”میں جانتاہوں کہ تم اسے مار دوگے‘ لیکن یہ مدعاپیرزادوں کے سرہی پڑنا چاہیے۔ تاکہ یہ دشمنی لمبی ہوجائے۔“
”یہ کیسے ہوگا‘ ملک سجاد تو یہاں قلعہ بند ہوگیا ہے۔ وہ تو باہر نہیں آرہا۔“ میں نے یونہی بات چھوڑی‘ حالانکہ مجھے اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔
”ہاں‘ یہ تو ہے‘ میں نے خود اسے سرداروں کی حویلی تک محدود رہنے کو کہا ہے‘ باہر نکلنے پرمیں نے اس کی ذمہ داری نہیں لی‘ اس کے بندے ڈیرے پر ہیں۔
اور تجھے بتادوں‘ آج رات کسی وقت پیرزادوں کے بندوں نے ڈیرے پرحملہ کردینا ہے‘ اب اسمیں کس کاکتنا نقصان ہوتا ہے‘ میں نہیں جانتا۔“اس نے لاپرواہانہ انداز میں کہا تو ایک دم سے میرے ذہن میں خیال رینگ گیا۔ تب میں نے کہا۔
”میں اگر ان کی مدد کروں تو…؟“
”نہیں‘پھر تو معاملہ سارا سامنے آجائے گا۔
(جاری ہے)
“ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے‘ میں کچھ بھی نہیں کروں گا‘ لیکن اگرمیں ملک سجاد کا کام کردوں تو…“ میں نے اس کواشارہ دیاتووہ سرہلاتے ہوئے بولا۔
”مجھے کیسے پتا چلے گا کہ تونے ایساکردیا ہے اور پھر سرداروں کی حویلی میں… ناممکن ہے…“
”یہ میرا کام ہے کہ میں یہ کیسے کرتاہوں‘ باقی سنبھالنا آپ کا کام ہے۔ یہ میں نہیں جانتا کیسے ؟“ یہ کہہ کر میں نے اٹھتے ہوئے اس کے چہرے پر دیکھا‘ جہاں تفکر کے گہرے اثرات تھے پھر آہستگی سے بولا۔
”کیا میرا وہاں پر ہونا ضروری ہے؟“
”میں نہیں جانتا‘ لیکن آج رات کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔
“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہاتووہ ایک دم سے بولا۔
”ٹھیک ہے‘ اب جو ہوگا دیکھا جائے گا‘ تو کراپنا کام‘ میں دیکھ لوں گا۔“ وہ اضطراری انداز میں اٹھتے ہوئے بولا‘ میں نے اس سے ہاتھ ملایااور پھر مڑگیا۔ دلبر نے بائیک باہر نکالی‘ پھر اگلے چند لمحوں میں ہم رہائشی کالونی سے نکلتے چلے گئے۔
رات کا تیسرا پہرختم ہونے کو تھا۔
چاند مغربی افق کنارے جالگاتھا۔ چاندنی کی وہ پہلے والی آب وتاب نہیں رہی تھی۔ میں گاؤں کے باہر آپہنچا تھا۔ میرے ایک طرف گاؤں‘ تقریباً آدھا کلومیڑ کے فاصلے پر حویلی اور پھر اس سے آگے جاکر تقریباً دوکلومیٹر پر سرداروں کا ڈیراتھا۔ اگرمیں گھوم کرحویلی کے عقب سے نکلتا تو ڈیرے تک جاسکتاتھا‘ یاپھر سڑک پر جاتے ہوئے میں حویلی کے راستے کے سامنے سے گزرتا‘ مجھے حویلی اور ڈیرے کے درمیان رکناتھا۔
مجھے اصل میں حیرت یہ تھی کہ ملک سجاد نے آتے ہی مجھ پرحملہ کیوں نہیں کروایا؟
اس سوال کا جواب تو مجھے گاؤں ہی میں مل گیاتھا کہ اس کے بندے مارے گئے تھے۔ اگر رندھاوا مجھے پیرزادوں کے حملے کے بارے میں نہ بتاتاتو میرے ذہن میں کئی دوسرے خیال آتے چلے جارہے تھے۔ اب پورامنظر میرے سامنے واضح تھا۔ میں نے ساری احتیاط ایک طرف رکھی اور پکی سڑک پر سیدھا چلتا چلاگیا۔
حویلی کی طرف جانے والے راستے پر کوئی نہیں تھا۔ پھرچند ہی منٹوں میں ہم حویلی اور ڈیرے کے درمیان جارکے‘ بائیک بند ہونے سے ایک دم سناٹا چھاگیا۔
”دلبر! تو سمجھ گیا ہے ناکہ میں کیا چاہتاہوں۔‘
”اچھی طرح…“ وہ میرے اشاروں سے بات سمجھ گیاتھا۔
”تونے سامنے نہیں آنا‘ پھرجیسے ہی میں کہوں نکل جانا ہے‘ باقی تم خود سمجھ دار ہو۔
“میں نے اپنے طور پر اسے سمجھایا اور کچی سڑک کے دوسری جانب چلاگیا۔ میں نے اپنے پسٹل نکالے‘ میگزین دیکھے اور پوری طرح تیار ہوگیا۔ میری جیکٹ میں دو دستی بم تھے‘ جومیں خصوصی طور پر چھت سے اٹھا کر لایاتھا۔
ہمیں وہاں بیٹھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ڈیرے کی طرف سے ایک دم فائرنگ ہونا شروع ہوگئی۔ رات کے سناٹے میں فائرنگ کی آواز بہت دور دور تک سنائی دینے لگی تھی۔
میں اپنی جگہ جما رہا کس طرف سے کتنی گولیاں چلی‘ یہ تونہیں کہا جاسکتاتھا لیکن تقریباً تیس منٹ تک یہ فائرنگ ہوتی رہی‘ پھرایک دم سے خاموشی چھاگئی۔ تقریباً پانچ منٹ بعد اِکا دُکا فائر کی آواز آنے لگی۔ میں نے اس طرف توجہ نہ دی‘ بلکہ اب میں حویلی کے عقب میں اس راستے کو دیکھ رہاتھا جو ڈیرے اور حویلی کے درمیان انتہائی مختصر راستہ تھا۔
مجھے پورا یقین تھا کہ وہاں سے ملک سجاد ضرور باہر نکلے گا۔ کیونکہ میں سرداروں کی فطرت سے واقف تھا۔ ان میں سے کسی نے نہیں نکلناتھا۔ ملک سجاد تو آیا ہی مجھے ختم کرنے کے لیے تھا۔ لمحہ لمحہ مجھ پر بھاری ہو رہا تھا۔
اچانک گیٹ کھلااور اس میں سے ہائی ایس ڈالا برآمد ہوا۔ اس کے پیچھے ایک اوربڑی فور وہیل جیپ تھی۔ دونوں تیزی سے آگے بڑھیں اور لمحہ بہ لمحہ آگے آنے لگیں۔
دلبر بائیک سمیت دوسری سمت چھپ چکاتھااورمیں پوری طرح تیار تھا۔ میں نے دونوں پسٹل نکال لیے اور فور وہیل جیپ کی روشنی میں‘ آگے والی گاڑی کے پیچھے ٹائر کا نشانہ لیا‘ جیسے ہی وہ رینج میں آیا میں نے فائر داغ دیا۔ ایک دھماکا ہوا اور ٹائر پھٹ گیا‘ میں نے انتظار نہیں کیا‘ دوسری گاڑی کے ٹائروں کانشانہ لیا‘یکے بعد دیگرے دودھماکے ہوئے۔
گاڑیاں ہچکولے کھاتی ہوئی رک گئیں۔ ان کی ہیڈ لائٹس جلتی رہیں۔ یہی ان سے بہت بڑی غلطی ہوگئی تھی۔ ان کی طرف سے اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی تھی۔ میں ایک پیڑ کے پیچھے تھا‘ فوراً اوپر چڑھ گیا۔ ملگجی روشنی میں ان کے ہیولے دکھائی دے رہے تھے۔ میں ایک دوشاخے پرجم کربیٹھ گیا اور پھر تاک کر ایک ایک کومارنے لگا۔ انہیں اب تک میری پوزیشن کااندازہ اس لیے نہیں ہوپارہاتھا کہ وہ فائر ہونے کی سمت کاتعین ہی نہیں کرپارہے تھے۔
اور میں نے انہی چند لمحوں کافائدہ اٹھانا تھا۔ یہاں پر دلبر نے بہت سمجھداری سے کام لیا‘ اس نے دوسری طرف سے اچانک دوفائر کیے اور اپنی جگہ تبدیل کرلی۔
وہ الجھن کاشکار ہوگئے‘ اچانک ان کی طرف سے فائرنگ ہونا بند ہوگئی۔ اب میرے لیے یہاں ٹکے رہنا بہت خطرناک تھا۔ میں تیزی سے اترااور زمین کے ساتھ لگ کر ساکت ہوگیا۔ چند لمحے یونہی پڑا رہنے کے باعث ان کی طرف سے حرکت ہوئی اور پھر سے اندھا دھند فائرنگ ہونے لگی۔
تب میں نے ایک بڑا رسک لینے کا سوچ لیا۔ میں نے دستی بم کی پن کھینچ لی اور پھر تاک کربم ان کی طرف پھینک دیا۔ چند لمحوں بعد ہی ایک دھماکا ہوا‘ تیز چیخوں کے ساتھ ہی لمحہ بھر میں ایک اور دھماکا ہوگیا۔ آگے والی فور وہیل جیپ پھٹ گئی تھی۔ وہاں تیز روشنی ہوگئی‘ موٹا سا ایک شخص پوری قوت سے بھاگا‘ نجانے کیوں میرے ذہن میں یہ آیا کہ یہی ملک سجاد ہوسکتا ہے۔
میں بھی اس کی تاک میں بھاگا‘ تین چار بندے اس کے ساتھ بھاگ رہے تھے۔ شاید وہی بچے تھے۔ممکن ہے ان کے ذہن میں یہ ہو کہ دوسری گاڑی بھی پھٹ سکتی ہے اور پھر ہوابھی ایسے ہی اچانک ہی ہائی ایس ڈالا گاڑی ایک زور دار دھماکے سے پھٹ گئی۔
میں نے بھاگتے ہوئے ان بندوں پر فائرنگ کرنا شروع کردی۔ اس بار انہیں فائر کی سمت کااندازہ ہوگیا۔ انہوں نے جلدی میں پوزیشن لے لی‘ مگر تب تک میں دو کو ڈھیر کرچکاتھا۔
اب صرف دو بندے تھے۔ ایک وہی موٹا سابندہ اور دوسرا اپنے حلیے ہی سے کوئی گارڈ دکھائی دے رہاتھا۔ میں کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اس گارڈ کانشانہ لے لیا۔جیسے ہی اس موٹے بندے کواندازہ ہوا کہ وہ تنہا رہ گیا ہے‘ اس نے بھاگنا چاہا‘ مگر میں نے اس کی ٹانگوں کانشانہ لیا۔ وہ گر گیا‘ میں نے آخری میگزین بدلااور اس کے قریب چلا گیا۔ میں نے اندھیرے میں اسے سیدھا کیا اور پوچھا۔
”ملک سجاد… اپنی آخری خواہش بتاؤ۔“
”کک…کون ہو تم… “ اس نے لرزتے ہوئے خوف زدہ لہجے میں پوچھا۔
”تمہاری موت…بڑے دعوے کیے تھے ناتم نے…“ میں نے لفظ چباتے ہوئے کہا۔
”میں ہار مانتاہوں‘ میں ابھی یہاں سے چلاجاؤں گا‘باقی تمہاری مرضی…“ اس نے کہا تو میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”جاؤ…! بھاگ جاؤ‘ اگر بھاگ سکتے ہو‘ موت کوئی سزا نہیں ہے‘ جب بھی تمہارے ساتھ کچھ ہوگا‘ تجھے میں یاد آؤں گا‘ جاؤ بھاگ جاؤ…“
اس نے اٹھنے کی کوشش کی‘ مگر نہیں اٹھ سکا‘ اس نے رحم طلب نگاہوں سے میری طرف دیکھااور بولا۔
”مجھے بچالو…“
”نہیں‘ انسان کوبچایا جاتا ہے‘ سانپ کو نہیں… جو برس ہابرس دودھ پلانے والے کوبھی ڈنگ مار دیتاہے… اب تمہاری قسمت ‘میں جارہاہوں…“ میں نے کہااور تیزی سے اس طرف بڑھا جہاں میں نے دلبر کو چھوڑاتھا‘ مجھے اندازہ ہی تھا‘ میں جب وہاں پہنچا تو‘ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ زخمی حالت میں پڑاتھا‘ اندھادھند فائرنگ میں اسے کوئی گولی لگ گئی تھی۔
”دلبر…! اوئے دلبر… ہوش کر…“
”میں…میں…ٹھیک ہوں…“ اس نے بڑے حوصلے سے کہاتو میں نے اسے تیزی سے اٹھالیا‘ اس کی گن نجانے کدھر تھی‘ میں نے بائیک کے پاس پہنچ کر کہا۔
”حوصلہ رکھنا دلبر… اور مجھے پکڑ کر بیٹھے رہنا‘ بس گاؤں تک پہنچ جائیں۔“
”توفکرنہ کر…“ اس نے کراہتے ہوئے کہا‘ میں نے اسے احتیاط سے بٹھایا‘ اور پھر بائیک بڑھادی۔
# # # #