جسپال اپنے کمرے میں تھا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہاتھا‘ جہاں ہری بھری فصلیں دور تک پھیلی ہوئی دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ بظاہر وہ اس مناظر میں کھویا ہواتھالیکن اس کا دماغ کہیں اور تھا۔ وہ مسلسل من راج اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں سوچتا چلاجارہاتھا۔ بلاشبہ ان میں کھلبلی مچ چکی ہوگی۔ اپنے تئیں انہوں نے کوئی سراغ تو نہیں چھوڑا تھا لیکن جلد یا بدیر وہ اس تک پہنچ ضرور جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ رویندر سنگھ یااس کی اولاد کو اس کی اُوگی پنڈ میں آمد کے بارے میں پتہ نہ چلا ہو‘ یقین اس وقت ہوجاناتھا جب وہ اس تک پہنچ کراپنا آپ ظاہر کردیتے۔ جسپال یہی چاہ رہاتھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح خود اس کی جانب بڑھیں لیکن اتنی جلدی کوئی موقع ہاتھ نہیں آسکاتھا۔ اس نے اپنے طور پر تو سوچا ہواتھا کہ کیا کرنا ہے‘ اور وہ ایساہی کرتااگر یہ پولیس آفیسر والامعاملہ درمیان میں نہ آجاتا۔
(جاری ہے)
ان چند دنوں میں تو یہاں کے ماحول ہی سے مانوس نہیں ہو پایاتھا۔ اب معاملہ یہ نہیں رہاتھا کہ وہ ان کی طرف سے ”کچھ“ ہونے کاانتظار کرتا‘ بلکہ خود آگے بڑھنا تھا۔ اس نے شہد کے چھتے میں ہاتھ تو ڈال دیاتھا۔ اب سکون کی امید رکھنا بے کار تھااور ماحول سے مانوس ہونے کابہانہ فضول تھا۔ سوچ کی رُو جیسے ہی اس طرف گئی‘ اس کے من سے بڑی خوش کن سی آواز ابھری۔
”کیا واقعی تم اس ماحول سے مانوس نہیں ہوئے؟“
”یہ کیا سوال ہے؟“ اس نے سو چا۔
”یہ حقیقت ہے جسپال سنگھ جسّی جی‘ اگر مانوس نہ ہوتے تو ہرپریت کے سحر انگیز حسن سے یوں مات نہ کھاجاتے‘ وہ محض حسن کامجسمہ نہیں‘ ایک خوبصورت آفت بھی ہے‘ گزری رات تم نے ذراسی جھلک دیکھ لی تھی۔ اب کیا خیال ہے؟“
”ہاں…! وہ پرت درپرت کھلتی چلی جائے گی اور مجھے حیرا ن کردے گی۔
“
یہ سوچتے ہی وہ ان لمحات میں کھو کرلذت محسوس کرنے لگا جب جوش وغصے میں بھری ہرپریت اس کے ساتھ لگی دشمنوں سے نبرد آزما تھی۔ وہ دھیرے سے مسکرادیا۔ تبھی اسے یوں لگاجیسے ہرپریت نے اس کی گردن میں اپنی بانہیں حمائل کردی ہوں۔ جسپال نے انہیں بڑی نرمی سے تھام لیا تو اچانک اس پر عیاں ہوا کہ وہ کھلی آنکھوں سے کوئی خواب نہیں دیکھ رہا‘ بلکہ حقیقت میں وہ اس کے اس قدر قریب ہے ‘ اس کی زلفوں کا سایہ اس پر تھا اوروہ بڑی نرمی سے پوچھ رہی تھی۔
”جسّی جی…!کیا سوچ کرمسکرا رہے ہو؟“
”تمہیں سوچ کر…“ اس نے بڑے خلوص سے کہا ۔وہ اٹھلاتے ہوئے بولی۔
”میری اتنی کہاں حیثیت کہ مجھے سوچتے ہوئے تم ساری دنیا سے غافل ہوجاؤ‘ یہاں تک کہ کسی کے کمرے میں آجانے کابھی پتہ نہ چلے۔“
”سچی‘ تجھے سوچ رہاتھا‘ جس طرح تونے رات‘ اس لڑکی کو مارا‘ اورپھر…“
”بس بس…بس… میں سمجھ رہی تھی کہ تم کوئی رومانٹک خیال سوچ رہے ہو۔
“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رُکی اور پھر پوچھا۔ ”پھرکیا سوچا‘ مجھے فائٹ سکھانے کا۔“
”دیکھو…بے بے سے اجازت لے کر دے تو… تمہاری کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ گئی تو پھراُن سے مار کون کھائے گا۔“ جسپال نے مزاح میں کہا‘ تب وہ اسے دیکھتی رہی پھر اس کاہاتھ پکڑ کر بولی۔
”چلوآؤ… ابھی اجازت لے کردیتی ہوں‘ پھر اس کے بعد ہی کھانا کھائیں گیے۔
چلو‘ انوجیت بھی گھر پر ہے۔“
جسپال نے اس کی طرف دیکھ کرمسکرایااور پھراُٹھ کراس کے ساتھ چل دیا۔ وہ دونوں ماں بیٹا ڈائننگ ٹیبل پر اس کاانتظار کررہے تھے۔
”ست سری اکال بے بے جی۔“ جسپال نے کہااور میز کے قریب کرسی پر انوجیت کے ساتھ بیٹھ گیا۔
”ست سری اکال پتر! واہ گرو تم پر… کرے … چل پتر پرشادے شکھ لے…“بے بے نے ممتا بھرے لہجے میں کہااور اپنے سامنے نیپکن درست کرنے لگی۔
کھانے کے دوران جسپال نے انوجیت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یار…! تم تو اتنے بزی ہوگئے ہو‘ شکل ہی نہیں دکھاتے۔“
”معاملات ہی کچھ ایسے ہیں‘ کھانے کے بعد تفصیل سے بتاؤں گا۔“ اس نے گہرے انداز میں کہا اور خاموش ہوگیا۔ چند لمحے یونہی گزر گئے توہرپریت نے بے بے کومخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”بے بے جی‘ آپ جسّی کو اجازت دیں کہ یہ مجھے فائٹ سکھائے‘ میں نے صبح بتایا تھا نا۔
“
”تُوجان اور تیرے کام‘ اگر جسّی پتر سمجھتا ہے کہ تجھے یہ سیکھنا چاہیے تو ٹھیک ہے‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“
”ویسے بے بے جی‘ میں یہی سمجھتاتھا کہ ہرپریت کو اچھاکھانا بنانا آناچاہیے۔ گھرداری سیکھنی چاہیے لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ اپنی حفاظت کے لیے اسے یہ بھی سیکھ ہی لینا چاہیے۔“ جسپال نے کہاتو انوجیت بولا۔
”جسپال…! ابھی تمہیں آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے‘ اس طرح تم یہ جان جاؤگے کہ ہم ہی نہیں پوری سکھ قوم حالتِ جنگ میں ہے اور یہ جنگ ہم پرمسلط کردی گئی ہے۔
ہرامرت دھاری سنگھ قربان ہونے کے لیے ہے۔“
”مجھے احساس ہے انوجیت۔“ جسپال نے کہااور پھر سے کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا پھر ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کھانا ختم کیااور اٹھ کرباہر لان کی طرف چل دیئے۔ بے بے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ وہ دونوں لان میں آکر کرسیوں پربیٹھ گئے۔دھوپ تیز تھی مگر اچھی لگ رہی تھی۔
وہ چند لمحے خاموش رہے پھر انوجیت ہی نے کہا۔
”مجھے ہرپریت نے نہیں بتایا‘ لیکن تمہاری رات کی کارروائی کے بارے میں مجھے معلوم ہوگیا ہے‘ کہیں یہ سب کچھ تم نے جلدی میں تو نہیں کردیا؟“
”نہیں انوجیت۔ جلدی میں نہیں‘ ٹھیک وقت پرکیاہے۔ میں نے انہیں صرف یہ احساس دلانا ہے کہ میں یہاں پر اکیلا نہیں ہوں‘ ان پر خوف طاری کرناتھا۔
یہ اس صورت میں ہے ‘جب انہیں یقین ہوجائے کہ یہ سب میں نے کیا ہے۔“
”تمہارا نیٹ ورک ہے یہاں پر…“ اس نے پوچھا۔
”نہیں‘میرا نہیں‘ کسی اور کاہے…“ جسپال نے اختصار سے کہا۔
”پرائے بازوؤں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا‘ اپنے بازو…“ انوجیت نے کہنا چاہا تو وہ تیزی سے بولا۔
”میں جانتاہوں‘ کتے کو جب تک روٹی ڈالتے رہو‘ وہ وفادار رہتاہے اور جب روٹی نہ بھی ڈالو‘ تب بھی وہ وفادار رہتا ہے‘ یہ جانور کی خصلت ہے‘ لیکن انسان اس وقت بدتر ہوجاتا ہے جب وہ روٹی بھی کھاتا رہے اور ڈس لے… سانپ کی یہ خصلت ہے کہ وہ دودھ پلانے والے کوبھی ڈس لیتا ہے۔
یہ نیٹ ورک کوئی دھرم یا کسی مذہب کانہیں ہے‘ یہ جرائم پیشہ لوگوں کاایک سنڈیکیٹ ہے۔ عالمی سطح پر۔“
”اور تم کہیں اس کا حصہ تو نہیں ہو؟“ انوجیت نے سرسراتے ہوئے تیزی سے پوچھا۔
”حصہ تو نہیں لیکن اس کے بہت قریب ہوں۔ میری وجہ سے انہوں نے بہت فائدہ حاصل کیا ہے۔بظاہر ان کی پہلی ترجیح دولت ہے‘ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ صرف دولت ہی کے لیے ایسا سب کچھ کررہے ہیں۔ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں جنہیں میں بھی اب تک نہیں سمجھ پایا ہوں۔“
”منشیات…“وہ دھیرے سے بولا۔