”تمہارا کیامطلب ہے‘ وہ ہمارے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوگا‘ وہ خوشی سے کہے گا کہ آؤ اورمجھے سبق سکھا کر چلے جاؤ‘ کیابات کرتاہے جسّی تو…“ ہرپریت نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”دیکھ لے ہرپریت‘ اتنا غصہ نہ کر‘ بڑا وقت پڑا ہے ‘ پتا نہیں کتنی دیر تک ان سے لڑنا ہے‘ چل ابھی مسکرادے۔“ جسپال نے لجاجت سے کہا۔
”اگر نہ مسکراؤں تو…“ ہرپریت نے معشوقانہ انداز میں کہاتووہ بولا۔
”توپھر میں‘ ابھی اور اسی وقت بلجیت کی طرف چل پڑوں گا‘ پھردیکھاجائے گا‘ جوہوگا۔“
اس کے یوں کہنے پر ہرپریت نے اس کی طرف دیکھااور پھر گہرا سانس لیتے ہوئے بولی۔
”میں سمجھتی ہوں کہ ابھی وقت نہیں ہے‘ لیکن میں کیا کروں‘ میرا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔“
”اس کابھی کچھ کرتے ہیں‘ تم بس ذرا سا مسکرادو …“ وہ بولا تو ہرپریت ہنس دی لیکن اس کی ہنسی میں کھنکھناہٹ نہیں تھی‘ جس پرجسپال نے اسے غور سے دیکھا‘ تب وہ بولی۔
(جاری ہے)
”تم…ان تک پہنچو یانہیں‘ مگر وہ تم تک ضرور پہنچیں گے۔ میں ان کی فطرت جانتی ہوں۔ چلو‘ تم گاڑی چلاؤ۔“
”وہ تو میں چلاتاہوں‘ لیکن تم کہنا کیاچاہتی ہو‘ مجھے صاف لفظوں میں کہو۔“ یہ کہتے ہوئے جسپال نے جیپ کو گیئر لگادیااور اوگی پنڈ کے مخالف پکی سڑک پر جانے لگا۔
”اصل میں تم نے بلجیت کو چھوڑ کر اچھا نہیں کیا‘ اسے وہیں ختم کردینا چاہیے تھا۔
“ ہرپریت نے آگ اگلنے والے لہجے میں کہاتووہ گہرے لہجے میں بولا۔
”میں اب بھی تمہاری منطق نہیں سمجھا؟“
”دیکھو…! آج نہیں تو کل‘ ان سے آمناسامنا تو ہونا ہی ہے بلکہ ان سے دشمنی کہاں ختم ہونی ہے رویندر سنگھ اس لیے کمشن میں شامل ہوا ہے‘ اب وہ دھوکے سے اور قانونی ہتھکنڈے استعمال کرکے تمہیں‘بلکہ ہم سب کو پریشان کریں گے۔ وہ ایک طرف نہ صرف تمہیں قتل کرنے کی کوشش کریں گے بلکہ کسی نہ کسی ناجائز کیس میں پھنسا کر الجھا دیں گے اور کچھ نہیں تو یہاں کا ظالم ترین قانون ”ٹاڈا“ تم پر لگوادیں گے‘ اس کے بعد تو پھر شنوائی ہی نہیں ہے۔
جب تک چاہیں تمہیں اندر رکھیں۔ ان کے ساتھ معاملہ جتنا لمبا کروگے ‘یہ اتنا ہی ہمیں الجھادیں گے۔ وہ اب حملہ آور ہیں‘ لیکن اگر بلجیت قتل ہوجاتاناتو وہ اپنی بقا والی پوزیشن پر آجاتے۔“
”تم ٹھیک کہتی ہو ہرپریت لیکن اگرانہیں قتل کردیاتو پھر کیا ہے‘ میرے پرکھوں کا انتقام پوراہوجائے گا‘ نہیں‘ نہیں ہرپریت نہیں‘ میں ان لوگوں کو اتنی جلدی مکتی نہیں دے سکتا‘ مجھے میرے حساب سے چلنے دو پلیز۔
دشمنی جذبات سے نہیں دل سے لڑی جاتی ہے۔“
”میں مانتی ہوں‘ مگریہ بھی سچ ہے کہ دشمن کو زیادہ وقت نہیں دینا چاہیے۔“ ہرپریت نے گہرے لہجے میں کہا۔
”ظالم اپنی قوت کے نشے میں یہ سمجھتا ہے کہ شاید ہمیشہ وقت اسی کارہے گا‘ لیکن وقت بدلتا رہتا ہے‘ یہی اس کی فطرت ہے‘ ڈونٹ وری‘ اپنے چہرے پر سے پریشانی اور دماغ پر سے بوجھ ہٹادو۔
خوش دکھائی دو‘ ایک دم فریش کسی گلاب کی طرح…“ جسپال نے کہااور اشارے سے پوچھا کہ کس طرف جانا ہے۔ اس نے سیدھے چلتے رہنے کااشارہ دیااور پھر ذراسا ترچھی ہو کربیٹھتے ہوئے بولی۔
”واقعی‘ ہم جب سے ملے ہیں‘ اپنے دشمنوں کی باتیں کرتے رہے ہیں۔اپنے بارے میں بس ایک دن بات کی‘ وہ بھی کیا بات کی۔“
”میں سمجھتا ہوں کہ میرے پاس وقت بہت کم ہے‘ اور میرے دشمن بڑے طاقت ور ہوگئے ہیں لیکن تمہارا ساتھ مل گیا میرے لیے اتنا ہی کافی ہے‘ تو میراحوصلہ بن گئی ہے۔
“ جسپال نے رومانوی انداز میں آہستگی سے کہاتووہ ایک دم سے شرما گئی۔ وہ جتنی بھی بولڈ تھی‘آخر تھی تو مشرقی لڑکی‘ ان دونوں میں خاموشی آگئی۔
جسپال تیزی سے جیپ بھگائے چلاجارہا تھا۔تبھی سڑک کنارے ایک گاؤں کی طرف جاتے ہوئے ہرپریت نے اشارہ دیا۔ وہ اس طرف مڑ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ گاؤں کی ایک حویلی کے سامنے جا رُکے۔ جسے برقی قمقموں سے سجایاگیاتھا۔
گاڑیاں باہر ہی پارک ہو رہی تھیں۔ اس لیے انہوں نے جیپ پارک کی اور اندر کی طرف چل دیئے۔
”ہرپریت!؛ تونے یہ تو بتایاہی نہیں‘ شادی لڑکے کی ہے یالڑکی کی۔“
”لڑکی کی …مجھے تو لگتا ہے بارات آگئی ہو گی۔“ اس نے دھیمے لہجے میں جواب دیااور سامنے کھڑے ایک بزرگ سردار سے ملے جو اس کی آمد پر اوگی ان کے گھر آیا تھا۔
”بہت خوشی ہوئی‘ تو آیا ہے پتر‘ بہن گلجیت کور نہیں آئی۔
“ اس نے پوچھا۔
”ان کی طبیعت تھوڑی اپ سیٹ تھی…“ ہرپریت نے کہا‘ پھر زیادہ باتوں کاموقع نہیں ملا‘ وہ دوسرے مہمانوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ وہ ایک بڑے سے پنڈال کی طرف بڑھے‘ جہاں پہلے ہی بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرپریت نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا۔
”لگتا ہے ابھی بارات نہیں آئی۔“
”چلوآجائے گی۔“ جسپال نے بھی ایک کرسی پربیٹھتے ہوئے کہا۔
”نہیں‘ انہیں گرودوارے سے جاکر لانا ہوگا‘ وہ اُدھر آئیں گے۔ شادی کی رسم اُدھر ہی ہوگی۔“ وہ بولی۔
”اوکے…اب آئیں ہیں تو…‘ جسپال ادھوری بات چھوڑ کر خاموش ہوگیا۔”تم بیٹھتی کیوں نہیں ہو؟“
”میں اپنی سہیلیوں کو دیکھ رہی ہوں۔ میں لڑکیوں کے ساتھ آجاؤں گی۔ “ یہ کہہ کر وہ اندر کی جانب چلی گئی اور وہ وہاں پراکیلا بیٹھ گیا۔
کچھ وقت گزراتھا اور وہ ادھر ادھر لوگوں کو دیکھ رہاتھا‘ کہ انوجیت کی کال آگئی۔
”کہاں پر ہو؟“
”میں شادی میں۔“ اس نے مختصر ساجواب دیا۔
”اچھا اچھا‘ بس تمہاری خیریت معلوم کرناتھی‘ یہاں لوگوں سے ملو‘ گپ شپ کرو۔“ وہ خوشگوار لہجے میں بولا۔
”ابھی تو اکیلا ہی ہوں‘ ہرپریت اندر لڑکیوں میں چلی گئی ہے۔‘ ‘اس نے جواب دیاتو انوجیت نے کہا۔
”ارے کوئی بات نہیں‘ ابھی تیرے پاس کافی سارے لوگ آجاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ کچھ دیر گزری ہوگی کہ چند نوجوان اس کے پاس آگئے۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا‘ وہ انوجیت کے وہ دوست تھے جو اوگی پنڈ سے تھے۔ وہ سبھی گپ شپ کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکی کو لے کر گرودوارے کی جانب چل دیئے ‘ وہ سب بھی چل پڑے۔
گردوارے میں ”ارداس“(ایک طرح کی دعائیہ محفل جو ہر خوشی اور غمی کے موقع پر منعقد کرتے ہیں) شروع ہوچکی تھی۔
دولہااور دلہن اپنے روایتی لباس میں گیانی کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ باقی سب لوگ آہستہ آہستہ ‘خاموشی کے ساتھ گردوارے کے اندر بیٹھتے چلے جارہے تھے۔ گیانی بڑے پرجوش لہجے میں گروگرنتھ کا پاٹھ کرکے اس کی وضاحت کرنے لگا۔ ہرپریت لڑکیوں میں تھی اور جسپال لڑکوں میں۔ کافی دیر تک ارداس چلتی رہی‘ پھر دولہا اور دلہن نے گرنتھ صاحب کے آگے ماتھاٹیکا‘ گیانی نے کچھ رسمیں اداکیں اوران کی شادی ہوگئی پھر دلہا دلہن توگاڑی پرحویلی آگئے‘ باقی سارے پیدل ہی حویلی کی جانب چل پڑے‘ جو بالکل قریب ہی تھی۔
رات گئے تک شادی والے گھر میں ہلا گلا چلتارہا۔شراب پانی کی مانند بہنے لگی‘ رقص وموسیقی کی محفل جم گئی۔ ہنستے کھیلتے‘ کھاتے پیتے رات خاصی گہری ہوگئی۔ جسپال کے آس پاس جمع ہونے والے لڑکے سبھی شراب کے نشے میں دُھت تھے۔ ایک دوہوش میں تھے۔ وہ جانے لگے تو انہوں نے پوچھا۔
”چلیں جسپال بابو۔“
”تم چلو‘ ہرپریت آتی ہے تو میں نکلتاہوں۔
“ اس نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے۔“ یہ کہہ کر وہ باہر کی جانب چل دیئے اوروہ ہرپریت کے آنے کاانتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ چند لڑکیوں کے ساتھ نمودار ہوئی‘ پھراسے دیکھ کران سے اجازت لے کر آگئی۔ قریب آتے ہی بولی۔
”کیسارہا یہ شادی کاہنگامہ…؟“
”اچھا تھا‘ میرے لیے یہاں کے کلچر کی مناسبت سے بالکل نیا… چلیں اب…“
”بالکل…! وقت بھی خاصاہوگیا۔
“ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل پڑی۔ گیٹ پر وہ بزرگ سردار لوگوں کو وداع کررہے تھے۔ وہ تپاک سے ملے شکریہ ادا کیا پھر یہ پارکنگ سے جیپ میں بیٹھے اور واپسی کے لیے چل پڑے۔
”ڈیش بورڈ میں میرا پسٹل پڑا ہے‘ وہ نکال لو۔“ جسپال نے سنجیدگی سے کہا توہرپریت نے کچھ کہے بنا پسٹل نکال کر ڈیش بورڈ پررکھ دیا۔ شاید یہ اس کی چھٹی حس تھی یامحض حفظ ماتقدم کے طور پر لاشعوری عمل تھا‘ وہ دونوں محتاط ہوگئے تھے اور اسی لیے خاموش تھے‘ رات کے وقت سڑک سنسان تھی‘ اس لیے وہ تیز رفتاری سے جیپ بھگائے لے جارہاتھا۔
سارا راستہ کٹ گیا‘ پھر جیسے ہی وہ اپنے گھر کی طرف مڑنے کے لیے آہستہ ہوئے‘ بالکل موڑ پر آگے ایک سفید کار کھڑی تھی‘ اوراس کے ساتھ ہی ہائی ایس وین نے راستہ روکاہواتھا۔ جسپال کے جبڑے بھنچ گئے‘ اسے گاڑی روکناپڑی۔ تبھی بولا۔
”ہرپریتے… الرٹ ہوجا…“ یہ کہتے ہوئے اس نے بریک لگادیئے اور ہیڈ لائٹس روشن رہنے دیں۔
”فکرنہ کر…“ یہ کہہ کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ تبھی وین کی اوٹ میں سے چند آدمی باہر نکلے‘ ان کے ہاتھوں میں گنیں تھیں۔ تبھی ہرپریت نے پچھلی نشست پر کودتے ہوئے کہا۔”حوصلہ رکھنا۔“
”توبھی فکرنہ کر…“