Episode 60 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 60 - قلندر ذات - امجد جاوید

”اس کا یقین کیسے کرلیں؟“ میں نے کہا تو سوہنی تیزی سے بولی۔
”یہی تو… یہی تو میں چاہتی ہوں کہ یقین ہوجائے‘ مجھے تو پورا پورا یقین ہے اور میرے پاس اس کے ثبوت بھی ہیں۔ وہ نہ صرف میں تمہیں دکھاتی ہوں‘ بلکہ بتاتی بھی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور اندرونی کمروں کی طرف چلی گئی۔ میں اور اماں خاموش وہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔
میں بہت کچھ کہنا چاہتاتھا اور بہت کچھ پوچھنا بھی چاہ رہاتھا۔ اماں کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی جذبہ نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آگئی۔ اس کے انداز میں تیزی تھی۔ وہ میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ میں چند تصویریں تھیں۔ اس نے ایک تصویر میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
”یہ دیکھو… اس تصویر میں‘ میری ماں ہے اور سردار شاہ دین‘ یہ مری کی تصویر ہے اور باقی میں دیکھو…یہ انہی دنوں کی یادگار ہیں‘جن دنوں میرا اس دنیا میں آنا لکھا گیا۔

(جاری ہے)

“ میں نے وہ ساری تصویریں دیکھیں اور اسے واپس کرتے ہوئے کہا۔
”مان لیا کہ اس کے تمہاری ماں کے ساتھ اچھے دن گزرے ہوں گے ‘مگر تم…؟“
اس پر وہ ذرا سا مسکرائی اور بولی۔
”دس پندرہ سال پہلے تم یہ سوال کرتے تو شاید میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوتا‘ لیکن آج اس کاثبوت تو مل سکتا ہے‘ ڈی این اے ٹیسٹ‘ جب چاہیں کروالیں…“ اس نے کہاتو میں بہت کچھ سمجھ گیا۔
تبھی میں نے پوچھا۔
”کیا سردار… ٹیسٹ کروانے پر راضی ہوجائے گا۔“
”کبھی بھی نہیں… سنو‘ میں تمہیں بتاتی ہوں…“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے سانس لینے کو رکی پھر کہتی چلی گئی۔ ”یہ ان دنوں کی بات ہے ‘جب میری ماں نے مجھے ملک سجاد کو بیچ دینا چاہا‘ ہر طوائف کی طرح وہ بھی میرے دام کھرے کرنا چاہتی تھی۔ میں ایسا ہی سمجھتی رہی ‘اور شاید میں ہنسی خوشی ملک سجاد کے ساتھ چلی جاتی‘ اس کی رکھیل بن کر‘ لیکن میری ماں کچھ اور ہی چاہتی تھی‘ وہ سردار سے انتقام لینا چاہتی تھی۔
”کیوں …؟“ میں نے پوچھا۔
”طوائف بھی ایک عورت ہوتی ہے۔ عورت اپنا سب کچھ قربان کرسکتی ہے‘ جسے چاہتی ہے‘ اس پر ‘اپنا آپ نچھاور کردیتی ہے لیکن اپنی ہتک برداشت نہیں کرسکتی‘ سردار نے میری ماں کوبہت سبز باغ دکھائے‘ دولت بھی لٹائی‘ لیکن جب اس نے بتایا کہ وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے تو سردار نے بری طرح دھتکار دیا۔ پہلی بار اسے طوائف ہونے کا طعنہ دیا‘ پھراسے چھوڑ کراپنی دنیامیں مگن ہوگیا۔
“ اس نے بے حد جذباتی انداز میں کہاتومیں نے پوچھا۔
”تم اپنی ماں کے انتقام کے بارے میں بتارہی تھیں۔“
”وہی تو… میری ماں نے مجھے جب ملک سجاد کے ہاتھ بیچ دینا چاہا‘ تو ساتھ میں اسے بتادیا کہ میں کس کی بیٹی ہوں۔“ اس نے اسی لہجے میں کہا۔
”یہ بتانے کی وجہ…؟“میں نے پوچھا تووہ بولی۔
”وہ چاہتی تھی کہ ملک سجاد مجھے صرف رکھیل نہ رکھے بلکہ اپنی بیوی بنالے‘ اس کے دو فائدے تھے ایک تو اسے مضبوط سہارا مل جاتا ملک سجاد کی صورت میں‘ جب میں ان کے خاندان کی بہو بن جاتی تووہ سردار شاہ دین کو بتاتی‘ میری ماں کو خوف بھی تھا کہ اگر یہ راز پہلے ہی کھل گیاتو ممکن ہے سردار ہمیں مروادے۔
“اس نے بتایا تو میں نے پوچھا۔
”تو پھر ایسا کیوں نہیں ہوا‘ جو تمہاری ماں چاہتی تھی؟“
”ملک سجاد کی نیت مجھے بیوی بنانے کی نہیں تھی‘ اسے یہ شک تھا کہ میری ماں صرف میرا ریٹ بڑھانے کے لیے ایسی بات کررہی ہے‘ وہ میری ماں کو رقم دے کرمجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتاتھا‘ اس دوران نہ صرف مجھے اپنی ماں کی اصل نیت کاپتہ چلا بلکہ ملک سجاد کی نیت کابھی ‘تب میری زندگی ہی بدل گئی‘ میں نے خود اپنی پہچان حاصل کرنے کاپکاارادہ کرلیا۔
مجھے میلے میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن میں چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح شاہ زیب مجھے حویلی تک رسائی دے دے‘ ایک بار سردار شاہ دین کا سامنا ہوجائے۔“
”وہ تو تم اب بھی جاسکتی ہو‘ سیدھے اس کی حویلی میں چلی جاؤ‘ اس کی بیٹی ہونے کا دعویٰ کردو۔“ میں نے کہا۔
”میں حویلی میں چلی جاؤں‘ پھر واپس آجاؤں گی…؟ بولو…“ اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”سینوں میں دبا ہوا راز مٹی میں دفن ہوجاتا۔“
”توپھر تم چاہتی کیا ہو؟“ میں نے زچ ہوتے ہوئے پوچھا۔
”میں اپنی ماں کو چھوڑ چکی ہوں‘ ملک سجاد کچھ عرصہ اس قابل نہیں ہے کہ مجھ تک رسائی حاصل کر لے‘ ممکن ہے وہ زندہ ہی نہ رہے‘ میں سردار شاہ دین کی بیٹی بن کر اس کی حویلی میں رہنانہیں چاہتی‘ اور نہ ہی مجھے اس کی جائیداد کا لالچ ہے‘ میں اسے مجبور کرنا چاہتی ہوں کہ وہ مجھے پوری دنیا کے سامنے اپنی بیٹی تسلیم کرلے… میں اسی لیے گاؤں میں رہناچاہتی ہوں۔
یہ میری خوش قسمتی ہے جمال کہ تومجھے مل گیا‘ میں تیری مضبوط بانہوں کے حصارمیں رہنا چاہتی ہوں۔“ اس نے یہ کہہ کر اس طرح سانس لیا جیسے بہت بڑا بوجھ خود پر سے اتار دیا ہو۔میں اس کی باتوں پر چند لمحے سوچتا رہا‘ پھر ایک دم اس سے کہا۔
”چلو…! میرے ساتھ نورنگر چلتے ہیں‘ لیکن یہ یاد رکھو‘ اگر تم نے غلط…“
”سب یاد ہے۔“ اس نے ایک دم سے خوش ہوتے ہوئے کہا پھر بڑی ادا سے پوچھا۔
”چلوں؟“
”چلو…!“میں نے کہااور اٹھ گیا۔
”اب ایسے تو نہ کرو جمال‘ کچھ کھاؤ پیو‘ ذر ادیر بیٹھو‘ ابھی چلتے ہیں۔“ سوہنی نے خوش ہوتے ہوئے کہاتومیں نے ماں کی طرف دیکھا‘ وہ مسکرادی تھی۔
# # # #
اس وقت سورج ڈوب چکا تھا‘ جب جسمیندر کی ای میل آگئی تھی اور جسپال اسے پڑھ کر سوچ رہاتھا کہ اس کااسی گھر میں رہنا ہی ٹھیک ہے۔
اس وقت اوگی پنڈ میں انتہائی سخت سیکورٹی تھی۔ بہت ساری وی آئی پی شخصیات آخری رسومات میں شریک ہو کر واپس جارہی تھیں۔ نہ صرف نکودر کی پولیس وہاں تعینات تھی بلکہ جالندھر سے بھاری نفری منگوائی ہوئی تھی۔ یہ تو ہوہی نہیں سکتاتھا کہ وہاں پر دوسری خفیہ ایجنسیوں کے لوگ نہ ہوں‘ کچھ دن قبل ہی اس نے ایجنسیوں کے دو لوگ مارے تھے۔ جنہیں کمیشن کا حصہ بنایا گیاتھا۔
پھرہردیپ سنگھ کا قتل کوئی چھوٹی سی بات نہیں تھی۔شک بھری نگاہیں اُس پر تن گئی تھیں اس کے اندر کی نفرت تو اسے مجبورکررہی تھی کہ جان جاتی ہے تو جائے‘ رویندر سنگھ اپنے پریوار کے ساتھ موجود ہے تو اسے ختم کردینا چاہیے۔ وہ خود پر جبر کیے ہوئے تھا۔ ہرپریت نے اس کے ذہن کو دوسری جانب لگانے کی بہت کوشش کی تھی اور اب وہ رات کا کھانا لگوانے کے لیے نیچے چلی گئی تھی۔
اس دوران اس نے میل دیکھی تو جسمیندر سنگھ نے اسے کسی بھی طرح کے عمل سے منع کردیاتھا اور اسے گھر تک محدود رہنے کی تلقین کی تھی۔ اس نے وجہ صرف یہی بتائی تھی کہ سیکیورٹی بہت سخت ہے‘ وہ سوچتا چلا جارہاتھااور اسے اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کردیااوراسے سائیڈ ٹیبل پررکھ کر نیچے جانے کے لیے پرتولنے لگا۔
اس وقت وہ کمرے سے نکلنے لگاتھا کہ رن ویر سنگھ کا فون آگیا۔
اسے پوری اُمید تھی کہ وہ اسے فون لازمی کرے گا اوراس نے کردیا‘ شاید وہ لاشعوری طور پر اس کاانتظار کررہاتھا۔ 
”ہیلو! انسپکٹر رن ویر سنگھ‘ بولیں… تھانے حاضری لگوانے کے لیے آؤں یا پھر آپ تشریف لائیں گے۔“ اس کے لہجے میں شدید طنز تھا‘ جیسے وہ اسے غصہ دلانے کی کوشش کررہا ہو‘ حالانکہ ایسا ہی کچھ دیر پہلے رن ویر سنگھ کرچکاتھا‘ ذرا ہی دیر میں دوسری طرف سے آواز آئی۔
”میں تمہارے گھر کے باہر کھڑا ہوں‘ گیٹ کھلواؤ‘ تاکہ میں اندر آؤں۔“
”ابھی آیا…“ اس نے کہا اور فون بند کرکے ہرپریت کو کال ملادی‘ پھراسے رن ویر سنگھ کے آنے کے بارے میں بتا کر کہا کہ وہ اسے اندر بلوالے‘ اس دوران وہ سیڑھیاں اُترتے ہوئے نیچے چلاگیا۔ اس نے دیکھا‘ بنتا سنگھ اندر کی جانب آرہاتھا‘ وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر خود ہی ڈرائنگ روم سے نکلتا چلا گیا اور کاریڈور میں آکر کھڑا ہوگیا۔
اتنی دیر تک بنتا سنگھ اس کے قریب آگیاتھا۔
”وہ جی باہر کوئی انسپکٹر رن ویر سنگھ آیا ہے۔“
”اسے اندر لے آؤ۔ اور ہاں‘ اس کے ساتھ اور کتنے لوگ ہیں؟“ جسپال نے بنتا سنگھ سے پوچھا۔
”اکیلا ہی ہے جی‘ اپنی جیپ میں۔“
”بلاؤ اسے…“ جسپال نے کہااور واپس اندر کی طرف چلا گیا۔ وہ جس وقت صوفے پرجاکربیٹھا‘ تب تک ہرپریت کے ساتھ انوجیت بھی آگیا۔ وہ دونوں باہر سے آتے ہوئے انسپکٹر کو دیکھ رہے تھے جو بڑے اعتماد سے اندر کی طرف آرہاتھا‘ چند لمحوں بعد وہ آگیا‘ اس نے انوجیت سے ہاتھ ملایااور ست سری اکال کہہ کر جسپال کی جانب بڑھا‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر فتح بلائی۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط