”فخرو…! سردار شاہ دین توگھر میں ہے‘ تونے وہاں جھوٹ کیوں بولا۔“
میرے یوں کہنے پر‘اس نے طنزیہ اندازمیں مجھے دیکھااور پھر بولا۔
”تجھے زیادہ پتہ ہے یامجھے‘ جومیں ہروقت حویلی میں رہتاہوں۔“
”حویلی میں رہنے کامطلب یہ تو نہیں کہ تم جھوٹ ہی نہ بولو‘ خیر…! ایک بات تو بتاؤ فخرو؟“
”بولو…“ اس نے مجھے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہاتومیں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”جوانی میں سردار نے خوب دولت لٹائی ہوگی‘ طوائفوں کے پاس بھی جاتاہوگا۔“
”سردارصاحب نے دولت لٹائی یا طوائفوں کے پاس گیا‘ تمہیں اس سے کیا لینا دینا؟“ اس نے بغور میری طرف دیکھتے ہوئے کہاتومیں نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
”بہت کچھ لینا دینا ہے فخرو‘ بہت کچھ… اتنا کچھ کہ تم اور تیرے سردار تصور بھی نہیں کرسکتے‘ خیر…! تم جاؤ اور جاکر بڑے سردار صاحب کومیراپیغام دے دو کہ اس کی بیٹی میرے پاس ہے اور…“
”کیابکواس کررہے ہو تم… سردار صاحب کی کوئی بیٹی نہیں‘ یہ تمہیں بھی معلوم ہے اور سارے …“
”بکواس بند کر فخرو‘ اور صرف میری بات سن۔
(جاری ہے)
“ میں نے اچانک ہی بھناتے ہوئے کہاتو وہ میری طرف الجھتے ہوئے انداز میں دیکھ کربولا۔
”کہو…!“
”اس کی بیٹی ہے‘ ناجائز بیٹی۔ تفصیل معلوم کرنی ہو تو ملک سجاد سے پوچھ لے… جو اس کی بیٹی کاعاشق تھا۔ جو تیرے سردار کا گہرا یار ہے۔پھر بھی پتہ نہ چلے تو مجھ سے پوچھ لینا‘ لیکن تم نے نہیں آنا‘ بلکہ اپنے سردار کو بھیجنا۔“ میں نے غصے میں کہا تووہ حیرت سے میری طرف دیکھ کربولا۔
”جمال …!تم سچ کہہ رہے ہو؟“
”ہاں سچ کہہ رہاہوں… کل صبح تک کاوقت ہے تیرے سرداروں کے پاس‘ ورنہ… کل یہیں جب دلبر کے لیے پورے علاقے سے لوگ آئیں گے تو ان میں سردار شاہ دین کی بیٹی بھی آجائے گی۔ اور اگر یہاں نہ آئی تو پورے علاقے کی پنچائیت بلا کر اس میں وہ بتائے گی کہ وہ کس طرح شاہ دین کی بیٹی ہے‘ جاؤ اور جاکے بتاؤ اسے‘ وقت بہت کم ہے۔
“ میں نے تیز لہجے میں کہااور پلٹ کر بائیک لینے کے لیے چل دیا۔فخر وچند لمحے وہیں حیرت میں گم کھڑا رہا پھر تیز تیز قدموں سے چل پڑا۔
مجھے اس وقت اچانک ہی یہ خیال آیا تھا کہ اس نے ابھی تک ملک سجاد کے بارے میں نہیں پوچھا کہ وہ اس وقت کس حالت میں ہے۔ اسے ہوش آگیا ہے یاابھی تک بے ہوش ہے۔ خطرے میں ہے یا خطرسے باہر‘ میں چاہتاتھا کہ سوہنی کے بارے میں ملک سجاد ہی اسے بتائے‘ تاکہ اسے پوری کہانی خودبخود معلوم ہوجائے‘ مجھ پر اعتبار کرتے ہوئے شاید اسے وقت لگے ۔
میں نے چھاکے کاانتظار کیے بغیر اچھو کریانے والے کی دکان پر جاکر فون کرنے کا سوچا۔ دوگلیاں پار کرکے اس کی دکان تھی۔ میں نے بائیک اسٹارٹ کی اور اس طرف بڑھ گیا۔ دکان پر چند گاہک کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے انتظار کرناچاہامگر اچھو فوراً ہی میری طرف متوجہ ہوکربولا۔
”جی‘بھائی فون کرنا ہے …“
”وہی فون نمبر ملادے۔“ میں نے کہاتواس نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے فوراً ہی نمبر ملادیئے اور پھر ریسیور مجھے تھمادیا۔
میں نے ریسیور کان کو لگایااور رابطہ ہوجانے کاانتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد فون پک کرلیا گیا۔ مگر دوسری جانب سے آواز ملک سجاد کی نہیں تھی۔ تبھی میں نے کہا۔
”مجھے ملک سجاد سے بات کرنی ہے۔“
”جی‘ ان سے بات نہیں ہوسکے گی‘ وہ اس وقت ہسپتال میں ہیں۔ “ دوسری طرف اسے کافی حد تک افسردگی میں کہا گیا تو میں نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔
”خیرتوہے کیاہوا ہے انہیں۔“
”ایک حادثہ ہوگیاتھا‘ اس میں انہیں شدید چوٹیں لگی ہیں۔ زخمی بھی ہوگئے تھے۔“
”اوہ …! خطرے والی کوئی بات تو نہیں‘ میرامطلب ہے‘ وہ ٹھیک تو ہیں نا۔“ میں نے اپنے لہجے کوجان بوجھ کر تشویش زدہ کرلیا۔
”خطرے والی بات توہے‘ لیکن بہرحال اب وہ ہوش میں ہیں۔ ڈاکٹر نے بات چیت اور ملنے ملانے سے منع کررکھا ہے‘ دوچار دن میں ان سے رابطہ ہوجائے گا‘ ویسے آپ کون اورکہاں سے بات کررہے ہیں…؟“
میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا‘ بلکہ خاموشی سے فون رکھ دیا۔
مجھے مزید بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اچھو اپنے گاہکوں کی طرف متوجہ تھا۔ میں نے اسے مخاطب کرنا مناسب خیال نہیں کیا۔ اس لیے پلٹااور بائیک کی طرف بڑھنے لگا۔ تب اچانک بائیں جانب سے چند لوگ بڑھے اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کب مجھ پرپل پڑے۔ میں بس ایک نگاہ ہی انہیں دیکھ پایاتھا۔ یہ وہی تھے جو دلبر کے گھر کے سامنے کچھ دیر پہلے میں نے دیکھے تھے۔
ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ‘ڈنڈے اور ہاکیاں تھیں۔ ان میں سے کوئی چہرہ بھی نور نگر کانہیں تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ وہ کتنے تھے‘ بس اندازہ ہے کہ سات سے دس تک ہوں گے۔ پہلی ہاکی کی ضرب میری پشت پر کاندھوں کے پاس لگی۔‘ پھرہاکیوں ‘ ڈنڈوں اور لاٹھیوں کی یلغار ہوگئی۔ میں ان کے حصار میں تھا‘ ان سے بچنے کایہی طریقہ میرے ذہن میں آیا کہ سب سے پہلے میں ان کا حصار توڑ دوں‘ پھرجب وہ سامنے آجائیں تو میں کچھ کرپاؤں۔
میں نے دونوں ہاتھ اپنے سر پررکھے اور ایک دم زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر اگلے ہی لمحے ان کے درمیان سے ہو کر گلی کی جانب بڑھا‘ میں ان کاحصار توڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ ایسے میں ایک نے لاٹھی مارنے کوبلند کی تومیں اس پرجاپڑا‘دونوں ہاتھوں کے پورے زور سے اس کی لاٹھی کو ایک جھٹکادیا۔ تب تک دوچار ضربیں میرے لگ گئی تھیں۔ لاٹھی میرے ہاتھ میں آگئی تو میرے اندر ایک حوصلہ آگیا۔
میں چاہے اب وار کرنے کے قابل نہیں تھا لیکن اپنا کچھ نہ کچھ دفاع توکرسکتاتھا‘چند منٹ تک میں اپنا دفاع کرتا رہا لیکن کب تک‘ میں نے لاٹھی کو دائیں ہاتھ سے بائیں میں لیااور دائیں ہاتھ سے اپناپسٹل نکالناچاہا‘ یہی لمحہ میرے لیے خطرناک ثابت ہوا۔ اچانک ہی دوچار بندوں نے مجھے بری طرح جکڑ لیا۔ میں نے ان کے حصار سے نکلنے کے لیے زور آزمائی کرنے لگا‘ مگرنہ نکل سکا‘وہ بھی شہ زور لگتے تھے۔
ایسے میں ایک کیری ڈبہ ان کے پاس آگیا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ میرے پیروں کی طرف سے پکڑ کرمجھے اٹھالیا‘ میں سمجھ گیا کہ یہ مجھے اغوا کرکے لے جانا چاہتے ہیں۔ میں نے پوری قوت لگا کر ان کی گرفت سے نکلنا چاہا مگرنہ نکل سکا۔ تب تک کیری ڈبے کا دروازہ کھلااور مجھے اس میں پھینک دیا گیا۔ میرے چوٹیں تو آئیں مگر میں نے دوسری طرف کادروازہ کھول کر باہر نکلناچاہاتب تک پسٹل کی نال میری گردن پر آن لگی۔
”اب زیادہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں … آرام سے پڑے رہو۔ جان سے نہیں مارناچاہتے‘ لیکن اگر تم نے کوئی حرکت کی تو ہم ذمے دار نہیں… “ ایک سخت لہجے والی آواز سنائی دی تومیں وہیں ساکت ہوگیا۔درد‘جلن اور ٹیسوں سے میرابراحال ہورہاتھا‘ تبھی میں نے پوچھا۔
”کون ہو تم لوگ…اور کیا چاہتے ہو؟“
”چپ چاپ پڑے رہو‘ ابھی پتہ چل جائے گا۔
“ اس نے کہاہی تھا کہ کیری ڈبہ چل پڑا۔ مجھے شدید جھٹکے لگ رہے تھے اور وہ مجھ پر اپنے پاؤں رکھے ہوئے تھا۔ میں اوندھے منہ پڑا تھا‘ مجھے نہیں معلوم کہ ڈبے میں اور کتنے لوگ تھے۔ مجھے لگا کہ جیسے میں اپنے حواس کھو رہاہوں لیکن میں نے خود پر قابو رکھا‘ نجانے کہاں کہاں سے چلتے ہوئے تقریباً آدھے گھنٹے بعد کیری ڈبہ رک گیا۔ اس کامطلب تھا کہ میں اپنے علاقے سے باہر نہیں یہیں کہیں ہوں۔
تبھی اس بندے کی آواز سنائی دی۔
”اپنے پیروں پر اٹھوگے یاگھسیٹ کر لے جائیں۔“
میں نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ کوشش کرکے اٹھا تو میربدن چیخ چیخ کر احتجاج کرنے لگا۔ میں اٹھااور کیری ڈبے سے اترنے سے پہلے نظریں اٹھا کردیکھا‘ میرے سامنے سردار شاہ دین کا ڈیرہ تھا۔ مجھ پرحملہ ہوتے ہی نجانے کیوں میرے لاشعور نے مجھے بتادیاتھا کہ یہ سرداردوں کے بھیجے ہوئے ہی لوگ ہوں گے۔
اور وہ ڈیرہ د یکھ کرمجھے یقین ہوگیا۔ نجانے کیوں اس وقت میرے اندر ایک اطمینان اتر آیا تھا کہ یہ کم از کم مجھے جان سے نہیں ماریں گے ‘بلکہ تشدد کرکے مجھ سے پوچھ گچھ ضرور کریں گے لیکن سوال یہ تھا کہ کیافخرو اتنی جلدی حویلی پہنچ گیاتھا‘ کیااس نے سوہنی کے بارے میں سردار وں کو بتادیاتھا‘ ایساممکن نہیں تھا‘ جب تک میں اچھو کریانے والے کی دکان پرپہنچا تھا‘ تب تک وہ حویلی نہیں پہنچ سکتاتھا‘ مجھے تو زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگے ہوں گے‘ مگر اسے حویلی تک جانے میں آدھا گھنٹہ چاہیے تھا۔
اس کامطلب ہے یہ لوگ پہلے ہی میری تاک میں تھے۔ بھیدے کی بات سچ تھی۔ اب یہاں ڈیرے پرلاکر وہ مجھ سے کیا چاہتے تھے‘ یہ تووہی لوگ جانتے تھے۔
میں سکون سے ڈیرے کی جانب چل پڑا۔ ذرا سی بھی مزاحمت نہیں کی‘ گیٹ پار کر‘ ڈیوڑھی عبور کی پھر صحن سے پہلے ہی دائیں طرف کی رومیں بنے ہوئے کمرے میں سے ایک کی جانب بڑھے‘ ہم برآمدے میں سے چلتے ہوئے اس کمرے میں گئے‘ باقی سب پیچھے رہ گئے۔
تین بندے میری پشت پر تھے۔ سامنے ہی صوفے پر شاہ زیب بیٹھا ہوا تھا‘ جومیری جانب طنزیہ انداز میں دیکھ رہاتھا۔
”مجھے بہت افسوس ہے جمال کہ تجھے یوں خاطر مدارت کرکے یہاں لایا گیا۔ ورنہ تم کہاں آنے والے تھے… فنکار ہونا‘ تمہیں بہت مان ہے خود پر…“ یہ کہہ کر اس نے میر ی پشت پر کھڑے بندے سے پوچھا۔ ”اس کاپسٹل تو نکال لیاتھانا…؟“