Episode 40 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 40 - قلندر ذات - امجد جاوید

”یعنی گوشت پوست کے انسان…جو منافق ہیں‘ کیا انہیں کسی شے کا خوف نہیں ہے‘ سکھ دھرم کے لوگ انہیں اتنا بھی خوف نہیں دے سکتے…کہ یادگار کے معاملے میں اپنی دشمنی سے باز آجائیں … ایک شخص سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والا تھا‘ جس نے اندراحکومت کی نیندیں اڑادی تھیں۔ آج اس جیسا ایک بھی بندہ ہوتا تو یادگار کب کی بن چکی ہوتی۔ اب سنو‘ میں کیا سوچتاہوں۔

”کہو…“ وہ بولا۔
”یادگار کے لیے میں کسی ایک بھی سکھ کا قتل نہیں چاہتا۔ مطلب‘ اس کے لیے کوئی تحریک چلے اور سامنے سے گولیاں کھالی جائیں… یہ بے وقوفی ہے… بلکہ خود کو ایسابنالیاجائے کہ وہ خوف زدہ ہو کرخود کہیں ہم اس راہ میں مزاحمت نہیں کریں گے‘ جو سکھ قوم چاہے وہی ہوگا۔“ جسپال نے کہاتو انوجیت نے پوچھا۔

(جاری ہے)

”یہ کیسے ممکن ہے؟“
‘”دومحاذوں پر لڑنا ہوگا۔
سکھ اتحاس (تاریخ) کے لیے نئی نسل کوبتانا ہوگا‘اپنی خامیوں کو دور کرکے طاقت ورقوم بننا ہوگا۔ خصوصاً پنجاب کے سکھو ں کو بہت مضبوط ہونا ہوگا۔ دنیا بھر کے سکھ ان کے لیے جان اور مال قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔“ جسپال سنگھ نے جوش بھرے لہجے میں کہا تو انوجیت کافی دیر تک خاموش رہا‘ پھربولا۔
”میں سمجھ گیا ہوں کہ تم کیاکہنا چاہتے ہو‘ تم جو چاہو سو کرو‘ میں بہرحال تمہارے لیے ہر طرح سے حاضر ہوں۔
“ 
”اچھا‘ چھوڑو ان باتوں کو…میں نے تم سے کہا تھا کہ وہ حویلی کے لیے…“
”ہاں…! وہ میں نے ایک ٹھیکیدار سے بات کی تھی۔ وہ آج کل میں آجائے گا۔“ انوجیت نے کہا۔
”وہ آنہیں جائے گا‘ اسے ابھی بلاؤ‘ بلکہ اسے کہو کہ چند مزدور وہاں بھیجے‘ میں آج ہی اس کاکام شروع کراؤں گا۔ اس کابھی ایک مقصد ہے… فوراً فون کرو۔“
”میں ابھی کرتاہوں…“ انوجیت نے کہا اور اپنے سیل فون سے رابطہ کرنے لگا۔
تقریباً دو گھنٹے بعد جسپال سنگھ ‘ انوجیت سنگھ اور ہرپریت کو راپنی جیپ میں گھر سے نکلے۔ ان کا رخ اوگی پنڈ کی طرف تھا۔ ٹھیکیدار سے بات ہوگئی تھی اور مزدور اس حویلی کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ انوجیت ڈرائیونگ کررہاتھااور وہ تینوں خاموش تھے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ سڑک پر تھے اور پھر وہ تیزی سے چلتے ہوئے گاؤں میں داخل ہوگئے۔ جسپال دوسری بار اس گاؤں میں آیا تھا۔
پہلی بار اس کے جذبات میں غصہ‘ بے بسی اور مات ہوجانے کااحساس تھا‘ اب ویسا نہیں تھا‘بلکہ اس میں ہیجان‘ انتقام اور بھڑجانے کاحوصلہ موجود تھا۔ شاید اسی سے ان میں کوئی بات نہیں ہو رہی تھی‘ سبھی اپنی اپنی جگہ سوچ رہے تھے۔ یہاں تک کہ گاڑی ان کی حویلی کے سامنے جارکی۔ سامنے ہی کچھ مزدور کھڑے تھے او ران کے ساتھ ایک خوش پوش نوجوان سنگھ کھڑا تھا۔
اس کی طرف اشارہ کرکے انوجیت نے بتادیا کہ یہی ٹھیکیدار ہے۔ وہ گاڑی سے اتر کر ان کی قریب گئے ‘ ملنے ملانے کے بعد جسپال نے کہا۔
”ٹھیکیدار جی…آپ نے کام دیکھ لیا؟“
”جی‘ دیکھ لیا۔“ اس نے آہستگی سے جواب دیا۔
”کتنے دنوں میں ہوگایہ کام؟“ اس نے پوچھا۔
”یہی کوئی ایک ہفتہ لگ جائے گا…“ اس نے انداز ہ لگاتے ہوئے کہا۔
”رقم کی پرواہ نہیں کرنی۔ سب کچھ آپ نے کرنا ہے۔ بس نیم کے درخت کا خیال رکھنا ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے بڑے نوٹوں کی دوگڈیاں جیب سے نکالیں اور اس کی طرف بڑھادیں۔“ یہ رکھیں‘ مزید کی ضرورت ہوگی تو مل جائیں گے۔“
”ٹھیک ہے جی‘ میں ابھی سے کام شروع کروا دیتاہوں۔“ ٹھیکیدار نے کہا تو جسپال نے ایک نگاہ حویلی پر ڈالی‘ جس کی خستہ حالت نے اس کے اندر بھڑکتی ہوئی آگ کومزید ہوادے دی۔
اسے خود پر قابو پانے میں چندمنٹ لگے۔اس دوران انوجیت نے ٹھیکیدار سے کہا۔
”تمہیں جو بات پوچھنی ہو‘ یا کچھ کہنا ہو‘ مجھ سے رابطہ رکھنا۔“
”جی ٹھیک ہے۔“ اس نے جواب دیا۔ تووہ تینوں اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے واپس پلٹے تبھی ان کے قریب ایک کار آن رُکی۔ جس کے رُکتے ہی پسنجر سیٹ سے ایک لمبا تڑنگا جوان برآمد ہوا۔ اس نے شلوار قمیص کے ساتھ ویسٹ کوٹ پہنی ہوئی تھی۔
سرپر گہرے نیلے رنگ کی پکڑی‘ سیاہ داڑھی مونچھیں اور پاؤں میں سیاہ رنگ کا جوتا پہنا ہواتھا۔ اس دوران پچھلی نشستوں سے تین باڈی گارڈ اسلحہ لیے برآمد ہوئے۔
”بلجیت سنگھ‘ رویندر سنگھ کابیٹا‘ جو ادھر کا سرپنچ ہے۔“ انوجیت نے آہستگی سے جسپال کوبتایا تو اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ پھیل گئی۔ تبھی وہ ان کی طرف دیکھتا ہوا قریب آگیا اوران کے پاس آکر طنزیہ اور حقارت بھرے لہجے میں بولا۔
”میرے بارے میں انوجیت نے تمہیں بتاہی دیا ہوگا‘ نہیں معلوم تو پور اتعارف کراؤں…“
”تم سے تعارف ہی کے لیے نہیں‘ پوری جان پہچان ہی کے لیے تو ادھر اُوگی میں آیا ہوں۔ اچھا ہے تو خود ہی چل کر میرے پاس آگیا۔ ورنہ میں نے تو تجھے ملناہی تھا۔“ جسپال نے غراتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔ اس دوران گاؤں کے لوگ بھی ان کے اردگرداکھٹا ہونا شروع ہوگئے تھے۔
”اش کے بھئی اش کے… بڑے عرصے بعد کوئی میرے سامنے بولا ہے۔ خیر دیکھ لیتے ہیں‘ جتنا بولتے ہو‘ اتنا برداشت بھی کرلیتے ہو۔“ اس کالہجہ ہنوز حقارت آمیز تھا توجسپال نے کہا۔
”یہ تو وقت بتائے گا نابلجیت ‘ کون کیا ہے؟“
”وقت ہم نے کہیں سے لینے جاناہے۔ ابھی دیکھ لیتے ہیں۔“ اس نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا۔
”مرد ہو تو اپنی زبان پرقائم رہنا۔
بھاگنا نہیں‘ آؤ‘ ابھی ہاتھ میں ہاتھ ڈال لیتے ہیں۔“ جسپال نے اپنا ہاتھ کھول کر اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
”مجھ تک پہنچنے کے لیے تمہیں کئی ہاتھوں سے لڑناہوگا۔جبکہ …“
”اوئے میں تمہاری بات کررہاہوں ‘بلجیت … پرائے بازوؤں پر تو ہیجڑا بھی بات کرلیتا ہے۔“ جسپال نے طنزیہ انداز میں کہا تو بلجیت کے چہرے پر کئی بل آگئے۔ بلاشبہ وہ سمجھ چکاتھا کہ جسپال اسے کس راہ پر لارہا ہے۔
اس لیے بات بدلتے ہوئے بولا۔
”وقت آنے پر تیرے ساتھ پنجہ بھی لڑالوں گا‘ فی الحال تو میں سرپنچ کی حیثیت سے آیا ہوں‘ تجھے کس نے اجازت دی ہے کہ اس حویلی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرسکے۔“
”یہ حویلی میرے پرکھوں کی ہے‘ جویہاں کے بے غیرت بزدلوں کے دھوکے کاشکار ہوگئے تھے۔ دل تو کرتا ہے کہ ان بے غیرتوں کوختم کرنے کے بعدہی اسے ٹھیک کراؤں‘ مگر میں بتانا چاہتاہوں کہ میں اس حویلی کاوارث یہاں آگیاہوں۔
اب جس میں ہمت ہے تووہ مجھے روک لے…“
”میں روکنے آگیاہوں تمہیں… تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ تم اس حویلی کے وارث ہو‘ اب اگر ہمت ہے تو بات کرو…“ بلجیت نے انتہائی غصے میں کہا۔کیونکہ جسپال نے اس کے سامنے ہی اس کے بڑوں کو گالی دے دی تھی۔
”بولو…! کیا کروں‘ جس سے تمہیں یہ پتہ چل جائے کہ میں تمہاری بات نہیں مانتا۔“ اس نے بلجیت کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”پورا گاؤں گواہ ہے کہ تم نے میری بات نہیں مانی‘ تم اس حویلی کے اندر داخل ہو کردکھادو۔‘ اس کی چہرے پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔
”لوپھر‘ میں جارہاہوں… اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے روک لو…“ جسپال نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی جیکٹ میں ڈالے اور حویلی کے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ اسی لمحے بلجیت کے باڈی گارڈوں نے اپنی گنیں سیدھی کیں اور اس پرتان لیں۔
وہاں پر کھڑے ہرشخص نے اپنی سانسیں روک لیں۔ وہ جسپال کوحویلی کے ٹوٹے ہوئے پھاٹک کی جانب بڑھتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ تبھی ہرپریت تیزی سے اپنی جیپ کی جانب بڑھی اور ڈیش بورڈ سے اپنا پسٹل نکال کر وہیں بیٹھ گئی۔ انوجیت اس سارے منظر کوسمجھنے کی کوشش کررہاتھا۔ تبھی جسپال حویلی کے پھاٹک کے اندر پہنچ گیا پھر وہیں کھڑے ہو کر اس نے بلجیت کو پکارا۔
”اوئے بلجیت…! میں اپنی حویلی کے دروازے پر کھڑا ہوں‘ اس حویلی کے دروازے پر جسے بے غیرتوں نے آگ لگائی تھی اور میرے بڑوں کوزندہ جلایا تھا۔ میں یہاں کھڑے ہو کر عہد کرتا ہوں کہ میں نے بھی ان بے غیرتوں کوزندہ جلانا ہے۔اب اگر تم میں ہمت ہے تو روک لو۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی دونوں جیبوں سے دو پسٹل نکال لیے۔ صور تحال انتہائی خطرناک ہوگئی تھی۔
شاید بلجیت کو اس کی طرف سے اس قدر مزاحمت کی امید نہیں تھی‘ یا پھر کوئی اور بات تھی‘ وہ تذبذب میں کھڑا اس کی طرف دیکھتا چلاجارہاتھا کہ انوجیت آگے بڑھااور بولا۔
”بلجیت…! اگرتم چاہتے ہو کہ یہاں کوئی خون نہ ہو‘ تو ابھی پلٹ جاؤ۔ ورنہ کوئی نہیں جانتا‘ کس کی لاش یہاں گرجائے۔“
”میں ایک ایک کو دیکھ لوں گا۔“ بلجیت نے کہا اور اپنے لوگوں کواشارہ کرکے واپس گاڑی میں جابیٹھا۔
وہ مصلحت سے کام لے کر اس ٹکراؤ سے بچ جاناچاہتاتھا۔ اسے جسپال کے اندر کی شدت کااندازہ ہوگیاتھا۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک مرجاتاتو کسی کوکوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ مصیبت تو اسے ہی ہوناتھی‘ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے… ایسے ہی موقع کے لیے ‘ اس نے خود پر قابو پایا اوروہاں سے چلا گیا۔ آخر وہ گاؤں کا سرپنچ تھا۔ اتنی تو عقل تھی اس میں۔
اس نے جسپال کے اندر بھڑکنے والی آگ کی تپش کااندازہ کرلیاتھا۔ وہ چلاگیا۔ تو جسپال نے ایک طویل سانس لی پھر ٹھیکیدار کے قریب آکر بولا۔
”تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں‘ میں صبح سے لے کرشام تک یہیں بیٹھا کروگا‘ تم اپنا کام شروع کرو۔ میں دیکھتاہوں کون روکتا ہے۔“
تبھی ٹھیکیدار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اوبھاء جی‘ آپ فکر نہ کرو‘ اب ہفتے میں نہیں ‘صرف تین دن میں کام ختم ہوگا۔
”اور تم یقین رکھنا‘ تجھے روکنے کوئی نہیں آئے گا، تم آرام سے کام کرو ،تین کے چھ دن لگاؤ۔“جسپال نے مسکراتے ہوئے کہااور پھر کوئی بات کیے بغیر جیپ کی طرف بڑھا۔ انوجیت ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھا توجیپ چل دی۔ جسپال تیزی سے اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچ رہاتھا۔
                                 # # # #

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط