”بالکل ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ ایک کام اور بھی کیاجائے۔ بہت سارا کھانا بنایا جائے اور اوگی پنڈ کے ہر گھر میں وہ کھانا پہنچایا جائے۔“جسپال نے کہاتو انوجیت نے کہا۔
”کھانا تو بن جائے گا لیکن ہرگھر قبول نہیں کرے گا۔ ابھی تجھے بتایا ہے کہ اس اوگی پنڈ میں آدھے گھر ہندوؤں کے ہیں‘ اس کاطریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ کھانا بنادیاجائے اور جس کا دل چاہے ‘ وہ لے جائے۔
“
”اوکے‘ جیسے تم چاہو۔“ جسپال نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا تو ہرپریت بولی۔
”اچھا‘ اب میں کچھ اپنی بات کرلوں؟“
”جی‘ کہو۔“ انوجیت نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”حویلی کے لیے تمام تر شاپنگ میں کروں گی۔ اور کل صبح سے میں جالندھر جایا کروں گی‘ وہاں سے سامان خریدنے…“
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ ایک دن کاکام تو ہے نہیں ‘ میرے خیال میں پہلے تم یہ طے کرلو‘ کہ حویلی میں کیا کیا چیز چاہیے ہوگی‘ اور وہ کیسی ہو۔
(جاری ہے)
“ انوجیت نے اپنی رائے دی۔
”یہ مشورہ بھی اچھا ہے۔“ ہرپریت سوچتے ہوئے بولی۔ پھر چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد کہا۔ ”چلو آج پھر میں طے کرلیتی ہوں۔“
اس نے کا تو کلجیت کور اٹھتے ہوئے بولیں۔
”اچھا‘ میں ذرا کچن میں جھانک لوں‘ جوتی نے آج کیا بنایا ہے۔“
”میں ذراباہر سے ہوآؤں‘ کچھ لوگ انتظار کر رہے ہیں میرا‘پیغام پر پیغام آرہے ہیں۔
“ انوجیت سیل فون دیکھتے ہوئے کہااور اٹھ گیا۔ تو ہرپریت نے جسپال کی طرف دیکھ کر کہا۔
”اب تمہارا کیا پروگرام ہے؟“
”جیسے آپ کہیں…مجھے تویوں لگتا ہے کہ جیسے میں بنایا ہی آپ کے لیے گیاہوں۔“ اس نے آہستگی سے مسکراتے ہوئے کہا توہرپریت ایک لمحے کو شرماگئی‘ اس کے چہرے پرسرخی آگئی‘ پھر خود پرقابو پاکربولی۔
”یہ کس فلم کے ڈائیلاگ ہیں۔
“
”مجھے یاد نہیں۔“ جسپال نے ڈھٹائی سے کہاتو قہقہہ لگا کر ہنس دی۔ پھربولی۔
”چلو آؤ‘ حویلی کے بارے میں تھوڑا پلان کرتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے چلو۔“ اس نے اٹھتے ہوئے کہاتو ہرپریت بھی اٹھ گئی۔
جسپال کو اپنے کمرے میں پہنچے تھوڑی دیر ہوئی تھی‘ اس کے ذہن میں حویلی کے بارے میں ہی سوچ تھی کہ اچانک اس کا سیل فون بج اٹھا۔
یہ جسمیندر کی کال تھی‘ جس کامطلب تھا کہ وہ آن لائن ہوجائے۔اس نے جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایااور اسے آن کردیا۔ کچھ دیر بعد وہ آن لائن تھا۔ کچھ دیرباتوں کے بعد اس نے کہا۔
”جسپال! تم نے ابھی جالندھر جاناہے‘ وہاں تم ایک ریسروٹ میں رہوگے ‘ اور جاتے ہوئے تم رن ویرسنگھ کو بتاکر جاؤگے۔ اس سے یہ بھی پوچھنا کہ تم پرحملے کے مجرم پکڑے گئے ہیں کہ نہیں۔
“
”مجھے جالندھر میں کیا کرنا ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”اپنی جائیداد کے حصول کے لیے کچھ ضلعی آفیسرز سے ملنا ہے‘ جس کے لیے تم نے وہاں کے ایک وکیل کیشیو مہرہ کی خدمات لی ہیں‘ وہ تم سے خود آکر ملیں گے‘ باقی باتیں وہ تمہیں خود سمجھادیں گے۔“
”ٹھیک ہے‘ میں ابھی نکلتاہوں۔“ جسپال نے کہا۔
”تمہیں ابھی ہی نکلناہوگا۔ یہ یاد رکھنا کہ تمہاری ہر پل کی نگرانی ہوگی۔
ابھی بھی تمہارے گھر کے آس پاس لوگ موجود ہیں۔“ جسمیندر سنگھ نے اسے سمجھایا۔ پھر چند ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ آف لائن ہوگیا۔ اب نجانے اس میں کیا راز تھا۔ اس نے ایک لمحے کو سوچااور ہرپریت کو فون کردیا اس نے فون پک کرلیا۔
”خیریت تو ہے جسی جی۔“ اس کے لہجے میں ہلکی سی تشویش تھی۔
”ہمیں ابھی جالندھر جانا ہے‘ پھوپھو کو بتادو اور خود بھی تیار ہوجاؤ۔
دس منٹ ہیں تیرے پاس۔“
”خیریت تو ہے نا؟“اس نے تیزی سے پوچھا۔
”راستے میں بتادوں گا‘ ویسے خیریت ہی ہے۔ ہری اپ…“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ پھر رن ویر سنگھ کے نمبر ملاتے ہوئے اس نے اپنی الماری کھول دی۔ کچھ دیر بعد اسکانمبر مل گیا۔
”جسپال جی‘ کیسے یاد کرلیا ہمیں ؟‘ رن ویر سنگھ نے کافی حد تک خوشگوار موڈ میں کہا۔
”آپ کے قانون کی پاسداری کے لیے آفیسر۔‘حالانکہ آپ آفیسر ہیں نہیں‘ مگرمیں آپ کوخوش کرنے کے لیے کہہ رہاہوں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ دھیرے سے ہنس دیا۔
”قانون میرا نہیں ‘ سب کا ہے‘ بھارت ماتا کے سارے لوگوں کا۔“ اس نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا تو جسپال طنزیہ انداز میں بولا۔
”اگر ایسا ہوتانا ،رن ویر سنگھ صاحب ‘ تومجھے یہاں آکر اتنی محنت نہ کرناپڑتی‘ بلکہ آپ کو ایسے فون بھی نہ کرناپڑتا۔
“
”کیوں …؟“ رن ویر سنگھ نے پوچھا تووہ بولا۔
”مجھے ابھی جالندھر جانا ہے‘ جہاں مجھے کچھ آفیسرز سے ملنا ہے‘ چونکہ آپ نے مجھے اپنی موومنٹ کے بارے میں بتانے کے لیے پابند کیاہے‘ اس لیے بتارہاہوں۔“
”یہ تو آپ اچھا کررہے ہیں۔“ اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”ممکن ہے‘ میں ا س بارے میں اپنے وکیل سے مشورہ کروں‘ کیونکہ آپ کا قانون بے چارہ اتنا اندھا ہے کہ مجھ پرحملہ کرنے والے لوگوں کو ابھی تک پکڑ نہیں سکا۔
ویسے مجھے نہیں لگتا کہ قانون اندھا ہے۔“ جسپال نے ہنستے ہوئے کہا۔
”تو آپ کو کیا لگتا ہے۔“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”کھلی آنکھوں کے ساتھ بھی اندھا بننے کا ڈھونگ کررہا ہے۔ ورنہ اب تک وہ میرے مجرم کوپکڑ لیتا‘ خیر…! دوچار دن لگ جائیں گے مجھے۔“ جسپال نے تیزی سے کہا۔
”وہاں قیام کہاں ہوگا۔“ رن ویر نے پوچھا۔
”ظاہر ہے میرا وہاں جاننے والا ایسا کوئی نہیں‘ کسی ہوٹل وغیرہ میں ٹھہروں گا۔
اگر آپ کسی اچھے ہوٹل یا قیام گاہ کے بارے میں بتادیں تو…“ جسپال نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”مجھے نہیں سمجھ آرہی کہ آپ وہاں کیوں ٹھہریں گے۔زیادہ سے زیادہ بیس کلومیٹر کا سفر ہے‘ آپ آسانی سے واپس آسکتے ہیں روزانہ۔“ رن ویر سنگھ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”یہ میرا معاملہ ہے۔ اسے میں بہتر سمجھتا ہوں۔ پتہ نہیں ‘کب‘ کس سے اور کہاں ملاقات ہوجائے۔
مجھے تو بہرحال اپنا مقصد حل کرنا ہے نا…“ وہ تیزی سے بولا۔
”ٹھیک ہے‘ جاتے ہوئے تھانے سے…“ رن ویر سنگھ نے کہنا چاہا مگر جسپال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”نہیں آفیسر…! ایسے نہیں‘ میں تھانے نہیں آؤں گا۔ بہت ضروری ہے تو اپنا بندہ یہاں بھیج دو۔ میں دس پندرہ منٹ بعد یہاں سے نکل جاؤں گا۔ اوکے اینڈ بائی۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنا فون بند کردیا۔
”وہ تیار ہو کر ڈرائنگ روم میں آیا تو ہرپریت اپنے بیگ کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ سوچوں میں ڈوبی ہوئی کلجیت کوربھی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے زیادہ باتیں نہیں کیں۔ ہرپریت اس کے ساتھ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جسپال نے کلجیت کور کے پاس جاکر دھیمے سے کہا۔
”پھوپو اپنا خیال رکھنا‘ میں نے انوجیت کوفون پر بتادیا ہے۔“
”جاپتر۔ رب تیری خیر کرے۔“ یہ کہہ کر اس نے سرپر پیار دیا‘ تب وہ دونوں باہر نکل گئے۔
# # # #