Episode 49 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 49 - قلندر ذات - امجد جاوید

صبح کی روشنی ہر طرف پھیل چکی تھی۔ جسپال اور ہرپریت نے ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی تھی۔ وہ کچھ دیر تک چھت پر رہے پھر نیچے کمرے میں آگئے۔ انوجیت نے کچھ بندے بلوالیے تھے‘ وہی رات بھر پہرہ دیتے رہے۔ انوجیت نے فون پر ہی تھانے میں اطلاع دے دی تھی مگر وہاں سے کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ پھر ان تینوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود تھانے جائیں گے‘ ان کی جیپ رات ہی سے وہیں کھڑی تھی۔
اس وقت میں اپنی کار میں بیٹھ کر نکل رہے تھے‘ کلجیتکورانہیں افسردہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ جسپال نے ایک نگاہ ان پر ڈالی اور پھرہلکے سے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایااور انوجیت کے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تب اس نے کار بڑھادی۔ ان کا رخ تھانے کی طرف تھا۔راستے میں انہوں نے اپنی جیپ کو دیکھا ‘ اس کا اگلا حصہ ہی ڈسٹرب ہواتھا۔

(جاری ہے)

باقی سب ٹھیک تھا۔

وہ تینوں جیپ دیکھتے ہوئے خاموش رہے۔ انوجیت نے کار آگے بڑھالی‘ جبکہ جسپال ان جگہوں کو دیکھنے لگا جو اس کی سمجھ کے مطابق رات اس نے بھاگ دوڑ میں پار کی تھی۔
 عجیب طرح کا تاثر اس کے اندر پھیل گیاتھا‘جس میں غصہ‘ نفرت اور انتقام کی شدت زیادہ تھی۔ وہ اپنے طور پر سوچنے لگا تھا کہ اب اس نے کیا کرنا ہے‘ دشمن تو اس تک پہنچ گیا ہے ‘یہی سوچتے ہوئے وہ تھانے کے گیٹ پر جاپہنچے۔
کار ایک طرف پارکنگ میں لگانے کے بعد وہ تینوں اس پرانی سی عمارت کے اندر چلے گئے۔ انوجیت کومعلوم تھا کہ جس پولیس آفیسر سے ملناہے‘ وہ کہاں بیٹھتا ہے‘ وہ تینوں اردلی کی پروا کیے بغیر کمرے میں چلے گئے۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں چند دن پہلے جسپال آیا تھا لیکن اب وہاں کرسی پر ایک نیا پولیس آفیسر براجمان تھا۔وہ ایک اسمارٹ نوجوان تھا۔ شاید اس کی پہلی تعیناتی ہی یہاں ہوئی تھی۔
اس نے ان تینوں کی طرف غور سے دیکھا‘ اوران کے بیٹھنے سے پہلے ہی بولا۔
”کون ہیں آپ لوگ…اور کیسے آنا ہوا؟“
”آپ کا قصور نہیں آفیسر… لگتا ہے آپ نے پولیس کی نوکری ابھی جوائن کی ہے۔“ جسپال نے کہا اور کرسی پر اس کے سامنے بیٹھ گیا تووہ دونوں بھی ادھر ادھر کرسیوں پربیٹھ گئے۔
”میں سمجھا نہیں اور نہ ہی آپ نے میرے سوال کا جواب دیا ہے۔
“ اس آفیسر نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”رات بھر آپ کو فون کرتے رہے‘ لیکن فون سن لینے کے بعد بھی کوئی ہماری مدد کو نہیں پہنچا۔“ جسپال نے قدرے اکھڑ لہجے میں کہا۔
”رات…“ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔”مجھے اس کا علم نہیں۔“ یہ کہہ کراس نے میز پرپڑی گھنٹی بجائی تو فوراً ہی اردلی آگیا۔ ”ست پال کو بلاؤ۔“
”یس سر…“ یہ کہہ کر اردلی واپس مڑ گیا تووہ جسپال کی طرف دیکھ کر بولا۔
”آپ بتائیں؟“
تبھی جسپال نے انتہائی اختصار کے ساتھ رات والے واقعے کے بارے میں بتادیا۔ وہ بڑے غور سے سنتا رہا پھرجب جسپال کہہ چکاتو اسی دوران ست پال اندر آگیا۔ یہ وہی شخص تھا‘ جس نے جسپال کو فارم بھرنے کے لیے دیاتھا۔ ست پال نے ساری بات سمجھ کر کہا۔
”سر‘ رات تھانے میں ایک بندے کے سوا کوئی دوسرا نہیں تھا۔ وہ اکیلا کہاں جاتا؟“
”لیکن مجھے اب تک بتایا نہیں گیا؟“
”میں بتانے والا ہی تھاجی۔
“ وہ منمناتے ہوئے بولا۔
”ٹھیک ہے‘ ایف آئی آر درج کرو‘ باقی میں دیکھتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ جسپال کی طرف متوجہ ہوکر بولا۔ ”میں ابھی موقع دیکھتا ہوں‘ آپ پلیز…“
اس نے کہا تو جسپال اٹھ گیا۔ انہیں ابتدائی رپورٹ لکھواتے کچھ دیر ہوگئی‘ اس سے فراغت کے بعد وہ وہاں سے چل دیئے۔ وہ سمجھ گئے کہ یہاں مزید رکنا بے کار ہوگا۔
”اب کیا پروگرام ہے‘ ان کاانتظار کرنا ہے؟“ انوجیت نے کار میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ لوگ پتا نہیں کب آئیں گے‘ تو حویلی کی طرف چل‘ دیکھیں کام کتنا مکمل ہوا ہے‘ میں چاہتاہوں کہ جتنی جلدی مکمل ہوجائے اتناہی بہتر ہے۔“
تب انوجیت نے کار کارخ اس طرف کرلیا‘کچھ ہی دیر بعد وہ اس چوک میں پہنچ گئے‘ جس کے ایک کونے میں ان کی حویلی تھی اور وہاں بہت ساری مزدور کام کررہے تھے‘ کچھ ہی دیر بعد ٹھیکیدار ان کے پاس آگیا۔
وہ کچھ دیر کام سے متعلق باتیں کرتے رہے‘ جسپال ابھی وہیں پر تھا کہ اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے اسکرین دیکھی‘ وہ وینکوور سے فون تھا۔ اس نے ریسیو کرکے ہیلو کہاتو دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
”آپ کمپیوٹر کے پاس ہیں؟“
”ابھی تو نہیں ؟“ اس نے جواب دیا۔
”توپھر آپ فوراً کمپیوٹر پر آئیں۔“ دوسری طرف سے کہا گیااور اس کے ساتھ ہی فون بند کردیاگیا۔
اس کے دماغ میں الارم بج گیاتھا۔ سواس نے ٹھیکیدار سے اپنی بات سمیٹی اور واپسی کے لیے مڑ گیا۔
”اتنی جلدی۔“ ہرپریت نے پوچھا۔
”ہاں‘ابھی بتاتاہوں۔“ اس نے دور کھڑے انوجیت کواشارے سے چلنے کا کہااور کار کی جانب بڑھ گیا۔
جس وقت وہ پکی سڑک سے‘ گھر جانے والی کچی سڑک پر آئے تو کچھ پولیس والوں کے ساتھ پولیس آفیسر بھی کھڑا تھا۔
انہیں دیکھتے ہی جسپال نے کہا۔
”انوجیت‘ تم ذراا نہیں ڈیل کرنا‘ میرا گھر پہنچنا ضروری ہے۔“
”ٹھیک ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے کچھ فاصلے پر کار روک دی‘ انوجیت اُتر گیاتو اس نے دڑائیونگ سنبھال لی‘ پھر وہ وہاں نہیں رُکااور سیدھا گھر چلا گیا۔ کار سے اترتے ہوئے اس نے کسی حد تک حیران ہرپریت کی طرف دیکھ کرکہا۔
”تم ایسا کرو‘ چائے کی تیز پیالی بنا کر اوپر میرے کمرے میں آجاؤ‘ فوراً۔
”کیاجُوتی سے نہ کہہ دوں۔ “اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا‘ تب تک وہ اندر کی جانب چل دیاتھا۔
”جوتم مناسب سمجھو۔“ یہ کہتے ہوئے وہ سیڑھیاں چڑھ گیا۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچا‘ لیپ ٹاپ اٹھایااور اسے آن کرکے صوفے پربیٹھ گیا۔ وینکوور سے اس کا خاص دوست جسمیندر سنگھ ڈھلوں آن لائن تھا۔
”ہاں بولو!“ اس نے کہا۔
”تمہیں رویندر سنگھ کے بارے میں معلومات چاہیے تھیں نا۔
”ہاں‘ تو…“ وہ تیزی سے بولا۔
”وہ میں نے تمہیں میل کردی ہیں تصویروں اور نقشوں کے ساتھ… پڑھنے کے بعد ڈیلیٹ کردینا اور باقی میں نے امرتسر میں سارا سیٹ اپ کردیا ہے‘ بس تمہیں وہاں پہنچنے کی تاریخ بتانا ہوگی‘ باقی سارا انتظام وہ کردے گا۔“
”میں آج ہی نکلوں گا‘ اور رات کے کسی پہر وہاں پہنچ جاؤں گا‘ یاممکن ہے شام سے پہلے…“ اس نے جوش بھرے لہجے میں کہا‘ جس میں کافی حدتک غصہ چھلک رہاتھا۔
”توٹھیک ہے‘ میں تمہیں ایک نمبر بھیج دیتاہوں‘ امرتسر جاتے ہی رابطہ کرنا‘ اور اس بندے پرآنکھیں بند کرکے اعتماد کرنا‘ وہ بہت بھروسے مند ہے‘ تم نہیں جانتے اس کی آدھی سے زیادہ فیملی ادھر ہے‘ جسمیندر سنگھ نے اسے پورے اعتماد سے بتایا۔
”ٹھیک‘ بھیجو نمبر…“
”اور ہاں‘ یہ سب کچھ میں نے اسی سے حاصل کیا ہے‘ میرے پاس محفوظ ہے‘ جب چاہے دوبارہ بھیج دوں گا۔
لیکن تم کوئی رسک نہ لینا۔“
”اوکے‘ میں سمجھ گیا۔“ جسپال نے تیزی سے کہا۔ پھر کچھ وقت تک ان میں آپس کی دوستوں اور فیملی کے بارے میں باتیں ہو رہی تھیں کہ ہرپریت آگئی۔ تبھی اس نے اسے اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا تووہ بیٹھ گئی۔ چند منٹوں بعد جسمیندر آف لائن ہوگیا۔ تبھی اس نے اپنا ان بکس کھولتے ہوئے کہا۔
”ہرپریت… میں ابھی کچھ دیر بعد امرتسر جارہاہوں۔
”کیوں‘ اکیلے ہی …“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں‘ اکیلے ہی‘ کیا تم جانا چاہوگی میرے ساتھ…اور جہاں تک کیوں کاسوال ہے‘ وہ تمہیں ابھی بتادیتاہوں۔“
اس وقت تک ان بکس کھل گیا تھااور ایک میل پر اس نے کلک کردیا‘ اگلے ہی لمحے اس کے سامنے ایک صفحہ کھل گیا‘ جس میں تصویروں کے ساتھ رویندر سنگھ کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی تھیں۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط