”مطلب تم لوگ اسے ٹریپ میں لارہے ہو۔“ میں نے سنجیدگی سے پوچھا تو وہ کاندھے اچکا کر بولا۔
”ایسے ہی ہوگا‘ آپ کے لیے ایک اور پیغام یہ ہے کہ آج رات آپ لوگوں کے درمیان رہیں۔ کچھ بھی کریں لیکن گاؤں میں لوگوں کے درمیان رہیں۔“
”کیوں؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ میں نہیں جانتا۔“ اس نے بے بسی سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اگرمیں ملک سجاد کو فون کردیتاہوں‘ اسے یہاں آنے پراکساتا ہوں تو پھر اگر وہ آگیا تو مجھے ہی اس کا سامنا کرنے پڑے گا۔
وہ اکیلا تو آنے سے رہا اور…“
”وہ جس وقت وہاں سے چلا‘ اس وقت یہاں آپ کے پاس اطلاع پہنچ جائے گی۔ ہم کوئی غافل تونہیں بیٹھے۔“ اس نے تیزی سے جواب دیا پھر اٹھتے ہوئے بولا۔”میں اب چلتا ہوں‘ آپ محتاط رہیں۔
(جاری ہے)
“
”ٹھیک ہے۔“ میں نے اس سے ہاتھ ملایا تو وہ چھاکے کے ساتھ باہر نکل گیا۔
گھر کے اندر اماں میرے انتظار میں تھی۔ زندگی میں پہلی بارانہوں نے مجھے ایسی نگاہوں سے دیکھا کہ میں دہل کررہ گیا۔
میں نے آگے بڑھ کراماں کواپنی بانہوں میں لے لیااور پیار سے پوچھا۔
”اماں…! کیا بات ہے ‘ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟“
”اتنی آگ ہے تیرے اندر…اتنی نفرت… اتناغصہ… نوبندے… ایک ہی رات میں … “ انہوں نے یوں اٹک اٹک کر کہا جیسے یہ سب کچھ کہتے ہوئے انہیں بہت دکھ ہو رہا ہو۔ تب میں نے کہا۔
”ہاں ماں… بچپن سے اس آگ میں جل رہا ہوں… اتنی دیر سے بھڑکتی ہوئی آگ… اپنا کچھ تو اثر رکھتی ہے۔
“
”میں کیسی ماں ہوں پتر…! جس نے خود تجھے اس آگ میں دھکیل دیا۔ماں تو اپنے بیٹے کوبڑا آدمی بنانے کے نہ صرف خواب دیکھتی ہیں بلکہ پوری جان لگادیتی ہیں…اب تو جس راہ پر چل پڑا ہے‘ پتہ نہیں کب تیرا ساتھ…“ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھراگئی۔
”توفکر مت کرماں… میں ایسے نہیں مرنے والا‘ مروں گا تو اپنے دشمنوں کو برباد کرکے ہی مروں گا… تو بس میرے لیے دعا کرتی رہا کر…“ میں نے اماں کو دلاسادیتے ہوئے کہا تو انہوں نے میرے چہرے کوغور سے دیکھا‘ پھر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
”بیٹا… تیرے لیے ہی تو دعا کرتی ہوں‘ شاید اسی لیے زندہ ہوں… چل تو بیٹھ میں تیرے لیے کھانا لاتی ہوں۔“
”ہاں… یہ ٹھیک ہے۔صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا۔“ میں نے کہااور اماں سے الگ ہو کرمنہ ہاتھ دھونے لگا۔
اس وقت دوپہر ڈھل رہی تھی۔ جب میں بائیک لے کر دلبر کے کنویں کی طرف چل دیا۔ چھاکا واپس نہیں لوٹا تھا۔ میں اس کے گھر بھی گیا لیکن وہ صبح سے ہی واپس نہیں پلٹاتھا۔
میں اس وقت دلبر کے کنویں پر جارہاتھا‘ میں گاؤں سے نکل کر کنویں کے راستے پر تھا کہ سامنے سے دور ایک جیپ کنویں کی طرف بڑھتی ہوئی دکھائی دی۔ ایک دم سے مجھے یوں لگا کہ اس میں بیٹھے لوگوں کے ارادے ٹھیک نہیں ہے۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ تجھے کیسے خبر ہوگئی۔ پھر خود پر ہنس دیا کہ رات بھر سے یہی سوچتا چلا آرہا ہوں اور ایسے ہی خطرناک حالات سے گزرتارہاہوں۔
ایسے میں خیالات بھی شک آلود ہوگئے ہیں۔یہ فطری سی بات ہے کہ جب انسان مخدوش حالات میں سے گزرتا ہے یااسے کہیں تھوڑا بہت بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے تووہ بے حد چوکنا ہوجاتا ہے۔ بقا کی جنگ میں تو بلی بھی انسان کے گلے پڑجاتی ہے۔ جس بندے کا کوئی دشمن نہ ہو‘ وہ ایسے تجربات سے نہیں گزرسکتا‘ لیکن جب دشمنی ہو‘خطرہ محسوس ہوتا ہو‘ یا منافقوں کو ان کے بلوں سے نکالنا ہوتو پھرفطرت ایسی ایسی صلاحیتوں سے نوازتی ہے کہ بندہ خود حیران رہ جاتاہے۔
یہیں سے منفی اور مثبت سوچ دومختلف راہوں پر لے جاتی ہے ۔ وہ منافق جو پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے‘ وہ کبھی اچھا نہیں سوچ سکتا اور جو اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے اور مثبت سوچ رکھتا ہے ‘فطرت بھی اس کا ساتھ دیتی ہے کہ عمل اس کی سوچ کااظہار ہوتا ہے۔ میں انہی خیالات میں کھویا ہوا‘ بائیک لیے جارہاتھا‘ میرے اردگرد کھیت تھے اور ہری بھری فصلیں‘ گندم کی بالیاں ابھی آرہی تھیں۔
میں انہی رنگوں میں الجھا آگے بڑھتا چلاجارہاتھا کہ اچانک میری نگاہ کنویں پرپڑی۔ وہ جیپ وہیں کھڑی تھی۔ مجھے لگا کہ میرے دماغ نے خطرے کا الارم یونہی نہیں بجایا۔ کچھ ہے‘ میں نے بائیک وہیں روکی اور فصلوں کی آڑ لیتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا‘ کنواں نسبتاً اونچی جگہ پرتھا۔
میرے درمیان صرف ایک کھیت کا فاصلہ تھا ‘ آگے کچے کمرے اور پھر وہ لوگ تھے‘ دلبر اور اس کے ساتھ چارپائیوں پربیٹھے ہوئے تھے اور چار بندے ان پر اسلحہ تانے کھڑے تھے۔
میں نے غور سے دیکھا‘ دلبر کے پاس ہی چھاکابیٹھا ہواتھا۔صورتحال بہت عجیب سی ہو رہی تھی۔ میں نے اگرچہ اپنا پسٹل نکال لیاتھا‘ لیکن ان پر فائرنہیں کرسکتاتھا۔ میں نے چند لمحے مزید وہیں رکے رہنے کا فیصلہ کیا۔ میں یہ دیکھنا چاہتاتھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ ان کی پشت میری طرف تھی۔ میں اس انتظار میں تھا کہ کسی ایک کاچہرہ تومیری طرف ہوتاکہ مجھے معلوم ہوجائے وہ کون ہیں؟ میں اگر ایک پربھی فائر کرتا تو سامنے بیٹھے ہوئے لوگ باقی تینوں کانشانہ ضرور بن جائے۔
میرے لیے لمحہ لمحہ قیمتی تھا۔ میں اچانک سامنے بھی نہیں آنا چاہتاتھا کہ کوئی گھبرا کر فائر ہی نہ جھونک دے۔ تبھی حملہ آوروں میں سے ایک نے کہا۔
”دلبر بتادے‘ بتادے دلبر! ہمارے تینوں بندے وہاں تک کیسے پہنچے۔ ان کی دشمنی صرف تیرے ساتھ تھی۔“
اس کے اس فقرے سے میں سمجھ گیا کہ وہ کون ہوسکتے ہیں۔ بلاشبہ وہ پیرزادہ کے بندے تھے۔
تبھی میں نے سامنے آئے بغیرکہا۔
”میں بتاتا ہوں کہ وہ کیسے وہاں گئے۔“
مجھے پورا یقین تھا کہ وہ ضرور چونکے ہوں گے اوران کا دھیان میری طرف ہوا ہوگا۔ مجھے پتہ تھا کہ چھاکے کے لیے اتنی مہلت ہی کافی ہوگی۔ میں چند لمحے رک کر سامنے آیا تو چھاکااور دلبر دوبندوں پر حاوی ہوچکے تھے۔ اور باقی دونوں سے نبرد آزماتھے۔ میں نے اونچی آَواز میں کہا۔
”اوئے چھوڑ دو ان کو…لیکن ہتھیار لے لو…“
چند لمحوں میں ہی ان کی گنیں چھین لی گئیں۔ وہ نہتے ہوگئے۔میں آگے بڑھا اور ایک چارپائی پربیٹھ گیا۔وہ چاروں میرے سامنے کھڑے تھے۔ میں نے سامنے پڑی چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں بیٹھنے کااشارہ کیا تووہ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئے۔ باقی ان کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔
”دیکھو… اگر ہم چاہیں تو ابھی تم چاروں کو اپاہج بنا کر واپس بھجوادیں۔
اور…بھجوابھی دیں گے اگر تم لوگوں نے غلط بیانی کی تو…“ یہ کہہ کر میں نے ایک لڑکے سے کہا۔”پانی پلاؤ ان لوگوں کو۔“
میرے یوں کہنے پر وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔ وہ لڑکا پانی لینے چلاگیا تومیں نے کہا۔ ”سچی بات کرنی ہے‘ صرف سچی… بولو‘ کس نے بھیجا ہے۔“
”پیرزادہ وقاص نے…“ ان میں سے قدرے ادھیڑ عمر بندے نے کہا۔
”قتل ہونے والوں کی دلبر سے بھی دشمنی تھی۔ اس لیے پوچھنے آگئے۔“
”خود آئے ہویاپیرزادے نے بھیجا ہے؟“ میں نے پھر سے پوچھا۔
”انہوں نے ہی بھیجا ہے۔“اس بندے نے دوبارہ کہا تو میں چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔
”توپھر اسے جاکربتادو‘ دلبر نے وہ بندے نہیں مارے‘بلکہ ان نوواردوں نے مارے ہیں‘ اور ہم سب ان کے چشم دید گواہ ہیں۔
“
”وہ کیسے ؟“ ادھیڑ عمر نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”اب تم لوگ بچے تو نہیں ہو کہ یہ باتیں پولیس تک پہنچائی جائیں۔ اصل واقعہ یوں ہے کہ میں اور دلبر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان چھ کومارنے گئے تھے‘ سردار کے ڈیرے پر‘ وہاں صرف دو ہی تھے۔ باقی چار ہمیں نہیں ملے‘ وہاں ان سے سامنا ہوا‘ کچھ پٹاخہ بازی ہوئی اور ہم نے انہیں قابو میں کرلیا۔
ان سے باقیوں کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ نزدیک سے کہیں شراب لینے گئے ہیں۔ انہیں بھٹی کے بارے میں پتہ تھا‘ ہمیں بھی معلوم تھا‘ ہم جب وہاں پہنچے تو ان میں مڈبھیڑ ہوچکی تھی اور زخمی حالت میں پڑے تھے۔ تمہارے تینوں لوگ مارے جاچکے ‘ ان میں سے صرف ایک زندہ تھا‘ اسے ہم نے مار دیا۔ پھر سبھی کوچھوڑ کر واپس آگئے۔“
”کیا یہ سچ ہے جمالے…؟“ اس بندے نے پوچھا۔
”بالکل سچ ‘سولہ آنے سچ…“میں نے پورے اعتماد سے کہا۔
”بات ہضم نہیں ہوئی…“ وہ پھر بولا۔
”توپھر کیالینے آئے ہو یہاں…تمہاری دشمنی تو سردار سے بھی ہے‘ اس کے پاس کیوں نہیں گئے۔ اس لیے کہ انہیں تم لوگ ڈرا دھمکا نہیں سکتے۔ جاؤ‘ جاکر پیرزادے سے کہو ان بے چارے غریبوں کو نہ ستائے‘ بلکہ ان سرداروں سے پوچھے کہ وہ چھ نووارد یہاں کیوں تھے‘ اس سوال کا جواب دے دیں گے تو پھر ان کے قاتل بھی مل جائیں گے۔
یہ میرا پیغام دے دینا پیرزادے کو…جاؤ اب۔“
”اوئے جمالے۔! انہیں یونہی جانے دے رہے ہو،انہوں نے ہم پراسلحہ تانا ہے‘ تم نہ آتے تو شاید یہ ہمیں…“ دلبر نے کہا تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔
”دیکھو،پیرزادے وقاص کی میرے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں اس سے دشمنی کرنا چاہتاہوں‘ انہیں پانی پلاؤ اور جانے دو۔“