”اوہ… یہ کیا…“ ہرپریت کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”جان گئی ہو‘ میں امرتسر کیوں جارہاہوں…؟“
”یہ بھی تو دیکھو‘ جسّی‘ اتنا پروٹوکول‘ اتنے باڈی گارڈ‘ اور یہ محل نما گھر… تم یہ سب اکیلے کیسے کرلوگے…“
”واہ گروپر بھروسہ رکھو ہرپریت… سب ہوگا‘ یہی تو کرنے آیا ہوں۔“ اس نے ان تصویروں کوغور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی پوری توجہ اسکرین پر تھی اور اس میں دی گئی معلومات کو ذہن نشین کررہاتھا۔
”توپھر…جسّی…میں تمہارے ساتھ جاؤں گی…“ اچانک ہرپریت نے کہا تووہ چونک گیا۔
”کیاکہاتم نے…؟“وہ کسی حد تک حیرت سے بولا تووہ اس کی طرف دیکھ کر قدرے افسوس بھرے لہجے میں بولی۔
”میں نے کسی غیر زبان میں تو بات نہیں کی۔ میں نے وہی کہا ہے جو تونے سمجھا ہے۔
(جاری ہے)
“
”ہرپریت‘ یہ کوئی بحث نہیں ہے‘ اور میں کسی سیر پرنہیں جارہا‘ نجانے حالات کیسے ہوتے ہیں اور میں …“ اس نے سمجھانا چاہا تووہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
”مجھے یہ بتاؤ جاناکب ہے‘ میں اپنے طور پر تیار ہوجاؤں۔“
”اوکے…! لیکن کلجیت پھو پھوکو تم نے خود جواب دینا ہے‘ میں نے نہیں ۔“ اس نے ایک دم سے کہاتووہ سنے بغیر کمرے سے نکلتی چلی گئی۔ جسپال اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا‘ پھر اسکرین کی طرف متوجہ ہوگیا۔
دوپہر ڈھلنے والی تھی جب وہ اوگی پنڈ سے نکلے۔ کلجیت کور نے انہیں بڑی دعائیں دے کر وداع کیاتھا۔
انوجیت انہیں جالندھر تک چھوڑنے گیاتھا۔ وہاں سے آگے وہ بس کے ذریعے جانا چاہتے تھے۔ وہ تینوں خاموش تھے اور اسی خاموشی میں وہ جالندھر جاپہنچے۔ بس اسٹینڈ پر جب وہ سامان اتار چکے تو جسپال نے انوجیت سے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا۔
”چل اب تو جا‘ شام ہونے سے پہلے پہلے اوگی واپس پہنچ جا‘اپنا اور بے بے کابہت خیال رکھنا۔“
”اور تم بھی…“ انوجیت نے گرم جوشی سے کہا پھر ہرپریت سے ملااور گاڑی میں بیٹھ کر واپس چلاگیا۔
امرتسر جانے والی بس تیار تھی۔
رات کا پہلا پہرختم ہونے کو تھا‘ جب وہ امرتسر پہنچ گئے۔راستے ہی میں اسے جسمیندر کے دیئے ہوئے نمبر پرکال کی تھی۔ وہاں سے ایک لڑکی نے کال ریسو کی۔ وہ اسے جانتی تھی اور بس اسٹینڈ پر ہی ملنے کو کہاتھا۔ وہ بس سے اتر کر اردگرد نگاہیں دوڑا رہے تھے کہ جسپال کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے اسکرین پر وہی نمبر دیکھا اور کال رسیو کرلی۔
تبھی ہیلو کے جواب میں لڑکی نے کہا۔
”آپ نے سیاہ پتلون پر نیلی دھاری والی سفید شرٹ پہنی ہے نا؟ اور ساتھ میں کاسنی رنگ کے …“
”ہاں…ہاں… “ اس نے جواب دیا۔
”تومیں آپ کے بالکل سامنے کھڑی ہوں۔ میں نے سیاہ سوٹ پہنا ہوا ہے‘ سفید شرٹ پر ٹائی…“
”میں نے دیکھ لیا۔“ جسپال نے کہااور سامنے کان کے ساتھ فون لگائے لڑکی کو ہاتھ سے اشارہ کیا‘ وہ ان کی طرف بڑھ آئی اور پھر گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے شستہ انگریزی میں بولی۔
”میں کرن جیت کور‘ آپ مجھے کرن پکار سکتے ہیں۔ امرتسر میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔“ پھر ہرپریت سے ہاتھ ملا کر بہت پیار سے کہا۔ ”بہت خوب صورت ہیں آپ… آئیں چلیں۔“
یہ کہتے ہی وہ کسی روبوٹ کی مانند پلٹی اور پھر چلتی چلی گئی‘ وہ اپنا سامان اٹھا کر کچھ فاصلے پر کھڑی فوروہیل جیپ میں جابیٹھے ‘ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک صحت مند نوجوان بیٹھا ہوا تھا‘ جس کا صاف رنگ‘ تیکھے نقوش‘ کلین شو‘ اور چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔
کرن اور ہرپریت پچھلی نشست پربیٹھ گئیں۔ جسپال پسنجر سیٹ پربیٹھ گیا تو اس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”کمل ویرسنگھ ہوں‘ آپ میرے پاس ہی آئے ہیں۔“
جسپال نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”مطلب‘ آپ میزبان ہیں۔“
”جی اور کرن مجھ سے بھی بڑھ کر آپ کی میزبان ثابت ہوگی۔“ اس نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا پھر بیک مرر میں ہرپریت کی طرف دیکھ کر بولا۔
”آپ ہرپریت ہیں نا…“ یہ کہتے ہوئے اس نے گیئر لگادیا۔
”ہاں‘ کیاتم جانتے ہو مجھے…؟“ اس نے پوچھا۔
”ابھی کچھ دیر پہلے جسمیندر نے بتایاتھا‘ خیر‘ اچھا ہے‘ میری اور کرن کی موجودگی میں جسپال کو بوریت نہیں ہوگی۔“ اس نے اشارے میں کہااور پھر ہلکا سا قہقہ لگا کر ہنس دیا پھرجسپال سے مخاطب ہو کر بولا۔ ”وہ سب کمپیوٹر سے صاف کردیاتھا نا۔
“
”بالکل اور ہم نے کب …“ وہ کہنا چاہ رہاتھا کہ کمل ویر نے کہا۔
”یہ باتیں ہم گھر جاکرکریں گے‘ ابھی تو آپ امرتسر کو سمجھئے اور اسے دیکھنے کی کوشش کریں‘ بڑا تاریخی شہر ہے۔“
”کیاتم نہیں سمجھتے ہو؟“ جسپال نے پوچھا۔
”میں تو نہ جانے کب کا سمجھ چکا‘ اگر فقط میں نے ہی سمجھنا ہوتاناتو آپ کو یہاں بلانے کی ضرورت کیا تھی۔
“ اس کے لہجے میں گہری سنجیدگی تھی۔
”چلیں گھر جاکر سمجھ لیتے ہیں۔“ اس نے کہااور خاموش ہوگیا۔
کمل ویر تیزی سے جیپ بھگائے لیے جارہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ ایک پوش علاقے میں تھا۔ وہاں جدید طرز پر گھربنے ہوئے تھے۔ یوں دکھائی دے رہاتھا کہ جیسے یہاں امیر طبقے کے لوگ ہی رہائش پذیر ہیں۔ پھرایک موڑ مڑنے کے بعد کمل ویر نے کہا۔
”جسپال‘غور سے دائیں طرف دیکھو‘ رویندر سنگھ کا گھر پہچان لوگے نا۔
“
”ہاں‘ وہ رہا سامنے…“ اس نے ایک گھر پر نگاہ ٹکاتے ہوئے کہاتوکمل ویربولا۔
”ایک نظر ہی دیکھ پاؤگے… ہم نے یہاں رکنا نہیں۔“
”اوکے…!“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا‘ لیکن اس کے اندرایک طوفان اٹھ کھڑا ہواتھا۔ اس کا دل چاہ رہاتھا کہ ابھی اترے اور دندناتا ہوا اندر گھس جائے‘ سامنے ہی کہیں رویندر سنگھ ملے اور وہ اپنے پسٹل کی ساری گولیاں اس کے بھیجے میں اتار دے۔
مگر یہ محض خیال تھا‘ اس نے اپنا سر جھٹکا اور سامنے دیکھنے لگا۔
”جسپال جی…! جو دل چاہے کرنا‘ ہم بھی یہیں اور یہ بھی یہیں۔“ کمل ویر نے اس کے ہاتھ پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ تب وہ دھیرے سے مسکرادیا۔
اس پوش علاقے سے نکلنے کے بعد‘ کچھ دیر بعد وہ ایک ایسے علاقے میں جاپہنچے‘ جہاں ابھی اتنی آبادی نہیں ہوئی تھی۔ بڑے بڑے گھر تھے‘لیکن ابھی کئی زیر تعمیر تھے۔
ایک ہوکاعالم تھا‘ چاندنی کے ساتھ برقی قمقموں سے بہت حد تک روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ایک قلعہ نما گھر کے سامنے رک گئے‘ جلد ہی گیٹ کھول دیا گیا تو جیپ سمیت پورچ میں جارکے۔
”یہ لیں جی‘ ہمارا گھر آگیا۔“کمل ویر نے کہااور اتر گیا۔ وہ سب بھی اتر کر اندر کی جانب چل دیئے۔ پہلے پہل تویوں لگا جیسے ان کے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں‘ پھردھیرے دھیرے کچھ ملازم اور ملازمائیں نظر آنا شروع ہوگئیں‘ جولفظوں سے زیادہ اشارے سمجھتے تھے۔
”یہاں کسی قسم کابھی تکلف نہیں‘ آپ اپنے کمرے سے ہوآئیں‘ پھر ڈنر کرتے ہیں۔“
جسپال نے سرہلایاتوکرن انہیں لے کر کمرے کی طرف چلی گئی۔ شاہانہ انداز میں سجایا گیا کمرہ ان کامنتظر تھا۔
”کیسالگا تمہیں کمل اور کرن…مطلب… ڈبل کے…“ہرپریت نے ایک صوفے پربیٹھتے ہوئے کہا۔
”اچھا…بہت اچھا…باقی اس کاکام دیکھ کر…“ جسپال نے محتاط انداز میں کہااور پھر واش روم کی جانب بڑھ گیا۔
نہایت پرتکلف ڈنر کے بعد جب برتن اٹھائے جانے لگے تووہ چاروں ڈرائنگ روم میں آگئے۔ کمل ویر نے اپنالیپ ٹاپ کھول لیا پھر ویسی ہی معلومات کاصفحہ نکال کربولا۔
”یہ ہے رویندر سنگھ کا گھر… آج وہ یہاں نہیں دہلی میں ہے‘ لیکن اس کاپُتر… ہردیپ سنگھ آج ادھر ہی ہے ‘ورنہ یہ اپنے باپ کے ساتھ ہی ہوتا ہے‘ اس کی پتنی اور بیٹا بھی یہیں ہیں۔
ابھی ہم یہاں سے کچھ دیر بعد نکلیں گے۔“
”واؤ…ابھی…“ ہرپریت کے منہ سے بے ساختہ نکلا تو کمبل اور کرن نے چونک کر اس کی طرف دیکھا‘ پھر چند لمحے دیکھتے رہنے کے بعد وہ پھراسکرین پردیکھ کربولا۔
”یہ اس کے گھر کانقشہ ہے۔“ پھر ایک جگہ نشاندہی کرکے بولا۔ ”یہاں سے ہم نے اندرجانا ہے‘ ہمارے لیے جو سب سے اچھی بات ہے وہ یہ کہ اس عمارت میں کتے نہیں ہیں۔
ہردیپ سنگھ کو کتے پسند نہیں ہیں‘ اس لیے اس نے اپنی سیکیورٹی پربندے زیادہ لگائے ہوئے ہیں۔ یہ عمارت میں داخل ہونے کا بہترین پوائنٹ ہے۔“ اس نے ماؤس کے تیر سے ایک جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ۔پھر اس کے ساتھ ہی وہ پلان کی تفصیلات بتانے لگا جسے چند منٹ تک سبھی نے خاموشی سے سنا‘ تبھی جسپال نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”توپھر کب چلنے کاارادہ ہے ؟“
”بس ابھی کچھ دیر بعد…! مجھے ایک فون کال کاانتظار ہے۔
“ کرن نے کمل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اوکے…!“ وہ گرن ہلاتے ہوئے بولا تو ہرپریت اٹھ کر اندر چلی گئی۔چند منٹ تک ان میں خاموشی رہی پھر بوریت سے اُکتاتے ہوئے جسپال پلان کے مختلف پہلوؤں پربات کرنے لگا۔ اتنے میں ہرپریت پلٹ آئی۔ اس نے بلیو جین اورسیاہ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی‘ اپنی زلفیں کس کر پونی کی صورت میں باندھ لی تھیں۔ ٹی شرٹ کے اوپرا س نے ایک جیکٹ پہنی تھی جو سلیولیس تھی۔ پاؤں میں گرے جاگر‘ وہ پوری طرح تیار دکھائی دے رہی تھی۔ سبھی نے ایک نگاہ اسے دیکھا‘ ممکن نے کوئی تبصرہ ہوتا لیکن ایسے میں کرن کا فون بج اٹھا۔ ہیلو کے بعد وہ کچھ دیر سنتی رہی‘ پھر اوکے کہہ کر فون بند کردیا۔