Episode 46 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 46 - قلندر ذات - امجد جاوید

چاند نکل آیا تھا‘ چوک میں برگد کے درخت سے ذرا ہٹ کر چارپائیاں دھری ہوئی تھیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو گاؤں کے کافی سارے لوگ وہاں جمع ہوچکے تھے۔ ایک طرف چھاکا اور اس کے دوست موجود تھے‘ اس کے قریب ہی دلبر اپنے ساتھیوں سمیت بیٹھا تھا۔ گاؤں کے وہ بزرگ وہاں آچکے تھے جنہیں مختلف برادریوں نے چھوٹے چھوٹے فیصلوں کا حق دیاہواتھا۔ چونکہ وہ مخلص لوگ تھے‘ اس لیے سب ان کی مانتے بھی تھے۔
میرے وہاں جاتے ہی لوگوں میں تھوڑی ہلچل ہوئی کیونکہ انہیں یہی معلوم تھا کہ آج جمال نے پنچائیت میں بات کرنی ہے۔ میرے وہاں بیٹھتے ہی ایک معمر شخص نے پوچھا۔
”ہاں بھئی جمال‘ کیا کہنا چاہتے ہو تم؟“
”میاں جی! بات یہ ہے کہ ہمارا علاقہ بڑا پرامن ہے لیکن ابھی تھوڑاہی عرصہ ہوا ہے اس پر امن علاقے میں اچھی خاصی گڑبڑ ہونے لگی ہے۔

(جاری ہے)

میں نہیں کہتا کہ میں اس گڑبڑ کاحصہ نہیں ہوں‘ یامیرا دامن پاک صاف ہے‘ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے‘ جس کسی کاجب دل چاہے حملہ کردیتا ہے‘ جب چاہے کوئی بندے مار کر چلا جاتا ہے‘ حد تو یہ ہے کہ پھرشک بھی اپنے ہی علاقے کے بندوں پر کیا جاتا ہے۔ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ہی نہیں بلکہ ذلیل بھی کیاجاتا ہے‘ اسلحے کی نوک پر ان سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے‘ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیاہمیں اپنے تحفظ کے لیے اب اسلحہ اٹھالینا چاہیے‘ یاپھر اس غنڈہ گردی کا کوئی سدباب کرنا ہوگا؟ “میں نے انتہائی جذباتی انداز میں اپنی بات ختم کی تو ایک دوسرے بزرگ نے پوچھا۔
”تمہارے خیال میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟“
”میرے خیال میں تو بہت کچھ ہے بزرگو‘ یہ ساری صورت حال آپ بھی جانتے ہیں۔ پھر بھی آپ میرا خیال پوچھ رہے ہیں‘ کون نہیں جانتا۔‘ میں نے شکوہ بھرے لہجے میں کہا تووہ بزرگ سب کی طرف دیکھ کر بولے۔
”تم ٹھیک کہتے ہو‘ لیکن ہم جمع ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ اس صورت حال پر بات کریں‘ میں تمہی سے ابتدا کرتاہوں‘ اسی لیے تم سے پوچھا ہے کہ تمہارا کیا خیال ہے‘ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟“
”توپھر سنیں۔
“ میں نے ان کی طرف دیکھ کر جذباتی اندازمیں کہا۔”اصل میں ہم لوگ اس علاقے کے جاگیرداروں کے غلام بن چکے ہیں۔ بظاہر ہم آزاد ہیں‘ لیکن ذہنی طور پر اب بھی غلام ہیں۔ سفید چمڑی والے آقا گئے برسوں ہوگئے مگر یہ کالی چمڑی والے اب ہم پرمسلط ہیں۔ ان کی غلامی کرنا‘ انہی کی چاکری کرکے‘ انہی کا حکم ماننا ہماری گھٹی میں پڑچکا ہے۔ جس جاگیردار کا دل کرتا ہے‘ وہ ان غریبوں کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہوئے اس کی جان تک سے کھیل جاتا ہے‘ یہ صورت حال صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم ان جاگیرداروں کی غلامی میں ہیں۔
”تم وہی عام سی بات کررہے ہو‘ جو محض نوجوانوں کوبھڑکانے کے لیے کوئی بھی کرسکتا ہے‘ کیا ثبوت ہے تیرے پاس…“ ایک تیسرے بزرگ نے تیزی سے پوچھا۔
”سردار شاہ دین کے ڈیرے پر آنے والے بندوں نے‘ میراں شاہ کے علاقے کے بندوں کومار دیا۔ مجھ پر چند دن پہلے ہونے والے حملے میں سردار شاہ دین کاہاتھ تھا۔ وہ بندے بھی اس کے ڈیرے پرٹھہرے تھے۔
اب اس کا مطلب آپ کو سمجھاناپڑے گا کہ سردار جب چاہے‘۱ س علاقے کے بندے مروادے‘ اسے بندے مارنے کااختیار کس نے دیاہے؟ اور دوسری طرف پیرزاد ے…آج ہی دلبر پر پیرزادوں نے آکر اسلحہ تان لیا۔ وہ یہ پوچھنے آئے تھے کہ میراں شاہ والے بندوں کو انہوں نے مارا ہے؟“میں نے گھمبیر لہجے میں کہا۔
”جمال… تم پورے ہوش سے بات کررہے ہونا‘ یہ سرداروں اور پیرزادوں پرمحض الزام تو نہیں۔
“ ایک بزرگ نے میرے بیان کی تصدیق چاہی۔
”میں ثبوت دے رہاہوں۔ محض الزام نہیں لگا رہا۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جوبندے قتل ہوئے ہیں‘ وہ کہاں ٹھہرے تھے؟“ میں نے کسی حد تک غصے میں کہا تو وہاں موجود لوگوں میں کھلبلی مچ گئی۔ چہ میگوئیاں کرتے ہوئے لوگ بھی حیران تھے کہ آج تک کسی نے اتنے واشگاف الفاظ میں سرداروں کے خلاف بات نہیں کی‘ آج اسے کیا ہوگیا ہے؟
”ممکن ہے وہ آئیں تو سردار ہی کے پاس ہوں‘ اور اپنی ہی کسی دشمنی کی وجہ سے ان کے درمیان تنازع ہوگیا ہو۔
“ اس بزرگ نے کہا تو مجھے واقعتا غصہ آگیا۔ میں نے جذباتی لہجے میں کہا۔
”ممکن تو کچھ بھی ہوسکتا ہے بزرگو…! ہم اندھے بھی ہوسکتے ہیں‘ ہماری جانوں کوہروقت خطرہ بھی ہوسکتا ہے‘ اگر دلبر پر اسلحہ تاناگیا‘ دلبر مرجاتا‘ اس کے ساتھی مرجاتے‘ یاحملہ آور مرجاتے‘ بات تو بڑھتی‘ دونوں طرف کے بندے مارے جاتے‘ سرداروں اور پیرزادوں کا کیا جاتا‘ مرناتو پھرہم غریبوں ہی نے ہے۔
بالکل اسی طرح ہم غریب لوگ کیڑے مکوڑوں کی مانند مارے جارہے ہیں لیکن نہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہم حوصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں جانتاہوں کہ یہ بات کرکے میں نے اپنی موت کو دعوت دے دی ہے‘ اس لیے میں یہاں پر اعلان کرتاہوں کہ اگر میں قتل کردیاجاؤں تو میرے قتل کے ذمے دار صرف اور صرف یہ سردار ہوں گے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی غریب غربااُٹھ کر ان کے خلاف آواز بلند کرے۔
”تم چاہتے کیاہو؟“ ایک بزرگ نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں حیرت سے پوچھا۔
”میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے اپنی آنے والی نسل کو غلامی سے بچانا ہے ‘انہیں خوشحال دیکھنا ہے اور انہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دینا ہے تو ان جاگیرداروں سے جان چھڑانا ہوگی۔ ان کے خلاف بغاوت کرناہوگی‘ ان کے چنگل سے نکلنا ہوگا‘ ورنہ یہ لوگ ہمیں یونہی مارتے رہیں گے‘ اور ہمارا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا۔
اس کے لیے جنگ لڑنا ہوگی۔“میں نے صاف لفظوں میں اپنامدعا کہہ دیا۔ 
”تم تو دیوانوں جیسی باتیں کررہے ہو میرے پتر‘ نہتے لوگ کیا جنگ لڑیں گے۔ ان غریبوں کی تو روٹی پوری نہیں ہوتی۔“ اس بزرگ نے طنزیہ انداز میں کہا تو میں نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
”یہی تو میں آپ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کررہاہوں‘ اس روٹی کا حصول کن لوگوں نے تنگ کیا ہوا ہے‘ وسائل پرقبضہ کیے ان لوگوں کے کتے بہترین راتب کھاتے ہیں اور یہاں عام آدمی روٹی سے تنگ ہے۔
یہ الیکشن کے دنوں میں اپنا دیدار کروا کے آپ سے ووٹ لے جاتے ہیں‘ روٹی انہوں نے نہیں‘ آپ لوگوں نے خود اپنے لیے تنگ کی ہوئی ہے‘ خیر…! میرا جو آپ لوگوں سے سوال ہے‘ اس کا جواب کیاہے؟“
”تمہارا سوال غلط نہیں‘ مگر تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم کیا کریں۔“ دوسرے بزرگ نے خاصے درد مند لہجے میں پوچھا۔
”میرے پاس بڑے حل ہیں لیکن اس پر سوچ بچار کرنے کی زحمت میں نے آپ کو اسی واسطے دی ہے کہ اگر آپ کچھ نہیں کریں گے تو مجبوراً ہمیں خود کرنا پڑے گا۔
میں یونہی کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنا نہیں چاہتا۔ یہاں سب گاؤں والے موجود ہیں۔ پوچھیں ان سے …“میں نے وہاں پر موجود گاؤں کے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا‘ تبھی کئی جوشیلے نوجوانوں نے میری ہاں میں ہاں ملائی تو ایک شور برپا ہوگیا۔ ہر کوئی اپنی کہے چلاجارہاتھا۔ سو اس بزرگ نے سب کو خاموش کراتے ہوئے پوچھا۔
”یہ تم نے ٹھیک بات کہی کہ ہمیں سوچ بچار کرنا چاہیے۔
سوچتے ہیں‘ اس مشکل سے کیسے نکلنا ہے‘ اس پر بھی سوچتے ہیں کیا تم نہیں جانتے ہو کہ یہ کتنا مشکل کام ہے؟“
”میں نے تو اپنی بات کہہ دی‘ اب آپ جانیں اور آپ کا کام…“ میں نے گویا بات ختم کرتے ہوئے کہا‘ تبھی لوگ اپنے اپنے طور پر تبصرہ آرائی کرنے لگے۔ ہربندہ اندر سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنا اظہار چاہتاتھا‘ لیکن خوف کے باعث بات نہیں کرسکتاتھا۔
یہاں انہیں اظہار کاموقع ملاتو ان کے اندر کی نفرت ظاہر ہو رہی تھی‘ وہ سبھی تنگ تھے اور خوف محسوس کررہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ محفوظ نہیں ہیں۔ میں خاموش بیٹھا سنتارہا۔اس دوران چھاکا میرے قریب ہوا اور کان کے پاس بولا۔
”اب چل‘ جو کام ہوناتھا وہ ہوگیا ہے؟“
میں چند لمحے بیٹھارہا پھر اٹھ کر ان بزرگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”آپ ہمارے بزرگ ہیں‘ ہمارے لیے بہت ہی محترم‘ میں جانتا ہوں کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے‘ ہم سب اس پر سوچیں اور کوئی لائحہ عمل بنائیں۔ ہم چند دن بعد پھر یہاں اکھٹے ہوں گے‘ بڑے احترام کے ساتھ میں آپ سے یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ صرف اتنا ذہن میں رکھیں‘ ان سرداروں کی سرداری‘ علاقے پر حاکمیت صرف ہماری وجہ سے ہے‘ اب میں چلتاہوں۔
”ٹھیک ہے۔“ ایک بزرگ نے کہاتو میں لوگوں میں سے باہر نکل آیا۔
 کچھ فاصلے پر چھاکا چند دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا۔میں ان کے قریب پہنچا تو چھاکے نے بائیک سیدھی کی‘ میں اس کے پیچھے بیٹھ گیاتو وہ چل پڑا‘ ذرا سا آگے جاکر اس نے بڑی گرمجوشی سے کہا۔
”رندھاوے نے بڑا کام دکھادیا ہے یار…“
”کیا؟“ ‘میں نے تجسس سے پوچھا تو وہ تیزی سے بولا۔
”وہ ملک سجاد آگیا ہے‘ اور پتا ہے کہاں آکے ٹھہرا ہے؟“
”اوئے سیدھی بات کر…“ میں نے اکتاہٹ میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
”بات یوں ہے پیارے کہ آج شام ملک سجاد ان سرداروں کے پاس آگیا ہے‘ اس کے ساتھ کافی سارے بندے بھی ہیں۔ یوں سمجھو فوج ہی لے کرآیا ہے لیکن رندھاوے نے ان کے چاربندے پھڑکادیئے ہیں پولیس مقابلے میں‘ وہ سبھی اشتہاری تھے۔“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط