہیں۔“
”تھانے سے کچھ پتہ چلا؟“ میں نے پوچھا۔
”نہیں جی‘ وہاں سے کوئی آئے گا تو معلوم ہوگا۔“ اس نے جواب میں کہا تو میں نے بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
”لوبھئی… ہم تو اپنا کام کریں‘ پتہ چل ہی جائے گا۔“
میں انہیں وہیں باتیں کرتا چھوڑ کر ڈیرے کی طرف چل پڑا۔ میں جیسے ہی ڈیرے والی کچی سڑک پرمڑا مجھے ڈیرے کے باہر کھڑی شاہ زیب کی سفید کار دکھائی دی۔
ا س لمحے مجھے یقین ہوگیا کہ سردار شاہ دین کو پتہ چل گیا ہے۔ میرے لیے یہ لمحات کسی امتحان سے کم نہیں تھے۔ میں اگر یہیں سے واپس مڑتا ہوں تو جو تھوڑا بہت شک تھا‘ وہ یقین میں بدل جاتااور آگے جاتاہوں تو پتہ نہیں میرے لیے وہاں کون استقبال کرنے کے لیے کھڑا ہوگا۔ اس قدر بے یقین حالات میں شاہ زیب اکیلا نہیں ہوسکتاتھا۔ میں نے ایک طویل سانس لی اور پھر کسی بھی خطرے کی پرواہ کرتے ہوئے بائیک نہ روکی‘ بلکہ بڑھتا چلا گیا۔
یہاں تک کہ بائیک اس کار کے برابر جاروکی۔
میں ہاتھ میں دودھ کا برتن لیے گیٹ کے اندر گیا تو شاہ زیب برآمدے میں پڑی ہوئی چارپائی پر نیم دراز تھا۔ مجھے دیکھتے ہی سیدھا کھڑا ہوگیا۔ میں نے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کافی حد تک حیرت سے پوچھا۔
”شاہ زیب تم‘ اس وقت؟“
”تھانے جاناہے‘ چلوگے میرے ساتھ۔“ اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیوں نہیں‘ ضرور چلوں گا تم کوئی بندہ میرے گھر بھیج دیتے‘ میں تھوڑا تیار ہوجاتا‘ ایسی حالت میں…“ میں نے کہتے ہوئے جان بوجھ کر فقرہ ادھورہ چھوڑ دیا۔
”یہ نہیں پوچھوگے کہ کیوں جانا ہے؟“ اس نے آہستگی سے پوچھا۔
”تھانے کوئی بندہ خیریت سے نہیں جاتا‘ اور ایسے بے وقت… پھر میں راستے میں سن کرآیا ہوں کہ نوبندے قتل ہوگئے ہیں۔
“ میں نے لاپرواہی سے کہا۔
”ہاں‘ اس سلسلے میں جانا ہے‘ چلوگے۔“ اس نے پوچھا۔
”کہہ تو رہا ہوں‘ چلو۔“ میں نے جواباً تیزی سے کہا۔
”آؤ پھر میری گاڑی میں چلتے ہیں۔“ اس نے یوں کہاجیسے میرا ردعمل دیکھنا چاہ رہا ہو۔
”چل۔“ میں نے اس سے پہلے قدم بڑھا دیئے۔ گیٹ کی طرف جاتے ہوئے میں نے بھیدے کو دودھ گھر پہنچادینے کا کہااور اس سے پہلے گیٹ سے باہر تھا۔
ہم دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی کار میں بیٹھے اور پھر کچھ ہی دیر بعد ہم تھانے کی جانب چل دیئے۔
میرے ذہن میں فقط ایک ہی بات گونج رہی تھی۔ یہ ہوہی نہیں سکتا تھا کہ سردار شاہ دین کو اس کارروائی کے بارے میں مجھ پر شک نہ ہو۔ اسے پورایقین ہوگا‘ شاید وہ کسی عملی کارروائی سے پہلے اعصاب کی جنگ لڑرہاتھا۔ اپنے یقین کو پختہ کررہاتھا یاپھر مجھے کہیں لے جاکر‘ تشدد کرکے‘ یہ سب اگلوانے کے لیے لے جایاجارہاتھا۔
اب جو کچھ بھی تھا‘ میں ایک قدم بھی پیچھے ہٹنا نہیں چاہتاتھا۔ عملی طور پر میں نے سرداروں سے ٹکر لے لی تھی۔ گویا خود کو آگ میں جھونک دیاتھا۔ اب جو ہوگا‘ وہ دیکھا جائے گا۔ میں کسی بھی غیر متوقع صور تحال کے لیے خود کو تیار کرچکا تھا۔ میں اعصاب مضبوط کیے اس کے ساتھ والی پسنجر سیٹ پربیٹھا رہا۔ شاہ زیب نے کوئی بات نہیں کی۔ بلکہ انتہائی سنجیدگی سے ڈرائیونگ کرتا رہاتھا۔
جب اس نے کوئی بات نہیں کی تو مجھے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ہم گاؤں کی حدود سے باہر نکل آئے تھے اور قصبے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہی وہ راستہ تھا جہاں مجھے انتہائی درجے کا محتاط ہونا تھا ۔ کسی وقت بھی کچھ ہوسکتاتھا۔
مگر…! کچھ نہ ہوا۔ تھانے کا گیٹ آگیااور وہ اپنی کار سمیت اندر چلا گیا۔ افضل رندھاوا اپنے کمرے میں تھا۔ ہم کار سے نکل کر اس جانب بڑھ گئے۔
اس کے کمرے میں جب ہم داخل ہوئے تو ایک نگاہ ہم پر ڈال کر وہ کاغذات میں الجھ گیا۔ ہم چند لمحے کھڑے رہے تو شاہ زیب نے کہا۔
”بہت مصروف ہو رندھاوا صاحب۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ایک کرسی پربیٹھ گیااور مجھے بھی ایک کرسی پر بیٹھنے کااشارہ کیا تومیں بیٹھ گیا۔
”ہاں‘ یار بہت۔“ یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ کاغذوں میں الجھ گیا۔ پھر اُس نے سراٹھا کر میری طرف دیکھا‘ اور طنزیہ انداز میں کہا۔
”تجھے کس نے کہا ہے کہ میرے آفس میں‘ کرسی پربغیر اجازت کے بیٹھ جاؤ۔“
”یہ میرے ساتھ آیا ہے اور میں نے اسے کہا ہے۔“ شاہ زیب نے تیز انداز میں کہاتووہ بولا۔
”یہ آپ کے ساتھ نہ آیا ہوتا تو میں اسے ابھی اس کمرے سے دھکے دے کر نکال دیتا۔ اس کی اتنی حیثیت ہے کہ یہ میرے سامنے بیٹھ سکے۔“
”لیکن اتنی ہمت ہے انسپکٹر کہ میں نے تمہاری ”پھرکی“ گھمادی تھی۔
“ میں نے مسکراتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا تو شاہ زیب نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔
”او چھوڑو یار۔ میں کس مقصد کے لیے آیا ہوں اور تم لوگ کیابات لے کربیٹھ گئے ہو۔“
”آپ بولو‘ کیابات ہے؟“ رندھاوے نے غصے میں کہا تو اس نے ٹھہرے ہوئے انداز میں پوچھا۔
”لاشیں کہاں ہیں؟“
”شہر بھجوادی ہیں پوسٹ مارٹم کے لیے… ان میں سے دوکی شناخت ابھی نہیں ہوسکی۔
“ اس نے عام سے لہجے میں کہا۔ پھر چند لمحے رک کراس نے تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔ ”باقی آپ بتائیں گے‘ شناخت کرلیں گے انہیں؟“
”جب باقی شناخت کرلیے گئے ہیں تو ان دو کی شناخت کا کیا مسئلہ ہے؟“ شاہ زیب نے کہا۔
”اس لیے کہ وہ آپ کے ڈیرے پر تھے۔وہیں فائرنگ ہوئی ہے مگر لاشیں ڈیرے سے دور ویرانے میں ملی ہیں۔ ان میں سے تین بستی میراں شاہ کے تھے‘ مقامی‘ یہ سب کیا ہے سردار جی۔“ آخری لفظ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں طنز اتر آیا تھا۔ تبھی شاہ زیب نے اس سے زیادہ طنز اور غصے میں کہا۔