Episode 54 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 54 - قلندر ذات - امجد جاوید

”ٹھیک ہے وہ آجائیں تو لکھوادینا رپورٹ۔“ وہ یہ کہتا ہوا واپس مڑگیا۔میں نے اس کی پروا نہیں کی۔ سبھی اپنا اپنا خون ٹیسٹ کروانے چل دیئے تھے لیکن ہمارا ایک دوست موٹر سائیکل لے کر ہسپتال سے باہر چلاگیا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اچانک کیوں نکلا ہے۔
مشرقی افق پر سرخی نمودار ہونے کو تھی‘ جب پوری کوشش کے باوجود دلبر کا سانس اکھڑنے لگا۔
میرا وہ دوست جو اچانک نکلاتھا‘ وہ ایک کار لے کر آگیا تھا‘ اس کا کوئی دوست قصبے میں تھا‘ ڈاکٹر پوری تندھی کے ساتھ اس کی زندگی بچانے میں مصروف تھا‘ خون بھی دستیاب ہوگیاتھا‘ لیکن دلبر کی سانسیں قابو میں نہیں آرہی تھیں۔ اچانک اس کے جسم کے سارے روم کھل گئے تھے‘ ایک ایک روم کانٹے کی مانند کھڑا ہوگیا‘ اور پھر اس کی گردن ایک جانب ڈھلک گئی۔

(جاری ہے)

میرے اندر دکھ کی ایک شدید لہر سرایت کرگئی۔ مجھے وہ جیتاجاگتا دلبر یاد آنے لگا جس نے کچھ ہی دیر قبل آگ اور خون کی ہولی کھیلی تھی‘ میری آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے۔
”سوری یار…!“ ڈاکٹر نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر۔آپ نے بہت کوشش کی‘ لیکن اس کی زندگی نہیں تھی۔“
میں نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا تو ایک بار پھر سے میرا کاندھا تھپکا کر ڈاکٹر چلاگیا۔
ہم نے انتہائی دکھ سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا‘پھرمیں چھاکے کو اس کی نعش اٹھانے کا اشارہ کرکے باہر نکلتا چلاگیا۔
اس وقت سورج نکل چکاتھا جب ہم گاؤں نور نگر واپس پہنچے۔ دلبر کے مرجانے کی اطلاع آناً فاناً پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ ہم نے جس وقت میت ان کے گھرجاکر ر کھی تو ایک کہرام مچ گیا۔ میرے کپڑوں اور بدن پرخون جم کررہ گیاتھا‘ میں نے چھاکے کو اشارہ کیا اور گھر سے باہر نکل آیا۔
”بولو‘ کیابات ہے۔“ اس نے میرے قریب آکر پوچھا۔
”اس کی آخری رسومات کا اچھی طرح انتظام کرو‘ رقم ہے کچھ…“
”ہاں ہے…“ اس نے جواب دیا۔
”میں کپڑے بدل کرآتاہوں۔ رات کے واقعہ کی سن گن لے‘ ملک سجاد کومیں نے رات شدید زخمی کردیاتھا۔ اب معلوم نہیں ‘ وہ کدھر ہے۔“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
”اس کابھی پتا چل جائے گا‘ تم جاؤ اور جلدی سے واپس آجاؤ۔
“ چھاکے نے کہاتومیں نے اپنی بائیک لی اور گھر کی طرف چل دیا۔
گیٹ کھلا ہواتھا اور میں بائیک سمیت اندر چلاگیا۔ صحن کے ایک کونے میں بائیک کھڑی کی اور لاشعوری طور پر ماں کو دیکھنے لگا‘وہ مجھے کہیں دکھائی نہیں دیں۔ میں نے دل ہی دل میں اسے اچھا خیال کیا کہ یوں خون میں لت پت کپڑے دیکھ کر ممکن ہے وہ گھبراجاتیں‘ اگرچہ ایسا کبھی ہوا نہیں تھا کہ ماں صبح ہی صبح کسی کے گھر جائے‘ ممکن ہے دلبر کا سن کر کہیں آس پڑوس میں چلی گئی ہوں۔
میں نے جلدی سے نہانے اور کپڑے بدلنے کی سعی کی‘ تاکہ جب تک ماں آئے میں ان کپڑوں سے نجات لے لوں‘ میں نے الماری سے کپڑے نکالے اور باتھ روم میں گھس گیا‘ کچھ دیر بعد میں نہا دھو کر تازہ دم ہوگیا۔ اس وقت میں آئینے کے سامنے کھڑا کنگھا کررہاتھا‘ جب چھاکا گھر میں داخل ہوا۔
”تو کیوں آگیا ہے۔ میں ابھی آہی رہاتھا۔ “ میں نے اونچی آواز میں کہا اور کنگھا رکھ دیا۔
”وہ رندھاوا صاحب آئے ہیں۔“ وہ دور ہی سے بولا اورباہر والا کمرے کھولنے چلاگیا۔ میں بھی وہیں چلاگیا۔ کچھ دیر بعد چھاکاباہر جاچکاتھا اور ہم دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
”یار…! رات کمال کردیاتونے۔ اتنی جلدی کردیاسب کچھ… میں تو سوچ رہاتھا کہ دوچار دن لگ جائیں گے۔“
”بس دیکھ لیں‘ قسمت نے یاوری کی ہے … مجھے دلبر کابہت افسوس ہے‘ وہ رات میرے ساتھ تھا۔
“میں نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا۔
”خیر…! یہ تو قسمت کی بات ہے‘ اب سن‘ وہ شدید زخمی ہے اور اسے شہر لے گئے ہیں۔ اب پتا نہیں اس کا کیا بنا ہے۔ رات میری شاہ دین سے بات ہوگئی تھی‘ اس نے سارا وقوعہ ہی الٹ دیا ہے اور نامعلوم ڈکیتوں پرڈال دیا ہے۔ یہی کچھ تم نے کہا۔“
”توپھر…! “ میں نے پوچھا۔
”پھرکیا… وہ سب تو یہاں نہیں ہیں‘ شاہ دین بھی بہت ڈرا ہوا ہے‘ ہوسکتا ہے وہ آج دن میں کسی وقت یہاں سے چلا جائے‘ شاہ زیب کافی نڈر ہے‘ میں نے اس کی طرف سے شک وشبہ لے لیا ہے۔
پیرزادوں کے خلاف‘ آج ان کی پکڑ دھکڑ کروں گا۔“
”ملک سجاد سے کوئی بات نہیں ہوسکی‘ مطلب ‘ آپ نے اسے دیکھابھی نہیں۔“ میں نے پوچھا۔
”نہیں نا…خیر…! تم اپنا بیان دے دو… میں وقوعہ کا وقت اس سے پہلے لکھ دوں گا‘ جوانہوں نے لکھوایا ہے۔ اب دوچار دن کچھ نہیں کرنا‘ بس پیرزادوں کی پکڑ دھکڑ ہوگی تووہ تڑپیں گے‘ دو دن بعد میں تمہیں بتاؤں گا کہ اب گیم کیا بنی ہے۔
”لیکن ملک سجاد مرانہیں ہے نا… اس کامجھے افسوس رہے گا۔“ میں نے جان بوجھ کر کہا۔
”اوئے اچھا ہے یہ… زخم چاٹے گا۔ اور ادھر نورنگر میں دلبر کا قتل بھی پیرزادوں کے کھاتے میں ڈالنے کی افواہ پھیلانی ہے۔ بس… باقی دو دن بعد…“ رندھاوے نے سمجھاتے ہوئے کہااور پھر اٹھتے ہوئے بولا۔ ؟”اب چلتا ہوں… ادھر آکر اپنا بیان لکھوادینا۔
”کوئی چائے وائے تو…“ میں نے پوچھا۔
”پھر کبھی سہی۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے نکل گیا۔میں وہیں بیٹھا چند لمحے اس صورت حال پر غور کرتا رہا‘ پھر اٹھ کرباہر صحن میں آگیا۔ میرے پیٹ میں بھوک نے ہلچل مچائی ہوئی تھی لیکن اماں ابھی تک واپس نہیں آئی تھی۔ بھیدے نے ابھی تک دودھ بھی نہیں پہنچایا تھا۔ میں گرم ہوتے ہوئے دماغ کے ساتھ باہر جانے کے لیے بائیک نکالی‘ تبھی سامنے گھر والی ماسی مختاراں تیزی سے اندر آئی وہ خاصی گبھرائی ہوئی تھی۔
”اُو جمالے…کدھر جارہا ہے…؟“
” دلبر کے گھر‘ کیوں خیر تو ہے‘ اتنی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔“
”اب پتا نہیں‘ اس بات پر پریشان ہونا چاہیے یانہیں‘ لیکن رات کے پچھلے پہر‘ ایک بڑی ساری جیپ ادھر آکر رکی تھی‘ میں اس وقت جاگ رہی تھی۔ تمہاری ماں نے دروازہ کھولاتھا‘ وہ جیپ باہر ہی کھڑی رہی۔
”پھر…!“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”کچھ دیر بعد‘جب حویلی کی طرف شدید فائرنگ ہوئی تھی‘ اس وقت تیری ماں اور وہ لڑکی‘ جو چند دن پہلے تیرے پاس آئی تھی‘ وہ جیپ میں بیٹھ کر چلی گئیں۔“
”کیاکہہ رہی ہو ماسی تم…“ میں نے تقریباً چیختے ہوئے کہا تووہ ایک دم سے گھبراگئی‘ پھرتیزی سے بولی۔
”میں نے پوچھا تھا کہ اچانک اس وقت کہاں جارہی ہو؟“
”پھر کیاکہا…“میں نے بائیک سے اترتے ہوئے پوچھا تو اس نے ہاتھ میں ایک مڑا تڑا کارڈ میری طرف بڑھایا اور بولی۔
”اس لڑکی نے کہاتھا کہ یہ کارڈ جمال کو دے دینا۔ یہ لو…“
میں نے وہ کارڈ تیزی سے پکڑا‘ اس پر کسی ڈانس پارٹی کاپتہ درج تھا۔ پشت پر ایک سیل فون نیلے رنگ کی بال پن سے گھسیٹا ہوا تھا‘ مجھے ایک دم سے اپنی دنیااندھیر ہوتی ہوئی معلوم ہوئی‘ ایک طرف مجھے اپنی ماں پرغصہ آرہاتھا کہ وہ مجھ سے پوچھے بغیر کیوں چلی گئی‘ اور دوسری طرف میں سوہنی کی اس حرکت پرپاگل ہو رہاتھا‘ میں ایک دم سے باہرجانے کے لیے لپکاکہ اچھو کریانے والے کی دُکان پرجاکر سوہنی کوفون کروں لیکن پھر ٹھٹک گیا‘ کیامجھے ایسا کرنا چاہیے یانہیں؟ماسی مختاراں واپس جاچکی تھی۔
میں سمجھ نہیں پارہاتھا کہ سوہنی نے ایسا کیوں کیا؟میرا دماغ ایک دم سے ماؤف ہوگیاتھا۔
# # # #
یہ خوف بھی عجیب شے ہوتی ہے۔ جس شخص کے اندر وارد ہوجائے‘ اس کے دشمنوں کو مزید شہہ دینے کا فائدہ دے دیتا ہے۔کیونکہ خوف کا اظہار چہرے ہی سے نہیں عمل سے بھی ظاہر ہوتا ہے اور دشمن اس کافائدہ اٹھا لیتا ہے‘ یہی خوف اگر نہ رہے تو دشمن پر فتح کی طرف آخری قدم تک حوصلہ برقرار رہتا ہے اورپھر محض خوف کاتاثر کبھی کبھی منافقت کو بے نقاب کرنے میں انتہائی مدد دیتا ہے۔
منافق فقط اس وقت شہہ پکڑتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ جس کے بارے میں وہ محض ‘ عناد کے ساتھ سازش تیار کررہا ہے‘ وہ خوف زدہ ہے‘ خوف زدہ ہونے کا یقین ہوتے ہی وہ کھل کر اپنی پوری خباثت کے ساتھ سامنے آجاتاہے‘ کیونکہ منافق بنیادی طور پر بزدل ہوتا ہے‘ بزدلی ہی کمینگی کوشہہ دیتی ہے۔
جسپال نے ایک دم سے محسوس کیا کہ کمل ویر انجانے میں اسے خوف زدہ کرتا چلا جارہا ہے۔
وہ پورے خلوص کے ساتھ اسے بچانے کے چکرمیں کچھ زیادہ ہی محتاط ہوگیاتھا۔ وہ کھانا کھاچکے تھے‘ جب رات کا آخری پہر شروع ہوگیا تھا۔ اس وقت تک کمل ویر نے ایک ٹیکسی کابندوبست کرلیاتھا۔ جس کاڈرائیور اس کا اپنا خاص آدمی تھا۔ 
”میں سوچ کر تو یہی آیاتھا کہ کافی دن رہوں گا‘ لیکن کام جلدی ہوگیا‘ میں جلدی آؤں گا دوبارہ۔“ جسپال نے کمل ویر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”میں انتظار کروں گا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ کو دبایا پھر اس نے کرن سے ہاتھ ملایااور ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور ادھیڑعمر کا اور کافی حد تک سانولے رنگ کا سکھ تھا جس کی داڑھی خشخشی ہوچکی تھی۔
رات گہری ہوچکی تھی اور چاند مغربی افق کی جانب جھک گیاتھا۔ جب وہ امرتسر سے نکلے‘ ہر پریت پچھلی نشست پر تھی اور جسپال آگے پسنجر سیٹ پر‘ اس نے پسٹل پاؤں میں رکھا ہوا تھا۔
ڈرائیور نے کوئی بات نہیں کی تھی۔ اس کی شکل ہی سے لگ رہاتھا کہ وہ خاموش طبع بندہ ہے۔ اس کی تمام تر توجہ سڑک پر تھی۔ جسپال کو بھی یہ احساس تھا کہ صرف شہر سے ہی نکلنامشکل ہوگا‘ پھر آگے انہیں آسانی ہوگی۔ سڑک پر اتنا رش نہیں تھا ‘جیسے جیسے وہ شہر سے باہرجارہے تھے‘ رش کم ہوتاچلاجارہاتھا اوران کی رفتار تیز ہوتی جارہی تھی۔ اچانک ڈرائیور نے رفتار کم کردی‘کچھ ہی فاصلے پر ناکہ لگا ہوا تھا‘ تبھی ڈرائیور نے کہا تھا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط