”اوہ واہ…“ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔”لگتا ہے رندھاوا یاری نبھائے گا۔ کہاں ہوا ہے یہ پولیس مقابلہ…؟“
”ہوا یوں کہ ملک سجاد کے آگے پیچھے بندے تھے۔ اب وہ کوئی امن کا پیغام لے کر تھوڑا آیا ہے‘رندھاوا ان لوگوں کے انتظار میں تھا‘ ایک ٹولی مل گئی‘ انہوں نے پکڑ لی‘ بس ہوگیامقابلہ۔“
”اس کامطلب ہے…اب تھانے میں اچھی خاصی گہما گہمی ہوگی۔
“ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اور سرداروں کا کیا حال ہوگا؟“ چھاکے نے گھمبیر لہجے میں کہا۔
”اب ایسے کر‘مجھے گھر پراُتار کرسارے دوستوں کو اکٹھا کر… دلبر کو بھی لے اور بھیدے کے پاس ڈیرے پر چلاجا‘ میں بھی وہیں آتاہوں۔ آج رات بہت محتاط رہنا ہوگا۔ سمجھو‘ ہمیں شکار کرنا ہے‘ یاپھر ہم شکار ہوجائیں گے…“
”میں سمجھتا ہوں ایسا ہی کچھ ہوگا…“ چھاکے نے کہا اور بائیک تیز کردی۔
(جاری ہے)
وہ مجھے میرے گھر کے گیٹ پر اتار کر چلاگیا۔
میں گھر میں داخل ہواتو سامنے دالان نے اماں جائے نماز بچھائے نماز پڑھ رہی تھی۔ اس دن پہلی بارمجھے احساس ہوا کہ میری ماں کتنی بہادر ہے‘ اکیلی اتنے بڑے گھر میں رہتی ہے‘ اسے پوری طرح احساس ہے کہ میں موت کے چنگل میں ہوں‘ لیکن پھر بھی نہیں گھبراتی‘ اگر پریشان ہوتی بھی ہوگی تو اس کااظہار نہیں کرتی تھی۔
ہمیشہ میری ماں نے مجھے حوصلہ ہی دیاتھا۔ کبھی وقت اور حالات سے ڈرایا نہیں تھا۔ میں قریب پڑی چارپائی پر چپکے سے بیٹھ گیااور غور سے ماں کو دیکھنے لگا‘ کتنی بہادر اور پرعزم تھی میری ماں‘ جس نے اپنے سینے میں انتقام کی آگ نہیں بجھنے دی تھی اور میں نے دودھ کے ساتھ اس آگ کی حدت کوبھی اپنے اندر اتار لیاتھا۔ میں انہی سوچوں میں کھویا ہواتھا کہ میری ماں نے سلام پھیرا‘ پھر مجھے دیکھ کر اشارے سے اپنے قریب بلایا‘ میں ان کے پاس جابیٹھا تو میرے سر پر پھونک ماری‘ جیسے اس نے مجھے اپنی دعاؤں کے حصار میں لے لیاہو۔
”کھانا کھائے گا؟“ ماں نے پوچھا۔
”نہیں اماں‘ بھوک نہیں ہے تم پڑھونماز‘ میں بس کچھ دیر کے لیے آیا تھا‘ ابھی جارہاہوں۔“ میں نے تیزی سے کہا تو اماں نے غور سے میری طرف دیکھااور بولیں۔
”اپناخیال رکھنا پتر۔“
یہ کہہ کر وہ بقیہ نماز کے لیے اٹھ گئیں اور میں اوپر چھت پر چلاگیا۔ مجھے وہاں سے کچھ اسلحہ اور رقم لینی تھی۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد میں گھر سے اپنی بائیک پرنکلااور ڈیرے کی طرف چل دیا۔ چاند کی روشنی کچھ زیادہ تھی یا پھرمجھے لگ رہی تھی۔ دور دور سے بھی ہیولے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ میں گاؤں کی گلیوں سے نکلتا چلاگیااور بڑی سڑک پرآگیا۔ میں اکیلا تھا اور مجھے معلوم تھا ملک سجاد اس وقت مجھے تلاش کرنے کے لیے اپنے بندے بھیج چکاہوگا۔ اگر وہ اب تک مجھے تلاش نہیں کرسکے ہیں تو رندھاوے نے انہیں تھانے ہی میں مصروف رکھا ہوگا۔
اس وقت کون کیا کررہا ہے‘ مجھے کچھ خبر نہیں تھی۔ نجانے کیوں میرے ذہن میں یہ بات اٹکی ہوئی تھی کہ کسی نہ کسی طرح پیرزادہ وقاص سے رابطہ ہوجائے تو پھر جومیں چاہتاہوں‘ وہی ہوجائے گا۔
میں ڈیرے پرپہنچا تو چھاکے کے ساتھ دلبر اور اس کے کئی سارے ساتھی تھے۔ وہ میرے ہی انتظار میں تھے۔ میرے بیٹھتے ہی باتیں شروع ہوگئیں۔ تبھی میں نے پوچھا۔
”یار‘ ہم یہاں بیٹھے رہیں گے‘ اردگرد کی خبر ہمیں کیسے ملے گی؟“
”میں اور دلبر ابھی یہی باتیں کررہے تھے۔ ابھی ہم یہاں ہیں اوران لوگوں کاپتہ نہیں وہ کیا کررہے ہیں اور کدھر ہیں؟“ چھاکے نے کافی حد تک تشویش سے کہا تو میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”کون لوگ؟“
”وہی ملک سجاد کے لوگ؟“ اس نے جواب دیا۔
”ان کے لیے رندھاوا ہی کافی ہے‘ اگر ایک سوال کاجواب مل جائے تو پھر…“ میں نے کہتے ہوئے جا ن بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”وہ کیا؟“ چھاکے اور دلبر نے ایک ساتھ بے ساختہ پوچھا تومیں نے کہا۔
”اس وقت پیرزادوں کی کیا کیفیت ہے؟وہ کیا کررہے ہیں‘ ان کی طرف سے خاموشی‘ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔“
”میرانہیں خیال کہ وہ خاموش ہوں گے…“ دلبر نے تیزی سے کہا۔
”یہ محض خیال ہی ہے نا‘تصدیق تونہیں۔“ میں نے کہا۔
”تویہ کیسے ہوگا؟“ اس نے مایوسانہ لہجے میں پوچھا تو میں نے تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
”اگر ایک بار رندھاوے سے ملاقات ہوجائے نا‘ تو بہت کچھ سامنے آجائے گا‘کیونکہ وہ دائی ہے پورے علاقے کی ‘ کون سا مجرم کہاں ہے‘ اسے سب معلوم ہوتا ہے۔“
”توچل نکل چلتے ہیں‘مل لیتے ہیں اس سے‘ یہ کونسی بڑی بات ہے۔“ دلبر نے تیزی سے کہا ‘ وہ خاصا بے تاب دکھائی دے رہاتھا۔
”اوئے ملنا کیا ہے اس سے‘ اچھوکریانے والے سے فون…“ چھاکے نے کہا تو میں نے ٹوک دیا۔
”نہیں‘ یہ ہم بڑی غلطی کرتے رہے ہیں۔ وہ اگر ہمیں ساری بات بتاسکتا ہے تو دوسروں کوبھی سب کچھ کہہ سکتا ہے۔ تو ایسا کر‘ یہاں سب سنبھال لے‘ بلکہ گاؤں میں بندے چھوڑ،تاکہ معلومات ملتی رہے۔ میں اور دلبر جاتے ہیں۔“میں نے کہا تووہ فوراً اٹھ گیا۔ پھرتیزی سے بہت کچھ طے کیااور ہم دونوں بائیک پرنکل کھڑے ہوئے۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ وہ ہمیں تھانے میں مل جاتا۔
میں نے باہر نکلتے ہوئے چھاکے کو اسلحہ اور رقم کے بارے میں سمجھادیا تھا کہ ان کا کیا کرنا ہے‘ وہ سمجھ گیا تھا۔ اس وقت آدھی رات ہونے کوتھی‘ جب میں اور دلبر دونوں ڈیرے سے نکلے اور قریبی قصبے کی جانب چل پڑے۔ میں بائیک چلا رہاتھااور دلبر اسلحہ لیے میرے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ کچے راستوں پرمیں احتیاط سے چلتا رہا‘ پھرجیسے ہی پکی سڑک آئی میں نے طوفانی رفتار سے بائیک بھگایا اور تقریباً پون گھنٹے میں ہم قصبے جاپہنچے۔
تھانہ کافی حد تک سنسان پڑا ہواتھا۔ میں نے جاتے ہی باہر کھڑے سنتری سے پوچھا۔
”رندھاوا صاحب ہیں تھانے میں…!“
”جی‘ نہیں ‘ وہ چلے گئے ہیں۔“ اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ دلبر نے اپنااسلحہ چھپایاہوا تھا۔
”کہاں گئے ہیں۔ مجھے ان سے بہت ضروری ملنا ہے۔“ میں نے کہا کیونکہ وہ مجھے پہچان کرمسکرا دیاتھا۔
”پتہ نہیں گشت پر ہوں یاپھر آرام کرنے کوارٹر پر…دیکھ لیں۔
“ اس نے اشارے میں جواب دیا تو میں نے تھانے کے اندرجاکربائیک رہائشی علاقے کی طرف موڑلی۔ہمیں رندھاوے کا کوارٹر تلاش کرتے چند منٹ لگے۔ میں بائیک روک کر اترا اور جاکر اس کادروازہ بجایا۔ دوسری دستک کے بعد اس نے دروازہ کھول دیا۔ پھرتیزی سے بولا۔
”جلدی سے اندر آجا‘ اسے بھی لے آاندر۔“
دلبر نے بات سن لی تھی‘ وہ اتراتو میں نے بائیک کوارٹر کے اندر کرلی‘ وہ تنہاتھا اور یونیفارم میں تھا۔
”آپ کو کیسے پتا رندھاوا صاحب کہ میں ہی ہوں… کوئی اور بھی ہوسکتاتھا۔“
”میں ابھی آیا ہوں‘ تیری پہلی دستک پر میں نے اندر سے جھانک کر تصدیق کرلی تھی کہ باہر کون ہے‘ مجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ تیرے ساتھی کے پاس اسلحہ ہے‘ چل اب کام کی بات کر‘ کیوں آیا ہے؟“ اس نے تیزی سے کہا۔
”میں صور تحال جاننے کے لیے آیا ہوں۔یہ کیا گیم چل رہی ہے…اورمیں…“
”تجھے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جب تیرا کام ہوتا تو تجھے بتادیتا۔ میرا بندہ تم تک پہنچ جاتا تو بے فکر ہوجا۔“
”لیکن پھر بھی… ملک سجاد…“
”اُوئے سن… اس کی تو بہن… وہ اب زندہ یہاں سے نہیں جائے گا۔ پیرزادوں کو یہ باور کرادیا ہے میں نے کہ تم اس گیم کا حصہ نہیں ہو۔ اس کے تینوں بندے سرداروں نے ہی مروائے ہیں اور یہ جو چار بندے مرے ہیں یہ پیرزادوں ہی نے مارے ہیں۔
ان دونوں کی آپس میں لگ گئی ہے۔ صبح تک دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ میں داد دیتاہوں تیرے ذہن کی‘ تونے جو پلان کیاتھا‘ ویساہی ہو رہا ہے۔“
”اگر انہوں نے آپس میں کوئی سمجھوتہ کرلیاتو …“ میں نے ایک خدشہ ظاہر کیا۔
”وہ تو ہونا ہی ہے‘ آج نہیں تو کل… کل نہیں تو پرسوں…جب بھی انہیں معلوم ہوا کہ گیم کیاہوئی ہے‘ مگر یہ اس وقت تک سمجھوتہ نہیں ہوسکتا‘ جب تک ملک سجاد ادھر ہے۔ کیونکہ پیرزادے یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں کرش کرنے کے لیے سرداروں نے دوسروں سے مدد لے لی ہے۔ اب ملک سجاد کا مرنابہت ضروری ہے۔“
”توپھر اسے مار دیتے ہیں۔“ میں نے یوں کہا جیسے کسی چیونٹی کومسلنے کی بات کررہاہوں۔