میں اور چھاکابائیک بھگائے نورنگر کی طرف جارہے تھے۔ چھاکا میرے پیچھے اس لیے نہیں آیا تھا کہ اسے یہ معلوم ہوگیاتھا کہ میں شاہ زیب کے ساتھ گیاہوں اورمجھے خطرہ ہے‘بلکہ دلبر کے کنویں پر سردار شاہ دین کے لوگوں نے پوچھ تاچھ کی تھی۔ وہ کتوں کی طرح ہر اس بندے کوشک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے‘ جس کا کسی نہ کسی حوالے سے کوئی تعلق میرے ساتھ بنتاتھا۔
یہ میرے لیے حیرت انگیز بات نہیں تھی۔ یہ تو اب کوئی راز نہیں رہاتھا کہ ملک سجاد کے بھیجے ہوئے لوگ مجھے ہی قتل کرنے آئے تھے اور ان کے بارے میں سردار شاہ دین کی اجازت اور مرضی شامل تھی جووہ اس کے ڈیرے پر آکر ٹھہرے تھے۔ اب ان کاقتل نہ صرف سردار شاہ دین کے لیے چیلنج تھا بلکہ اس کے علاقے پر حاکمیت پہ سوال اٹھ گیاتھا۔ اپنے علاقے میں دشمنی کچھ الگ تاثر رکھتی ہے‘ لیکن یہ انتہائی بری بات تھی کہ اپنے ہی علاقے کے بندے کومارنے کے لیے کوئی دوسرا یہاں کے کسی بڑے سے تعاون لے‘ملک سجاد نے تو بڑے مان اور کروفر سے اپنے بندوں کوبھیجا ہوگا کہ وہ مجھے قتل کرکے چپ چاپ واپس لوٹ جائیں گے۔
(جاری ہے)
لیکن اب صورت حال یہ بن گئی تھی کہ اگر وہ سردار شاہ دین اس بات کومانتا ہے کہ وہ ملک سجاد کے بندے تھے تو پورے علاقے میں نہ صرف اس کاتاثر خراب ہوتا بلکہ نفرت بھی پھیل جاتی ‘ورنہ پیرزادے کے بندے مرجانے کی وجہ سے پیرزادے کے ساتھ شاہ دین کو دشمنی کرنا پڑتی۔
رندھاوا اگر مجھے بروقت اطلاع نہ دیتا تو شاید میں ان کے دھوکے میں آجاتا۔
اب میرے ذہن میں فقط ایک ہی سوال تھا کہ رندھاوے کا اس میں کیا فائدہ ہے ؟ یہ تو وقت آنے پر ہی مجھے معلوم ہوسکتاتھا‘فی الحال مجھے گاؤں پہنچ کر اپنے بندوں کاتحفظ کرنا تھا۔ خصوصاً دلبر کے لوگوں کا… ان میں‘ اگر کوئی پھٹ گیا تو پیرزادے کی دشمنی مول لینی پڑجائے گی۔ مجھے گاؤں میں داخل ہونے کے لیے شاہ دین کی حویلی کے سامنے سے ہوکرجانا تھا۔
اگرچہ وہ سڑک سے ذرا ہٹ کر تھی لیکن اس کے بندے وہیں سڑک پر بھی موجود ہوتے تھے۔ میں کسی بھی متوقع صورت حال کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ مگرحویلی اور اس کے اردگرد کہیں بھی کوئی ہلچل نہیں تھی۔ میں اور چھاکا گاؤں میں داخل ہوگئے اور چوک میں اچھو کریانے والے کی دکان پر جاٹھہرے‘ چوک میں برگد کے درخت تلے گاؤں کے بہت سارے لوگ جمع تھے۔ عموماً وہاں لوگ جمع رہتے تھے‘ لیکن اس دن کچھ زیادہ تعداد تھی۔
بلاشبہ وہاں پر علاقے میں ہونے والے واقعات پر تبصرہ آرائی ہو رہی تھی۔ میرے رکتے ہی لوگوں نے میری طرف دیکھااور آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ میں نے جاتے ہی اچھو سے کہا۔
”فون ملاؤ…وہی جو تونے مجھے دیاتھا۔“
”ابھی ملاتا ہوں…“ اس نے کہا‘ پھر دکان میں کھڑے گاہکوں کو تیزی سے نمٹانے لگا۔ چند منٹوں بعد اس نے وہ نمبر ملا کرمجھے دیا۔
چندگھنٹیاں جانے کے بعد فون ریسیوکرلیا گیا ‘تو میں نے اس کی ہیلو کے جواب میں کہا۔
”ملک سجاد ہی بات کررہے ہو نا‘ یااپنا فون کسی اور کو دے دیا ہے؟“
”بکواس کرو… کون ہو تم؟“
”وہی‘ جس کومارنے کے لیے تم نے اپنے بندے بھیجے تھے۔“
”اوہ…تم…جمال…“ اس نے غراتے ہوئے کہا تو میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میں تو تیرے انتظار میں تھا‘ تونے خود آنے کی دھمکی دی تھی۔
اب ہیجڑوں کی طرح بندے بھیج دیئے۔“
”لگتا ہے تومیرے ہی ہاتھوں سے بوٹی بوٹی ہوگا۔“ اس نے بھنا کر جواب دیا۔
”تو آؤنا‘ کس نے روکا ہے ورنہ مجھے بتاؤ‘ میں آجاتاہوں‘ مرد کی زبان ہوتی ہے‘ ہیجڑے اپنی بات سے پھرتے ہیں۔“
”لے پھر انتظار کر‘ میں آرہاہوں۔ شام سے پہلے میں تم تک پہنچ جاؤں گا۔“
”نہ آئے تو…اپنا پتہ بتاؤ…“ میں نے طنزیہ انداز میں پوچھا تووہ گالیاں بکنے لگا۔
اس کے ساتھ ہی اس نے فون بند کردیا۔ میرا کام ہوگیاتھا۔ میں نے ریسیور رکھااور پیدل ہی چند قدم کے فاصلے پر برگد کے درخت تلے موجود لوگوں کے درمیان ایک چارپائی پر آبیٹھا تو ایک بزرگ سے بندے نے کہا۔
”اُوہ پُتر…! نوقتل ہوگئے علاقے میں… کچھ پتہ چلا کیاہوا ہے‘ کس وجہ سے ہوئے…“
”چاچا…! تو اچھی طرح جانتا ہے کہ لڑائی ان بڑے لوگوں کی ہوتی ہے اورمرتے ہیں غریب غربا‘ ان کے گیٹ پر ہی غریب بندوقیں لے کر ان کی حفاظت کرتے ہیں۔
خود اپنے ہاتھوں سے اپنے نوجوانوں کو ان کی خدمت کرنے کے لیے بھیجتے ہو اور پھر پوچھتے ہو یہ قتل کیوں ہوئے۔“ میں نے غصے میں کہا تووہ سرہلاتے ہوئے بولا۔
”تیراکیامطلب ہے‘ یہ سرداروں اورپیزادوں کی آپسی لڑائی میں مارے گئے؟“’
”ممکن ہے‘ میلے پر کیا ہواتھا‘ نورنگر کے لوگوں نے پیزادوں کے بندے زخمی نہیں کئے تھے جواب تک ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔
کیا پیرزادوں نے چوڑیاں پہنی ہوئی ہیں۔ پر دُکھ اس بات کا ہے‘ جو بھی مرے ہیں غریب ہی مرے ہیں۔“
”مجھے نہیں لگتا جمالے کہ یہ پیرزادوں کی لڑائی ہے‘ چھ بندے باہر کے ہیں‘ اپنے علاقے کے نہیں۔‘ ‘ اُس نے شک بھرے انداز میں کہا۔
”اب یہ تو سردار ہی جانتا ہے ناکہ وہ بندے کہاں سے لایا تھا اور کیوں؟یہ سوال اس سے پوچھنا چاہیے؟“ میں نے کہا تووہ قدرے تذبذب سے بولا۔
”یہاں سب لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ چھ بندے کل مختلف جگہوں پر تیرا پوچھ رہے تھے۔ لگتا ہے انہیں تیرے ساتھ کوئی دشمنی تھی۔“
”اگر ایسا ہے تو پھر ان چھ لوگوں کا سردار کے ڈیرے پر کیا کام؟ اس کامطلب تو یہ ہوانا کہ سردار مجھے قتل کروانا چاہتا تھا۔ چاچا…! یہ بھی چال ہے ان سرداروں کی…میری دشمنی ان بندوں کوبتا کر خود پیرزادوں کے سامنے سچا ہوجائے۔
میں تو کہتا ہوں گاؤں کے بڑوں کو اکٹھا کریں اور چلیں سردار کے پاس اور جاکر پوچھیں…“ میں نے وہ بات کہہ دی جس کے لیے میں ان کے پاس آیا تھا۔
”بات تو تیری ٹھیک ہے۔“چاچے نے سرہلا کر کہا تو دوسرے لوگ بھی اس کے ہمنوا ہوگئے۔ تبھی ان میں سے ایک نوجوان نے کہا۔
”اب اگر… یہ رِیت پڑگئی کہ باہر سے بندے منگوا کر یہاں کے بندوں کوماراجائے‘ تب دونوں طرف سے بندے تو ہمارے ہی علاقے کے مریں گے‘ ہوسکتا ہے کل ہماری باری ہو۔
کیا ان بڑوں کی لڑائی میں ہم ہی غریبوں کومرنا ہے؟“
”اب یہ سوچنا تو آپ سب کو ہے‘ ہمیں سوچنا ہے‘ رات بستی میراں شاہ کے تین بندے مرے‘ کل نورنگر کے مرجائیں گے ہم غریبوں کے گھر ہی کیوں اجڑیں‘ وہ لوگ خود کیوں نہ اس آگ میں جلیں‘ جنہوں نے یہ آگ لگائی ہے۔“ میں نے سب کی طرف دیکھ کر کہا۔
”اب دیکھو…! کتنی بڑی کمینگی ہے کہ ان مرنے والے لوگوں کے بارے ہم اپنے ہی گاؤں کے لوگوں سے پوچھ تاچھ کررہے ہیں‘ انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔
پیرزادوں سے کیوں نہیں پوچھتے۔“ ایک جوشیلے نوجوان نے غصے میں کہا تو میں نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
”دیکھیں جی‘ مرنا تو ہے ایک دن‘ مگریوں بے مقصدمرنا‘ کم از کم مجھے گوارا نہیں۔ دیکھنا‘ میں یہ سوال سردار شاہ دین سے کروں گا‘ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے گا‘ بلکہ میری موت چاہے گا‘آج میں مروں گا‘ کل تم اور تمہارے بچے ماریں گے یہ لوگ… فیصلہ اب آپ لوگوں کوکرنا ہے۔
“ میں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا اور پلٹ کر بائیک کی طرف بڑھا‘ میں نے ادھرادھر دیکھا‘ وہاں چھاکا نہیں تھا تبھی اچھوکریانے والے نے کہا۔
”چھاکا کہہ گیا ہے کہ وہ گھر سے ہو کر تمہاری طرف آتا ہے۔“
مجھے اس کا یوں اچانک غائب ہوجانا کچھ عجیب سا لگا۔ اس لیے اضطراری طور پر میں اپنے گھر کی جانب بڑھا۔ گلی صاف تھی۔ میں نے کھلے ہوئے گیٹ کو دھکیلا اور بائیک سمیت اندر چلاگیا۔
تبھی مجھے باہر والے کمرے میں چھاکا کھڑا دکھائی دیا۔ وہ میری جانب ہی دیکھ رہا تھا۔میں جلدی سے اس طرف بڑھ گیا۔ اندر وہی کل والا بندہ بیٹھا ہواتھا جو رندھاوے کی طرف سے مجھے ملنے آیا تھا۔ میں ہاتھ ملا کر اس کے پاس بیٹھ گیا تووہ بولا۔
”اوپر سے سختی کے ساتھ ہدایت آگئی ہے کہ ان نوبندوں کے قاتلوں کو فوراً پکڑا جائے۔“
”رندھاوے نے کیا رپورٹ دی ہے اپنے افسروں کو؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”انہوں نے تو یہی رپورٹ دی ہے کہ یہ سرداروں اور پیرزادوں کی آپس کی دشمنی کانتیجہ ہے۔دونوں طرف سے رندھاوا صاحب پر کوئی دباؤ نہیں‘وہ جو دباؤ بھی ڈالواسکتے ہیں اوپر ہی سے ڈال رہے ہیں۔کیونکہ ان اشتہاریوں کے سرپر قیمت تھی۔ جس کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے۔رندھاوا صاحب کی کوشش یہی ہے کہ اسے پولیس مقابلہ دکھایاجائے۔ پیرزادے اس پرراضی نہیں ہو رہے ہیں۔
“ اس بندے نے سمجھایا۔
”ایسے تو سردار بھی نہیں مانیں گے۔ ان کے ڈیرے پر فائرنگ ہوئی۔ ان کانام بھی آئے گا؟“ میں نے کہا۔
”اسی وجہ سے وہ کسی تیسرے گروپ پر یہ سب کچھ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب دیکھیں کیا بنتا ہے۔“ اس نے کہا اور چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا۔ ”رندھاوا صاحب نے کہا ہے ‘ملک سجاد کو آپ فون کرکے دھمکی دیں۔ اسے کسی طرح یہاں لانے پر اکسائیں اور کبھی اس کے علاقے میں جانے کی غلطی نہ کریں۔ وہ آگیاتو معاملے کی نوعیت بدل جائے گی‘ کیونکہ ہمارے ڈی ایس پی صاحب کی ان سے پرانی دشمنی ہے۔“