Episode 63 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 63 - قلندر ذات - امجد جاوید

”تم نے میرے خیالات پوچھے ہیں نا‘ تو سچ بتارہی ہوں۔ میرے لیے یہ جسم اور اس جسم کی لذتیں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں‘ یہ ایک اضافی شے ہے‘ جس کا میرے مقصد سے کوئی لینا دینا نہیں ہاں انہیں میں اپنے مقصد کے لیے استعمال ضرور کرسکتی ہوں۔ جس کی ابھی تک مجھے کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی‘ کیونکہ مجھے میرے دھرم اور ورثے کی پوری پہچان ہے‘ کیا تمہیں احساس نہیں ہوتا کہ میرے ویر انوجیت نے کبھی بھی مجھے شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا‘میں تمہارے ساتھ تنہا ہوتی ہوں‘ ایک بیڈ پر تمہارے ساتھ سوتی ہوں‘ کیاتم نے مجھے جذبات کے معاملے میں کوئی عام سی لڑکی پایا ہے؟“ وہ پورے جوش سے کہتی چلی گئی تھی۔

”پریتی…! تو پہلی لڑکی ہے جومیرے اتنے قریب آئی ہے‘ یہ محض دل پھینک عاشق کا ڈائیلاگ نہیں اور نہ میں تمہارے سامنے جھوٹ بول رہا ہوں‘ وینکوور میں‘ کسی بھی لڑکی کاحصول عام سی بات ہے گرل فرینڈ رکھنا تو ایک پالتو جانور سے زیادہ سستا ہے‘ میں نہیں جانتا کہ تیرا اور میرا ساتھ کب تک رہے گا‘لیکن اتنا ضرور چاہتاہوں کہ جتنا وقت بھی گزرے‘ اچھا گزرے۔

(جاری ہے)

”واہ گرو بہت بھلی کرے گا‘ توفکرنہ کر‘ اور یہ جو تیری سوچ ہے ناکہ جلدی جلدی سب کوختم کردوں مجھے اس سے اختلاف ہے‘ دشمن کو وقت دو جسی‘ جتنا دے سکتے ہو‘ اس پر اعتبار نہ کرو‘ اسے زخم لگا دواور پھر دیکھو کہ وہ کس اذیت میں مبتلا ہے‘ کتااور بندر اپنے زخم سے خود مرجاتا ہے۔ رویندر سنگھ کوزخم لگادیاہے‘ وہ اب سکون سے نہیں بیٹھے گا‘ اورمیں تمہیں بتادوں اب بلجیت سنگھ بھی تمہارے سامنے نہیں آئے گا‘ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ یہ سب کچھ تم نے کیا ہے‘ کیسے کیا ہے؟ یہ انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے۔
”اور تمہارا کیا خیال ہی‘ انہیں سمجھ آنی چاہیے‘ یانہیں؟“ جسپال نے پوچھا۔
”نہیں‘ ناچتے رہیں وہ‘ جب تک انہیں سمجھ آئے گی‘ ہم بہت کچھ کرچکے ہوں گے۔“ ہرپریت نے کہا‘ تبھی جسپال کافون بج اٹھا‘ وہ جسمیندر کی کال تھی‘ اس نے جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایااور اسے آن کردیا۔ کچھ دیر بعد وہ آن لائن تھا‘ رابطہ ہوتے ہی جسپال نے کہا۔
”یار‘ ان لوگوں کو مجھ پرشک ہوگیا ہے‘ پولیس آفیسر آیا تھااورچھپے لفظوں میں دھمکی لگاگیا ہے۔“
”وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا پیارے۔“ جسمیندر نے جواب دیا۔
”وہ کیسے …؟“ اس نے پوچھا۔
”وہ ایسے میری جان کہ اگر ثبوت ہوگا‘تبھی نا‘ کوئی ثبوت نہیں ہے تمہارے بارے میں…“ اس نے جواب دیا۔
”وہ لوگ‘ جومیرے ساتھ تھے…“ جسپال نے اپنا شک اس کے سامنے رکھا۔
”وہ لوگ بھارت میں ہوں گے تو انہیں پکڑیں گے‘ ان میں سے کچھ یہاں کنیڈا آگئے ہیں اور کچھ تھائی لینڈ میں ہیں۔ انہیں پتہ تھا کہ کامیاب مہم کے بعد وہ بھارت میں نہیں رہیں گے‘ اس لیے پوری کوشش کرکے تمہارا ساتھ دے رہے تھے۔ وہ بڑے کام کے بندے تھے‘ اب چند دنوں تک تیرااور میرارابطہ نہیں ہوگااور تو بھی سکون کر‘ ادھر ادھر پھر‘ موج کر۔
”تمہارا کیا خیال ہے‘ میں سکون سے رہ پاؤں گا۔“ جسپال نے کہا۔
”یہ تو رہنا ہوگا‘ کیونکہ میں ابھی خود فیصلہ نہیں کرپایا کہ اب تجھے کیا کرنا ہے‘ میرے ساتھ یہاں کچھ مسئلے چل رہے ہیں‘ وہ دوچار دن لیں گے‘ پھر ٹھیک ہوجائے گا‘ بس تو نارمل رہ ‘ زیادہ جذباتی نہ ہو۔ ہرپریت کی صورت میں تجھے بہت اچھی دوست مل گئی ہے‘ اس کے ساتھ اچھا وقت گزار۔
“ وہ بولا۔
”ہاں …!یہ بہت اچھی ہے۔ میرا بہت خیال رکھتی ہے۔“ جسپال نے ہرپریت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”شکریہ‘ جسمیندر۔“ ہرپریت نے کیمرے کے سامنے آکر کہا۔
”نہیں پریت تم اس کی حق دار ہو۔ میں تم سے ملنا چاہتاہوں‘ مجھے امید ہے کہ ہماری جلد ملاقات ہوگی۔“ اس نے کہاتووہ پرجوش انداز میں بولی۔
”کیوں نہیں‘ مجھے بھی بہت شوق ہے تم سے ملنے کا۔
”بس تم جسپال کا خیال رکھنا‘دو یاتین دن‘ اس کے بعد میں بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے۔ انوجیت کو‘ بے بے جی کو میری طرف سے وش کرنا۔“
”جی‘ ضرور۔“ وہ بولی۔
”اوکے جسپال‘ اوکے ہرپریت… بہت ساری محبت…“ یہ کہتے ہوئے وہ آف لائن ہوگیا۔ وہ دونوں چند لمحے اس ماحول میں رہے‘ پھر جسپال نے لیپ ٹاپ بند کرکے سائیڈ ٹیبل پررکھااور ہرپریت کی طرف دیکھ کربولا۔
”ہوں…! توتم میرا خیال رکھوگی۔“
”بالکل…“ اس نے کاندھے اُچکاتے ہوئے کہا تو جسپال نے ایک دم سے اسے پکڑلیا۔شاید وہ اس کے لیے تیار نہیں تھی ۔ اس لیے قابو میں آگئی‘ جسپال نے اسے نیچے گرایااور گہری آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ہرپریت نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ توجسپال نے ایک طویل مہر اس کے لبوں پر لگادی۔
# # # #
صبح کا سورج طلوع ہونے میں تھوڑا وقت تھا۔
جب میں اماں اور سوہنی کو لے کر نورنگر پہنچ گیا۔ اماں آتے ہی یوں کچن میں گھس گئی جیسے وہ یہاں سے گئی ہی نہ ہو‘ جبکہ سوہنی اپنے ساتھ لائی ہوئی چیزوں اور کپڑوں کو اپنی اپنی جگہ رکھنے لگی‘ میں نے کار گھر کے باہر ہی کھڑی رہنے دی‘ اور خود بائیک لے کر ڈیرے پرچلاگیا۔ بھیدہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ اس نے اپنے ساتھ ایک اور بندے کو لگایاہواتھا‘ میں گیا تو حال احوال کے بعد کہنے لگا۔
”جااندرجاکر آرام کر‘ اب میرے ساتھ یہ کام کرلیاکرے گا‘ میں نے تجھے پہلے ہی بے فکراکردیا ہے۔“
”ٹھیک ہے یار‘ پر میں آرام گھر ہی میں جاکر کروں گا‘ تومجھے دودھ ڈال دے تو میں جاؤں۔“ میں نے بھی وہاں بیٹھنا مناسب خیال نہیں کیا۔
”تو چاہے جہاں آرام کر‘ لیکن اب بہت محتاط ہوجا۔“ اس نے لاپرواہی والے انداز میں کہا تو میں چونک گیا۔
تب میں نے پوچھا۔
”ایسے کیوں کہہ رہا ہے؟“
”کل سے ‘ اور رات بھی‘ بندے پھرتے رہے ہیں یہاں پر‘ اب میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس کے بندے تھے‘ یامحض چو ر اُچکے تھے۔ مجھے جب معلوم ہوا تو دوچار فائر نکالے تھے میں نے‘ پھر بعد میں سکون رہا۔“ بھیدے نے تفصیل سے بتایا‘ اورپھر دودھ ڈالنے لگا۔ جب وہ دودھ ڈال چکاتو سیدھا ہوگیا۔
”اچھا کیاتونے مجھے بتادیا۔“ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
”جمالے…! یہ چھیڑ جو پڑ گئی ہے اور اس میں تُو خود بھی بہہ گیا ہے‘ اب مجھے نہیں لگتا کہ یہ چند دن کی کہانی ہوگی۔ اس لیے تیرے جو بھی ٹھکانے ہیں‘ انہیں فوراً بدل لے…دشمن کا کیا اعتبار…“ اس نے مجھے صلاح دی‘ بے چارہ نہیں جانتاتھا کہ یہ کہانی میں نے خود شروع کی ہے اور میں نے ہی اسے انجام تک پہنچانا ہے۔
اور پھر کہانی کیا سے کیا ہوگئی ہے‘ مگر جو اس نے مجھے مشورہ دیاتھاوہ بہرحال معقول تھا۔ میں نے سر ہلایا‘دودھ کا برتن اٹھایا اور ڈیرے سے نکلتا چلاگیا۔
میں گھر پہنچا تو صحن میں دھری چارپائی پر چھاکالیٹاہواتھا‘ میں نے بائیک کھڑی کی‘ دودھ کابرتن اماں کوپکڑایااور اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ یونہی لیٹارہا تومیں نے اس کی کمر پردھپ مارتے ہوئے کہا۔
”اوئے رات نہیں سویا جو یوں مردوں کی طرح پڑا ہے؟“
”ناں …! یہ تو پھر سوہنی کو لے آیاہے۔“ اس نے ویسے ہی پڑے پڑے کہاتو میں نے دھیمے انداز میں کہا۔
”مجھے معلوم تھا کہ تومجھ سے یہی سوال کرے گا‘ آرام سے ناشتہ کراور پھر سکون سے بتاتاہوں کہ میں اسے کیوں لایا ہوں۔“
”دیکھ اگر تیرا کوئی اس سے پیار محبت والا معاملہ چل پڑا ہے تو بھی مجھے ابھی بتادے‘ میں تمہارے راستے کی دیوار نہیں بنوں گا‘ بلکہ تجھے مشورہ دوں گا کہ تو اس کے پاس چلاجااور کاندھے پرپرنارکھ کے …“ وہ غصے میں پتہ نہیں مزید کیابکتا‘ مگر اس سے پہلے ہی میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط