”صاحب گھبرانا نہیں‘ میں سب سنبھال لوں گا۔“
”اوکے …!“ جسپال نے اس سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کیا‘ وہاں پر چند پولیس والے ہی تھے۔ یوں جیسے معمول کے مطابق ہی ناکہ لگاہو۔ ڈرائیور نے ان کے قریب جاکر گاڑی روک دی۔ تبھی ایک پولیس والا آگے بڑھااور ٹیکسی کے اندر جھانکتے ہوئے بولا۔
”کدھر سے آرہے ہو اور کدھر جارہے ہو؟“
”ایئرپورٹ سے…ترن تارن جارہے ہیں صاحب جی۔
“ ڈرائیور نے معمول کے مطابق کہا۔
”مطلب فارن کی سواریاں نا…“ اس نے معنی خیز انداز میں کہاتو ڈرائیور جلدی سے باہر نکل گیا۔ وہ سپاہی بھی اس کی جانب چلاگیا۔ ٹیکسی کے پیچھے چند لمحے کھڑے رہنے کے بعد وہ واپس آیا‘ ٹیکسی ویسے ہی اسٹارٹ تھی‘ اس نے گیئر لگایا اور چل دیا۔
”یہ ہے جی ہماری پولیس کا حال‘ چند نوٹ میں چاہے جو مرضی کرلو… ادھر میڈیا پر آگ لگی ہوئی ہے اوران کاسکون دیکھو۔
(جاری ہے)
“ ڈرائیور نے اپنے طو رپر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔ پرجسپال نے کوئی جواب نہیں دیاتھا۔ پھروہ بھی خاموش ہوگیا۔
اس وقت سورج نکل رہاتھا‘ جب وہ نکودر شہر میں داخل ہوگئے۔ جسپال کے ذہن میں تھوڑا بہت ایڈووکیٹ گل کے گھر کا آئیڈیا تھا‘ لیکن ہرپریت اس بارے میں جانتی تھی۔ پھر ایک جگہ اس نے ڈرائیور سے کہا۔
”ہمیں یہیں اتار دو۔“
ڈرائیور نے اتناہی سنااورسڑک کے کنارے گاڑی لگادی۔
جسپال نے جیپ میں ہاتھ ڈال کر چند بڑے نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”یہ لو… اسے کرایہ…“
”نہیں صاحب…! مجھے سب کچھ مل گیا ہے‘ آپ جائیں۔“ اس نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اوکے …! مل گیا ہوگا ،لیکن یہ تمہارا ناشتہ ہے جو ابھی میں نے تمہیں کروانا تھا“ جسپال نے نوٹ اس کی جیب میں رکھتے ہوئے کہااور گاڑی سے اتر گیا‘ ہرپریت پہلے ہی اتر چکی تھی۔
ٹیکسی ڈرائیور چلاگیاتو ہرپریت نے ایڈووکیٹ گل کانمبر ملایا۔ کچھ ہی دیر بعد فون ریسیو کرلیا گیا۔
”انکل جی‘ میں ہرپریت…یہاں نکوور میں…جی آکر بتاتے ہیں نا…ہاں میرے ساتھ جسپال بھی ہے۔ جی…آجائیں۔“ یہ کہہ کر وہ وہاں کی لوکیشن بتانے لگی۔ فون بند کرکے اس نے جسپال کو دیکھا جوغیر محسوس انداز میں اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔زیادہ وقت نہیں گزراتھا کہ ایڈووکیٹ گل کی گاڑی ان کے پاس آن ٹھہری‘ وہ پھر اسی ترتیب سے بیٹھ گئے۔
تبھی گیئر لگاتے ہوئے گل نے پوچھا۔
”اچانک…؟“
”امرتسر سے آرہے ہیں؟“ ہرپریت بولی۔
”کیوں…؟“ وہ چونکا۔
”رویندر سنگھ کے پتر‘ ہردیپ کو قتل کرکے…“ وہ دھیرے سے بولی۔
”اوہ…! تو وہ تم لوگ تھے…“ اس نے حیرت بھرے لہجے میں بات پوری نہ کی۔
”ہاں…! ہم آپ کے پاس آئے ہیں‘ کل شام کے‘ اپنے قانونی مشوروں کے لیے‘ وہ آپ ہمیں بتادیں۔
“ جسپال نے کہاتووہ سرہلاتے ہوئے سمجھ گیا۔
”مجھے تم پر قاتلانہ حملے اور پولیس کے رویے کے بارے میں پتا چل گیاتھا‘میں نے اپنے طور پر تیاری کرلی تھی‘ اور کچھ معلومات بھی آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہ رہاتھا‘ اچھاہوا آپ لوگ آگئے۔“ گل نے سوچتے ہوئے بتایا۔”یہ جو نیا پولیس آفیسر ہے نا‘ یہ اے سی پی رن ویر سنگھ ‘ یہ پولیس کی اسپیشل برانچ سے یہاں تعینات ہوا ہے‘ ابھی سروس کو دو یاتین سال ہوئے ہیں‘مگر ڈیپارٹمنٹ میں ”معصوم سانپ“ کے نام سے مشہور ہوچکاہے۔
یہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اندر سے کتنا ظالم ہے‘خیر…! اسے یہاں اس لیے لگایا گیا ہے کہ کمیشن کے دوبندے غائب ہوگئے‘ ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ہے‘ یہاں تک کہ جس کے لیے کمیشن بناتھا‘ ان بندوں تک کاپتہ نہیں چلا۔“
”پھر تو اب تک وہ ہمارے گھر پہنچ چکاہوگا۔“ ہرپریت نے تشویش سے کہااور انوجیت کے نمبر ملانے لگی۔
”نہیں‘ ابھی وہاں نہیں پہنچا‘ میری انوجیت سے بات ہوگئی ہے‘ جب تمہارا فون آیا تھا۔
“ گل نے تیزی سے کہا۔ تب تک ہرپریت کا رابطہ ہوگیا‘ اس نے اسپیکر آن کردیا۔
”ہاں بول ہرپریت…“
”ہم انکل گل کے ساتھ ہیں‘ کوئی پرابلم تو نہیں وہاں۔“
”کوئی نہیں‘ بہرحال تم لوگ میرے آنے تک ادھر ہی رہنا۔ اکھٹے ہی تحصیل چلیں گے۔“ انوجیت نے کہااور فون بند کردیا۔ اس پرہرپریت قدرے پریشان ہوگئی۔ اس نے اچانک فون بند کردیاتھا‘ جس کااظہار اس نے کیا تو گل بولا۔
”اوئے پتر…! واہ گرو مہرکرے گا‘ تم دل چھوٹا مت کرو۔“
”اس کالہجہ…“ وہ بولی۔
”او میں پتہ کرلیتاہوں‘ بس گھر جانے کی دیر ہے‘ سکون سے پوچھتا ہوں۔“ گل نے کہااور گلی میں گاڑی موڑ دی۔ اس کا گھر اسی گلی میں تھا۔
گھر پہنچے تو ناشتہ تیار تھا۔ مسز گل نے میز سجایاہواتھا۔ وہ فریش ہو کر آئے تو ناشتے کی میز پر وہ تینوں تھے۔
گل نے اپنی مونچھوں کوتاؤ دیااور بڑے نرم لہجے میں بولا۔
”سب سکون‘ سکھ اور شانتی ہے‘ فکر کی ضرورت نہیں‘ میں نے پتا کرلیا ہے۔“
”ٹھیک ہے انکل‘ ہمیں آج تحصیل آفس میں کیا کرنا ہوگا۔“ہرپریت نے پوچھا۔
”کچھ نہیں‘ بس وہاں حاضری ڈالنی ہے‘ ادھر ادھر پھرنا ہے‘ ایک دو آفیسرز سے مل لیں گے اور بس۔“ گل نے پرسکون لہجے میں کہااور ناشتے کی طرف اشارہ کیا۔
ناشتے کے دوران وہ باتیں کرتے رہے‘ گل نے انہیں وہ سب سمجھادیا جو وہ انوجیت سے طے کرچکاتھا۔ تاکہ سبھی کابیان ایک جیسا رہے‘ وہ ناشتہ کرچکے تو گل نے کہا۔”اب دو ڈھائی گھنٹے آرام کرلو‘ تب تک انوجیت بھی آجائے گا۔“
”اوکے انکل۔“ ہرپریت نے کہا تو جسپال بھی اٹھ گیا۔
ان دونوں کے لیے ایک ہی کمرہ تھا جو گیسٹ ہاؤس قسم کا تھا۔ الگ تھلگ اور پرسکون۔
ہرپریت نے انوجیت کو ایس ایم ایس کردیاتھا کہ آتے ہوئے ان کے کپڑے لے آئے۔ اتنی دیر میں جسپال نے جاگر اتار کرپھینکے اور بیڈ پر لیٹ گیا۔ ہرپریت اس کے ساتھ دوسری جانب لیٹ گئی۔ تب جسپال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یار ہرپریت …! کہیں تم میرے ساتھ آکر پچھتاتو نہیں رہی ہو؟“
”یہ خیال تمہیں کیسے آیا۔“ وہ کافی حد تک غصے میں بولی۔
”یہی‘ اتنی بھاگ دوڑ…یہ خون قتل وغارت …“ اس نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔
”ابھی تویہ کچھ بھی نہیں ہے جسی جی‘ ابھی تو شروعات ہیں…“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو جسپال نے ایک دم موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”یہ تمہارا مجھے جسّی کہنا بہت اچھا لگتا ہے‘ کیامیں بھی تمہیں ‘پریتو‘ پریتی یا…“
”پریتے…“ اس نے بات کاٹتے ہوئے ایک دم سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تووہ سنجیدگی سے بولا۔
”برامان گئی ہو…؟“
”نہیں…نہیں…جسی جی نہیں‘تم جو کہو…“ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
”توپھرٹھیک ہے‘پریتی…“یہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں پیار بھرا خلوص مہک اٹھا تھا۔ جس سے ہرپریت اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کودیکھتے رہے‘ پھر جسپال نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ” سوجاؤ…! تم کافی تھک چکی ہوگی۔“
”تمہیں نیند آجائے گی کیا؟“ ہرپریت نے دھیرے سے پوچھا۔
”کہتے ہیں کہ نیند سولی پربھی آجاتی ہے اور تم تو پھولوں جیسی ہو۔
“ جسپال نے خمار آلود لہجے میں کہا تو وہ کروٹ لے کر دوسری جانب دیکھنے لگی‘ جسپال نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھااور پھراس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا… نجانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔ وہ نیند میں ڈوب گیا۔
ان کی آنکھ فون کی آواز پر کھلی۔ وہ انوجیت کافون تھا‘وہ آچکاتھا اور گل ایڈووکیٹ کے پاس ڈرائنگ روم میں تھا۔ ہرپریت اس کے پاس جاکر کپڑے لے آئی اور پھرتیار ہو کر ان کے پاس ڈرائنگ روم میں آگئی۔
جسپال اس سے پہلے ان کے پاس تھا۔ کچھ دیر تفصیلی باتوں کے بعد وہ تحصیل چل پڑے۔ جہاں وہ دوپہر تک رہے‘ پھر وہیں سے وہ اوگی پنڈ کی طرف چل پڑے‘ دوپہر ہوچکی تھی‘ جب وہ اپنے گھر پہنچے‘ وہاں اچھی خاصی سیکیورٹی تھی۔ اعلان ہو رہاتھا کہ اسی گاؤں میں آکر رویندر سنگھ کے بیٹے ہردیپ سنگھ کی آخری رسومات ادا کی جائیں گیں۔ ظاہر ہے‘ اس پر بہت وی آئی پی لوگ آنے والے تھے۔
پولیس کی بھاری نفری ادھر ادھر پھررہی تھی۔ تاہم کسی نے انہیں نہیں روکاتھا‘ اور وہ سکون سے گھر پہنچ گئے۔ ان کے آنے کے بارے میں کلجیت کور کوپہلے ہی سے خبر تھی۔ اس لیے ان کے آتے ہی کھانے کی میز سج گئی۔ پھر کھاپی کر جب وہ سکون سے بیٹھے تو کلجیت کور کو انہوں نے پوری روداد سنائی۔ انوجیت اور وہ چپ چاپ سنتے رہے‘ جب وہ ساری بات سن چکی تو بولی۔
”تھانے سے ایک بندہ دوبار جسپال کے بارے میں پوچھنے آیاتھا۔ اور میں نے دونوں بار نکودر کے بارے میں بتایا ہے۔“
”اس نے بتایانہیں کہ وہ کس مقصد کے لیے پوچھ رہا ہے؟“ انوجیت نے تیزی سے پوچھا۔
”میں نے خود نہیں پوچھا‘ اس سے‘ یہیں سے کہلوادیا‘ میں سامنے ہی نہیں گئی‘ انہیں شک ہے تووہ جسپال کاپوچھ رہے ہیں۔“ کلجیت کور نے کہاتو جسپال نے انوجیت سے پوچھا۔