Episode 68 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 68 - قلندر ذات - امجد جاوید

”لیکن بے بے! ابھی اس حویلی کا کام پورا نہیں ہوا۔ اسے ابھی سجانا ہے‘ پوری طرح۔“ ہرپریت نے پرشوق لہجے میں کہا تو جسپال بولا۔
”میرے ذہن میں بھی ہے‘ ایسے کرتے ہیں‘ کسی انٹیرئر ڈیکوریٹر سے بات…“
”نہیں‘ خود ایک ایک چیز خریدیں گے۔ میں خریدوں گی سارا سامان اور لاکر یہاں سجاؤں گی۔“ ہرپریت نے یوں کہاجیسے وہ اپنے کسی حسین خواب میں رنگ بھررہی ہو‘ تبھی جسپال نے کہا۔
”اوکے…! تم آج پلان کرلو‘ کہ کیا کیا خریدناہے‘ کل سے ہم سامان خریدلیں گے‘ پھرپھوپو بھی اپنی ارداس رکھ لے…کیوں انوجیت۔“
”زبردست…“ وہ ہنستے ہوئے بولا‘ تبھی ہرپریت نے اپناسیل فون نکالااور حویلی کی سبھی دیواروں‘ کمروں اور جہاں اسے لگا کہ اس کی فلم بنانی چاہئے‘ اس کی ویڈیو بنانے لگی۔

(جاری ہے)

وہ سب حویلی میں گھومتے پھرتے رہے۔

کافی دیر بعد وہ دوبارہ صحن میں آگئے جہاں ٹھیکیدار ان کامنتظر تھا‘ جسپال نے اسے کہا۔
”تم نے بہت اچھا کام کیا‘ ایسے کرو فارم ہاؤس پر آؤ‘ تمہارا جو بھی حساب کتاب ہے وہ کردیتاہوں۔“
”وہ تو ہوگیا جی‘انوجیت بائی جی نے تو سب صبح ہی کلیئر کردیاتھا۔ اب بس مجھے اجازت دیں۔ یہاں کا سامان اگر خریدنا ہو تو مجھے بتادیں‘ میں جالندھرمیں آپ کی مدد کردوں گا۔
“ اس نے مودب انداز میں کہا تو ہرپریت بولی۔
”بہت شکریہ‘ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ہم آپ کو خود فون کریں گے۔“
”اچھاجی‘ چلتاہوں‘ ست سراکال۔“ ٹھیکیدار نے کہااور باہر نکلتا چلا گیا۔ تبھی وہ سب بھی آہستہ آہستہ باہر آگئے پھر کارمیں بیٹھ کر واپس کوٹھی کی طرف چل دیئے۔ راستے میں یونہی گپ شپ کرتے وہ واپس پہنچ گئے۔
 موسم خوشگوار تھا‘ اس لیے وہ سبھی لان میں آبیٹھے۔
جسپال کے ذہن میں کہیں تھا کہ بلجیت نے ابھی تک مزاحمت نہیں کی‘ یہ خاموشی بہرحال اسے کھٹک رہی تھی۔ اگر دیکھا جاتاتو وہ ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر جسمیندر سنگھ کا ساتھ نہ ہوتاتووہ یہاں کچھ بھی نہیں کرسکتاتھا۔ رویندر سنگھ سے بدلہ لیتے ہوئے اسے برسوں بیت جاتے‘ جب تک وہ یہاں نہیں آیا تھا وہ یہی سمجھتاتھا کہ چند دنوں میں اپنا کام ختم کرکے آجائے گا‘ لیکن یہاں پرآکر اُسے احساس ہوا تھا کہ رویندر سنگھ کی جڑیں وقت کے ساتھ بہت مضبوط ہوگئی ہیں۔
یہ تو جسمیندر سنگھ کا سنڈیکیٹ تھا‘ جس نے مدد کی ‘ورنہ وہ ہردیپ سنگھ تک نہیں پہنچ سکتاتھا۔ ایک بلجیت سنگھ ہی اُسے اوگی میں الجھا دینے کے لیے کافی تھا۔
”کیا سوچ رہا ہے پتر؟“ کلجیت کورنے بڑے نرم مگر متجسس لہجے میں پوچھا۔
”کچھ نہیں پھوپو…! میں بس اوگی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔“ جسپال نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”اوگی کے بارے میں‘ وہ کیا؟“ کلجیت کور نے حیرت سے پوچھا۔
”مجھے اتنے دن ہوگئے یہاں آئے ہوئے‘ لیکن میں نے ابھی تک پورا گاؤں نہیں دیکھا‘ اور نہ ہی یہاں کے لوگوں سے ملاہوں۔“ وہ اسی لہجے میں بولا تو انوجیت نے ہنستے ہوئے کہا۔
”تونے الیکشن لڑنا ہے یہاں سے؟“
”نہیں‘ الیکشن تو نہیں لڑنا‘ لیکن کم از کم یہاں کے بارے میں ‘یہاں کے لوگوں کے بارے میں بندے کو پتہ ہوناچاہیے۔“
”چلو میں بتادیتاہوں تمہیں‘ آبادی اس کی تقریباً دس ہزار لوگوں کی ہے‘ جن میں آدھے ہندو اور آدھے سکھ ہیں۔
کچھ مسلمانوں بھی ہیں‘ وہ لوگ جو شُودر ہیں‘ اب وہ عیسائی ہو رہے ہیں‘ انہوں نے اپنا چرچ بھی بنالیا ہے۔ اور پوچھو…؟“ انوجیت نے عام سے لہجے میں بتایا۔
”ظاہر ہے ان کے نظریاتی جھکاؤ جو سیاسی ہیں وہ مذہب کے تابع ہی ہوں گے۔“ جسپال نے پوچھا۔
”ایسا ہے تو‘لیکن پنجاب میں سکھوں کے خلاف پتہ نہیں کیسی کیسی مہم چلائی جارہی ہے۔ اب دیکھو‘ یہاں کے ہندو بالکل سکھوں کی طرح بال رکھتے ہیں‘ پگڑی بھی ویسے ہی پہنتے ہیں۔
مطلب ہندو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سکھ کوئی الگ سے قوم یا دھرم نہیں ہے۔ ہندومت ہی کاایک حصہ ہے۔ خالصتان مہم میں ایک وجہ یہ بھی تھی۔“انوجیت نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”مطلب‘ خالصتان تحریک ایک سیاسی ہی نہیں‘ ہماری ثقافت اور مذہب کامعاملہ بھی تھا؟“جسپال نے پوچھا تو انوجیت نے اپنی ماں کی طرف دیکھا ‘ پھر اپنے اندرونی جوش کو دباتے ہوئے تحمل سے کہنا شروع کیا۔
”دیکھو…! تقسیم ہند تک ہندو اور گاندھی سکھوں کو اپنا مخلص دوست اس لیے کہنے پر مجبور تھے کہ انہوں نے بھارت کے قیام کے لیے بہت ساری قربانیاں دیں۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد ہی سکھ‘ مجرم اور لاقانونیت کو ماننے والا گروہ قرار دے دیا گیا۔ ہندوؤں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب وقت آگیا ہے ‘کون آقا ہے اور کون غلام‘ کون حاکم ہے اور کون محکوم۔
1950 میں آئین بنا‘ جس میں سکھوں کے وجود کو بالکل نظرانداز کردیاگیا۔ یعنی انہیں تہذیبی اور ثقافتی طور پر ختم کرنے کے لیے یہ قرار دے دیا گیا کہ سکھ بھی دراصل ہندو ہی ہیں۔ اس پرسکھوں میں اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کا شعور پیدا ہوا۔1966ء میں یہ تحریک اس وقت زور پکڑتی گئی جب پنجاب کی تقسیم ہوئی۔ خالصتان کا تصور تب بھی تھااور یہ تقسیم اس تصور کو ختم کرنے کے لیے کی گئی۔
پنجاب جو خوشحال ترین ریاست تھی بدحالی کاشکار ہوگئی۔“
”تو گویا معاشی معاملہ بھی درپیش ہوا؟“ جسپال نے پوچھا۔
”سارے ہی معاملے تھے۔ ستر کی دہائی میں سکھوں کی خالصتان تحریک اٹھی ‘ جس کامقصد اپنی ایک الگ ریاست کا قیام تھا۔“ انوجیت نے بتایا۔
”کون سے علاقے شامل کرنا چاہتے تھے۔“ اس نے پوچھا۔
”پنجاب‘ ہریانہ‘ہماچل پردیش‘ گجرات اور راجھستان کے وہ علاقے جہاں پنجابی بولی جاتی ہے۔
ان علاقوں پرمشتمل تھا۔“انوجیت نے علاقے گنوائے تووہ بولا۔
”پاکستانی پنجاب کو شامل نہیں کیاگیا‘ وہاں تو اپنابہت کچھ ہے؟“
”تمہارے اس سوال پر میں اپنے لیڈروں کی بے عقلی پر ماتم کروں گا‘ محمد علی جناح نے اس قوم کو بہت بڑا موقعہ دیا تھا لیکن یہ لوگ دور اندیش نہیں تھے۔ جس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہمیں تحریک چلانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
اب توہم ہندوؤں کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں۔“انوجیت نے جذباتی انداز میں کہا۔
”اچھا توپھر…“ وہ بولا۔
”1978ء میں کانپور اور امرتسر میں سکھوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اور اَسّی کی دہائی میں خالصتان تحریک اپنے عروج تک جاپہنچی۔ تب سکھوں کو کچلنے کامنصوبہ بنالیاگیا۔ 25 مئی 1984ء کو گولڈن ٹیمپل سمیت اہم گردواروں پرایک لاکھ سے زیادہ فوج تعینات کی گئی۔
تین سے چھ جون تک آپریشن بلیوسٹار کے ذریعے سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔ یہ صرف امرتسر تک محدود نہیں تھا‘ سکھ اندراگاندھی کی کانگریس حکومت کے خلاف اٹھے ۔ 31اکتوبر کو اندراماردی گئی اور پھر سے پورے ہندوستان میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ جس میں تیرا اور میرا پریوار‘ سب کچھ گیا۔“
”لیکن اب صور تحال کیا ہے‘ سکھ قوم کے نوجوان خالصتان تحریک پر شرمندہ نہیں ہیں کیا؟ وہ اس تحریک کو ایک گھناؤناخواب سمجھتے ہیں‘ میرانہیں خیال کہ دوبارہ اس تحریک کا جنم ہوگا۔
یہ مرچکی ہے‘ میرا تجربہ ہے انوجیت کہ لوگ خالصتان کی بات ہی نہیں کرنا چاہتے‘ خوف زدہ ہیں۔ ڈرتے ہیں‘ انہیں اپنی جان زیادہ عزیز ہے۔“ جسپال نے یوں کہا جیسے وہ بے حد جذباتی ہوگیا ہو اور ایسے میں وہ بات کہنا نہ چاہتا ہو جووہ کہہ رہا تھا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو لیکن میں نے تمہیں وہ رخ نہیں دکھایا جس میں سکھ قوم اپنی آزادی کے لیے کس طرح تیار ہورہی ہے۔
“انوجیت نے یوں کہا جیسے وہ اسے یقین دلارہاہو۔
”اتنا اثر تو رہے گا میری جان‘ تین لاکھ سے زیادہ سکھ مارا گیا ہے‘ ہرسکھ ایک کہانی ہے‘ میرا اور تمہارا پریوار مارا گیا ہے تو آج ہم اپنے مستقبل کی پلاننگ کی بجائے انتقام لینے کی بات کررہے ہیں۔ ایک پوری نسل محض انتقام کا سوچ سوچ کر دوسری قوم کی ایک نسل سے پیچھے رہ جائے گی۔ چھوڑو‘ اس کو‘ تم آزاد خالصتان کے لیے کام کررہے ہو‘ کرتے رہو لیکن محض ہتھیار اٹھالینے سے کچھ نہیں ہوگا۔
اپنا کلچر بچاؤ‘ اپنی شناخت بچاؤ‘ امرت دھاری سکھ اتنی تعداد میں نہیں ہو رہے جتنی تعداد میں سکھ اپنے کیس کٹوارہے ہیں۔ جان لو کہ سکھوں میں وہ دم خم نہیں رہا۔“ جسپال نے کہاتو قریب بیٹھی ہرپریت کور نے اچانک کہا۔
”وہ سکھ ہی نہیں ہے جس میں دم خم نہ ہو‘ گروگوبندجی مہاراج کی تعلیمات ہی ایسی ہیں‘ میں مانتی ہوں کہ جنگجو سکھ اب دکھائی بہت کم دیتے ہیں لیکن یہ بھی سوچو کہ اب لڑائی کے انداز بدل گئے ہیں۔
دس طاقتور ترین سکھوں کے مقابلے میں ایک ذہین بندہ کافی ہے۔ اور دوسری بات شاید تم تک اس کااثر نہ پہنچاہو لیکن خالصتان تحریک پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ یہاں سے نکل کر پوری دنیا میں سکھ پھیل گیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں یہ گروکی مرضی تھی‘ کیونکہ وہاں وہاں تک دھرم پھیلا جہاں جہاں تک سکھ پہنچا۔ خالصتان تحریک ہندوستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔
دنیا کے ہر فورم پرجہاں سکھ کوبلایا جاتا ہے‘ وہاں وہ اپنا خیال دنیا کو دے رہا ہے۔ تم سے ہماری بحث نہیں‘ تم اپنا انتقام لواور واپس وینکوور چلے جاؤ‘ یا پھر یہاں رہوگے تو خالصتان کی بازگشت تمہیں سنائی دیتی رہے گی۔“ ہرپریت نے بے حدجذباتی لہجے میں یوں کہا تھا کہ جیسے وہ ایک دم ہی سے متنفر ہوگئی ہے۔ تبھی پھوپھوکلجیت کور نے ان تینوں پرنگاہ ڈالی اور آہستگی سے بولی۔
”چھوڑو اس بحث کو‘ یہ سوچو کہ ارداس کے لیے کون سا دن رکھیں اور کس کس کوبلانا ہے۔ میراخیال ہے کہ حویلی میں اپنے سارے جاننے والوں کوبلایا جائے۔“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط