گاؤں میں عشاء کی اذان کب کی ہوچکی تھی۔ اس وقت چھاکا چھت پر جاکر وہ اسلحہ اکھٹا کررہاتھا جس کی ہمیں ابھی تھوڑی دیر بعد ضرورت پڑنے والی تھی۔ میں باہر والے کمرے میں سے نکل کر صحن میں آگیا‘ جہاں اماں اور سوہنی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں ان کے پاس جاکر رک گیااور پھربڑی سنجیدگی سے بولا۔
”ماں‘ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب تک تیز ہوجانے والی چھری میں اپنے دشمنوں کے گلے پر پھیردوں‘ اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ میں گھر آبھی پاؤں گایانہیں‘ لیکن میں آنے کی بھرپور کوشش کروں گا کہ مجھے ابھی تیرا مقدمہ بھی لڑنا ہے۔
آج رات بہت بھاری ہے‘ گزر گئی تو سوہنی کامعاملہ کل ہی حل ہوجائے گا۔“
”بیٹا…! میری دعائیں ہر وقت تیرے ساتھ ہیں۔ میں نہیں جانتی تونے کیا کرنا ہے کیا نہیں‘ لیکن اتنا یاد رکھنا‘ سوہنی کے ساتھ میں نے وعدہ کیا ہے اوریہ وعدہ ہم نے نبھانا ہے۔
(جاری ہے)
“ اماں نے کہا تو مجھے یوں لگا جیسے ایک اور اہم ذمہ داری مجھ پر آن پڑی ہے‘ جسے اب فقط میں نے ہی پورا کرنا ہے ۔
ممکن ہے‘ اس وقت میں کوئی بات کرتا‘ بھی اوپرمنڈھیر پر چھاکے نے جھانکتے ہوئے کہا۔
”اوئے جمالے …جلدی اوپرآ…“
اس کے بلانے میں کچھ ایساتھا کہ میں انتہائی تیز رفتاری سے سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ حالانکہ میرا جوڑ جوڑ درد کررہاتھا‘چھت پر پہنچا تو نہ صرف میرا سانس پھول چکاتھا بلکہ کمرمیں شدید درد ہو رہی تھی۔میرے پوچھنے سے پہلے ہی چھاکے نے سڑک کی جانب اشارہ کیا‘ جہاں کافی ساری گاڑیوں کا ایک قافلہ رکاہواتھا۔
اندھیرے میں گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس میں گاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ یا پھر وہ لوگ جو ادھر ادھر پھررہے تھے‘ ایسا ہونامعمول سے ہٹ کر تھا‘ مگر پھر بھی میں نے کہا۔
”ممکن ہے کوئی شادی وغیرہ ہو‘ بارات کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔“
”لیکن باراتوں کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اسلحہ لے کر نہیں گھومتے۔غور سے دیکھو ذرا۔“ چھاکے نے یوں کہا جیسے کسی گہرے کنویں سے بول رہا ہو۔
”توپھر کون ہوسکتے ہیں؟“ میں نے تیزی سے پوچھا تووہ اسی لہجے میں بولا۔
”ممکن ہے ہمارا ہی کوئی دشمن ہو‘ ہمارا کوئی ایسا دوست نہیں ہے جو اتنابڑا لاؤ لشکر رکھتاہو۔“
”تو بس پھر ہوجاؤ تیار‘ دشمن ہوگا تو دیکھ لیں گے۔“ میں نے کہااور اسلحے کی جانب بڑھاتھا کہ اُسے اٹھانے میں چھاکے کی مدد کروں‘ ایسے میں ہمارے گھر کا گیٹ بجا‘ میں نے تیزی سے اپناپسٹل نکالااور گلی کی طرف والی منڈیر پر پہنچا۔
گلی میں اندھیرا تھا‘ اور ہمارے گھر کے باہر ایک شخص کھڑا تھا‘ پہلی نگاہ میں وہ پہچانا نہیں گیا لیکن ذرا غور کرنے پرمیں پہچان گیا۔ وہ سرداروں کاخاص ملازم فخرو تھا۔
”اس و قت اس کایہاں کیا کام ۔“ میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہااور سیڑھیاں اتر گیا۔ اس وقت تک چھاکامنڈیر تک چلا گیا تھا۔ میں نے گیٹ کھولا تو سامنے کھڑے فخرو نے کہا۔
”شکر ہے تم گھرپرہی مل گئے ہو۔
باہر والا دروازہ کھولو‘میں نے تم سے بات کرنی ہے۔“
”تم نے جو بات کرنی ہے‘ یہیں کرلو۔“ میں نے تیزی سے کہا تووہ انتہائی تحمل سے بولا۔
”دیکھو…! سردار صاحب ‘ خود تم سے بات کرنے کے لیے یہاں تک آئے ہیں۔ وہی سوہنی کے بارے میں بات کریں گے‘ اس لیے دروازہ کھولو‘ اطمینان سے لیکن چپ چپاتے ہی بات کرنی ہے۔ اس لیے …“
”اچھا…! گاؤں کے باہر جو لشکر لے کر آئے ہو‘ وہ تمہی لوگوں کا ہے‘ میں اگر تمہاری بات نہ مانوں تو تم مجھ پر …“ میں نے کہنا چاہا تووہ میری بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”تم نے بات ماننے یانہ ماننے کا ابھی فیصلہ کرلیا ہے‘یہ ٹھیک ہے کہ گاؤں کے باہر لوگ کھڑے ہیں مگر سردار صاحب یہاں گلی کی نُکر پر ایک چھوٹی گاڑی میں ہیں۔ صرف میں اور وہ ہیں۔ بات کریں گے‘ اور چلیں جائیں گے‘ اس میں تیرا ہمارا اور گاؤں کا فائدہ ہے۔“ فخرو نے سمجھانے والے انداز میں کہاتو میں نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا۔
”ٹھیک ہے جاؤ‘ لے آؤ سردار کو‘ لیکن اگر تیسرابندہ ہوا تو پھر…“ میں نے فقرہ جان بوجھ کر ادھورا چھوڑ دیا۔
میری مزید بات سنے بغیر فخرو تیزی سے واپس پلٹ گیا۔ میں نے پلٹ کر گیٹ بند کیا تو سوہنی ساتھ میں کھڑی تھی۔ اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی‘ بلاشبہ اس نے ساری بات سن لی تھی۔ میں نے باہر والا دروازہ کھولا ‘ لائٹ آن کی اور دروازے میں کھڑا ہوکرانتظار کرنے لگا۔ میراہاتھ پسٹل پر تھا کیونکہ میں نے ایک چھوٹی کار گلی میں آتے ہوئے دیکھ لی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ میرے دروازے کے سامنے آکررک گئی۔ اس میں سردار کے ساتھ فخرو ہی تھا‘ سردار شاہ دین تیزی سے میرے کمرے میں آگیااور آتے ہی میری جانب ہاتھ بڑھایا‘ میں نے اس سے ہاتھ ملایا تووہ بولا۔
”تجھے معلوم ہے ناکہ میں آج تک چل کر کسی کے گھر نہیں گیا۔ صرف تیرے گھر تک آیاہوں اور تم مجھے بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کہوگے۔“
”سردار صاحب! اس وقت آپ میری مرضی سے نہیں‘ اپنی خواہش سے آئے ہیں۔
جس طرح آپ آگئے ہیں‘ اس طرح آپ بیٹھ بھی خود ہی جائیں گے۔ “ میں نے اپنے لہجے کو کافی حد تک طنزیہ ہونے سے بچاتے ہوئے کہا۔ تب تک وہ ایک کرسی پربیٹھ گیاتھا۔ میں سامنے والی کرسی پربیٹھ گیا‘ فخرو باہر کارہی میں تھا۔ سردار چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا۔
”میں شاہ زیب کی حرکت پر شرمندہ ہوں۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔“
”اس نے جو کرناتھا وہ کرلیا‘ مجھ سے جوہوسکا ‘میں بھی کرنے کوتیارہوں۔
آپ فکرنہ کریں‘ یہ معاملہ چلتا رہے گا اب‘ آپ سنائیں‘ آپ میرے گھر تشریف لائے ہیں‘ حکم کریں۔“ میں نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔ مجھے اس کی چرب زبانی اور منافقت پرایک دم سے گرمی آگئی تھی۔
”میرے خیال میں‘سب کچھ غلط فہمی میں ہوگیا۔تمہاری طرح وہ بھی نوجوان ہے‘ میں چاہتاہوں تم دونوں آپس میں صلح کرلو‘ باقی پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔
“
”ٹھیک ہے‘ گاؤں کے چوک میں بس مجھے اور شاہ زیب کو تھوڑی دیر اکیلا چھوڑ دیں۔ پھر صلح ہی صلح ہوگی ہماری۔“ میں نے سردار شاہ دین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ غصے میں آگیا تھا۔ مگرمیں اس وقت حیران رہ گیا جب وہ بولا تو انتہائی تحمل سے کہنے لگا۔
”دیکھ میں تم سے کچھ اور باتیں کرنے آیاہوں۔یہ شاہ زیب والا معاملہ کسی طرح ختم کرو‘ ہم وہ بات کریں۔
“
”تونہ کرو‘ میں نے کہہ دیا جوکہناتھا۔“ اچانک مجھے بھی غصے نے مجبور کردیا کہ اسے صاف جواب دے دوں۔”سردار جی…! اس نے مجھے قتل کرنے کاحکم دے دیاتھا‘ پولیس منگوائی تھی کہ مجھے پار کردیں۔ اور کیا یہ سب اس نے آپ کی اجازت کے بغیر کیا‘ اگر کیا تو بڑی نالائق اولاد ہے آپ کی‘ اسے تو سزاملنی چاہیے۔“
”دیکھو‘ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے‘ میں اس کے لیے بہت کچھ کرسکتاہوں‘ میں اس کی غلطی مان رہاہوں نا۔
“ سردار نے لجاجت سے کہا۔
”سردار جی آپ نے اگر کوئی دوسری بات کرنی ہے تو کریں‘ مجھے معلوم ہے کہ میرے نہ ماننے سے آپ نے کیا پلان کیا ہواہے۔ آپ نے جو فوج سڑک پر کھڑی کی ہوئی ہے نا‘ وہ میری نگاہ میں ہے‘ وہ فوج بھیجیں‘ میں نے اس کا توڑ بھی کیا ہوا ہے‘ میں نے بچپن سے اب تک آپ ہی کی نفسیات کو سمجھا ہے ‘کیوں سمجھا ہے یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔
“
”تم گڑھے مردے مت اکھاڑو لڑکے‘ تم شاید اسے میری مجبوری سمجھ کر کہ میں چل کر تیرے گھر آگیا ہوں‘ تو اپنی حد سے باہر ہورہا ہے۔ اپنے آپ پر سوچ‘ اپنی بوڑھی ماں پررحم کر… تو جو مانگتا ہے‘ میں تجھے دے دیتاہوں‘ لیکن یہ سارا تماشہ ختم کر‘ وہ جو میری بیٹی ہونے کی دعویدار بنی پھرتی ہے‘ اسے لے کر کہیں چلا جا‘ اس تماشے کو زیادہ لمبا کروگے تو کچھ حاصل نہیں ہونے والا‘ میں…“وہ سمجھانا چاہ رہاتھا کہ سوہنی اندر آگئی۔
وہ پورے لباس میں تھی اور آنچل سے سرڈھکا ہواتھا۔سردار نے گھوم کر اسے دیکھااور لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے۔ وہ بولی۔
”کتنا ظالم معاشرہ ہے تمہارا‘ ایک عورت کو کھلونا سمجھااور دوسری عورت جو اس کی بیٹی ہے اس سے انکار کرتے ہو۔“
”تم جو کوئی بھی ہو‘ جس کسی کی بھی سازش لے کر یہاں تک آئی ہو‘ میں وہ …“
”اب مجھے تیرے جیسے شخص کوباپ کہنے پر شرمندگی ہو رہی ہے‘ میں نے سوچا تھا کہ شاید تیرے اندر کا خون جوش مارے گا‘ لیکن نہیں… ایسا نہیں ہی‘ اپنی اولاد کو دیکھ کر تو والدین کا من تڑپ اٹھتا ہے‘ شاہ زیب تیرابیٹا ہے اور میں نہیں…“ اس نے بڑے طنز سے کہا۔
”نہیں ہونا‘ اس لیے …“
”تویہ طے ہوا سردار شاہ دین کہ تم میرے باپ نہیں‘ مگر میں نے اپنا دعویٰ سچ ثابت کردینا ہے‘ پھر تم نے مجھے بیٹی قبول کرناہے‘ تب میں نے انکار کردینا ہے‘ پھر جو میں ثابت کروں گی‘ تم اس سے بھی انکار نہیں کرپاؤگے۔“
”میں تمہیں زندہ ہی نہیں چھوڑوں گا۔“ سردار نے انتہائی غصے میں کہا۔
”دیکھو سردار! یہ گھٹیا دھمکی کسی اور کودینا۔
تم یہ مت سمجھنا کہ میں ایک طوائف زادی‘ یہاں آکر دعویٰ کروں گی اور تم اسے آن کی آن میں ماردوگے‘ یہ تمہاری بھول ہے۔ میں آج کی لڑکی ہوں‘ سارے بندوبست کرکے آئی ہوں۔ ملک سجاد جیسے بندے کو اگرموت کے منہ میں ڈال دیا ہے تو…میں اپنا تحفظ کرسکتی ہوں۔ گولی چلا کر دیکھو‘ تم تو کیا شاہ زیب بھی نہیں رہے گا۔“ سوہنی نے دانت پیستے ہوئے کہا۔