”دیکھو‘ تم بہت بول چکی ہو‘ تمہاری زندگی اسی میں ہے کہ رات کے اندھیرے میں اسی طرف لوٹ جاؤ جنہوں نے تمہیں سازش کے تحت یہاں بھیجا ہے‘ چار دن جی لوگی۔“ سردار نے نہایت غصے میں مگر دھیمی آواز میں کہاتو سوہنی نے بڑے اعتماد سے کہا۔
”یاد ہے سردارجی ایک سال قبل آپ اپنا تفصیلی چیک اپ کروانے گئے تھے لاہور‘ آپ کے ڈاکٹر نے آپ کو خصوصی طور پر بلوایا تھا۔
“
”ہاں کیوں؟“ وہ تیزی سے بولا۔
”وہ میں نے ایک بڑی رقم دے کر ڈاکٹر کو راضی کیا تھا کہ آپ کو بلوائے اور آپ کا اور میرا ڈی این اے ٹیسٹ کروائے۔ مجھے بھی شک تھا کہ میں شاید آپ کی بیٹی نہ ہوں۔ میری ماں غلط بیانی کررہی ہو۔ محض دولت کے لیے‘ آخر طوائف ہے نا… میں نے کچھ عرصہ کی مہلت لی ہے اس سے‘ میں نے اپنا آپ فروخت کیا ہے اپنی ماں کو… میں نے کہا‘ اگر میں ایک خاص عرصے تک اسے، اس کی سوچی ہوئی دولت سے دوگنا نہ دے دوں‘ اس وقت تک وہ مجھ پر اپنا کوئی فیصلہ مسلط نہیں کرے گی۔
(جاری ہے)
ٹیسٹ نے ثابت کردیا کہ تم میرے باپ ہو اور میں تمہاری ناجائز اولاد…“ سوہنی کہتی چلی گئی۔ آخری لفظ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں انتہائی نفرت اتر آئی‘ تبھی وہ چیخا۔
”یہ جھوٹ ہے‘ فراڈ ہے‘ ایسا کچھ بھی نہیں ہے‘ میں اسے غلط ثابت کردوں گا۔“
”میں تو کہتی ہوں کہ تم مجھے غلط ثابت کرو‘میں اس عذاب سے نکلنا چاہتی ہوں کہ میں کوئی شریف زادی ہوں‘ میڈیا حاضر ہے‘ وہاں غلط ثابت کرو‘ عدالت میں غلط ثابت کرو‘ اور یاپھر ابھی اور اسی وقت میری زبان بند کردو‘ ماردومجھے۔
“ سوہنی نے بھی اسی طرح چیختے ہوئے کہا ۔ سردار آنکھیں پھاڑے اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ کیا کہے اور کیا کرے‘ پھرسکون سے بولا۔
”تم اب بھی ہوش کرو‘ اور چلی جاؤ یہاں سے‘ خیریت اسی میں ہے۔“
”کل کا سورج‘ کس کے لیے کیا لائے گا‘ نہ تم جانتے ہو اورنہ میں… اور ابھی تم اتنے بڑے حاکم نہیں بنے کہ مجھے یہاں اس گھر سے نکال دو‘ جہاں تم خود سوالی بن کر کھڑے ہو‘ جاؤ‘ اور جاکر مجھے مارنے کے لیے بندے بھیج دو‘ کیونکہ میں تو یہاں آئی ہی مرنے کے لیے ہوں۔
اور سنو… میں یہاں کھڑی اتنا حق رکھتی ہوں کہ تمہیں یہاں سے جانے کے لیے کہہ دوں۔“
”تم حد سے بڑھ رہی ہو لڑکی…“ سردار کو جلال آگیا۔
”توپھرمجھے میری حد میں رہنے دو سردارجی‘ میں بتارہی ہوں ‘ کل میں میڈیا کے سامنے یہ ثابت کروں گی کہ میں سردار شاہ دین ایم این اے کی بیٹی ہوں۔ اور شاہ زیب میر ابھائی ہے۔ چاہے سگانہ سہی… میں جب لاہور سے چلی تھی تو سارے قانونی معاملات طے کرکے آئی تھی کہ اگرمیری موت ہوجاتی ہے تو اس کاذمے دار کون ہوگا۔
مجھے کوئی خوف نہیں ہے‘ چاہے تو ابھی گولی ماردو‘ مجھے اچھا لگے گا کہ میر ے باپ نے مجھے گولی ماری ہے۔“
یہ سن کر پہلے اس میری طرف دیکھا‘ پھر بولا کچھ نہیں اور اٹھ کرباہر نکلتا چلا گیا۔ میں تیزی سے دروازے تک گیا۔ وہ جلدی سے کار میں بیٹھ کر نکلتا چلاگیا۔
میں باہر والے دراوزے کو لگا کر پلٹا تو سوہنی اندر جاچکی تھی۔میں صحن میں گیا تووہ اماں کو ساری روداد بتارہی تھی۔
اسے ساری بات کہنے میں کچھ وقت لگناتھا‘ لیکن مجھے یہ دیکھنا تھا کہ سڑک پر رکاہو اقافلہ کیا کررہا ہے؟ اس کی حرکت ہی سے میرا اگلا قدم اٹھنے والا تھا۔ میں نے چھت پر جاکر دیکھا‘ چھاکا ادھر ہی نگاہیں جمائے کھڑا تھا۔ میں نے تیزی سے نہایت اختصار کے ساتھ ساری روداد کہہ دی‘ وہ چپ چاپ سنتارہا پھر بولا۔
”اگر یہ قافلہ گاؤں کی جانب آجاتا ہے تو تم فوراً نیچے آجانا‘ میں یہ سارا اسلحہ لے کر جارہاہوں‘ اماں اور سوہنی کومیں نے بتادیا ہے کہ انہوں نے کہاں جانا ہے۔
“
”کہاں…“میں نے پوچھا۔
”میرے گھر کے ساتھ… ماسی کبریٰ کے گھر ‘وہ وہاں سے محفوظ مقام کی طرف چلی جائیں گی‘ مطلب وہاں گاڑی ہے ان کے لیے …قصبے میں یا شہر یا لاہور… جدھر بھی۔وہ میں نے بندوبست کردیاہے‘ بس ان کو سنبھالنا ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے گنیں اٹھائیں اور سیڑھیاں اترتاچلاگیا۔
میں ایک لمحے کو حیران ہوگیا کہ وہ کیا کچھ سوچ کر اس کی حفاظتی تدابیر کررہا ہے‘ حالانکہ میرے اندازے کے مطابق ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا تھا جہاں ایک گولی بھی چلتی۔
لیکن وہ جو کررہاتھا، ٹھیک کررہاتھا ۔ میں بھی اس کی جگہ ہوتا تو پہلے حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ کرتا‘ بعد میں اندازوں پر انحصار کرتا۔ میں اس طرف بڑے غور سے دیکھ رہاتھا جہاں قافلہ اب بھی رکاہواتھا۔ شاید سردار شاہ دین ابھی تک وہاں نہیں پہنچا تھا۔ ایسے میں میرے کاندھے پراک نرم سا ہاتھ آن ٹھہرا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا وہ سوہنی تھی۔ وہ بڑے جذباتی انداز میں میرے چہرے پر دیکھ رہی تھی۔
میں چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔
”بہت جرات دکھائی تونے‘ اتنی بدتمیزی کے ساتھ۔“ میں نے کہناچاہا تو اس نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ پھر لرزتی ہوئی آواز میں کہتی چلی گئی۔
”مجھے اخلاقیات پر کوئی لیکچر مت دینا جمال‘ وہ شخص میرے وجود کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں صرف اس لیے کہ میں ایک گند ہوں‘ وہ مجھے ایک گندے وجود میں پھینک آیا تھا‘ مجھے میری شناخت تو اس نے کیا دینی ہے‘ مجھے تو یوں صاف کرنے کی بات کررہاتھا جیسے کچرا صاف کرتے ہیں۔
وہ جرات نہیں‘میرے اندر کا زہرتھا جو ہوش سنبھالنے کے ساتھ ساتھ میرے اندر بھرتا رہا ہے۔کیا قصور ہے میرا‘میری تویہ مرضی نہیں تھی کہ میں ایک طوائف کے گھر میں پیدا ہوئی‘ لیکن معاشرے نے میرے ساتھ جو رویہ رکھا‘ مجھے جس طرح ایک نیچ‘ کم ذات اور گندگی جانا‘ وہ میرے لیے لمحہ لمحہ تازیانہ ہے‘ جمال‘ یہ نقاب ڈالے شریف زادے تو ہم سے بھی زیادہ گھناؤنے ہیں‘ ملک سجاد کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ ایک وجود کو خریدے‘ یہی ناکہ اس کے پاس دولت ہے‘ کوئی اس معاشرے میں ایسا نہیں ہے جو اس سے پوچھے کہ اس کے پاس اتنی دولت آئی کہاں سے؟ نہیں جمال نہیں‘ مجھے کوئی اخلاقی لیکچر مت دینا۔
“
اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
”اور تجھے وہ اگر قبول کربھی لے تو یہ معاشرہ قبول نہیں کرے گا۔“
”مجھے پرواہ نہیں ہے۔ اور میں اب جینا بھی نہیں چاہتی ہوں۔ موت کا ڈر میں نے کب کاختم کردیا ہے۔ اور تم بھی یہ جان لوجمال‘ اس میں ہمت نہیں ہے کہ مجھے مار سکے۔“
”تم پہلے تومجھے یہ کہہ چکی ہو کہ اب تک ڈر سے خاموش تھی‘ یہ اچانک …“ میں نے کہنا چاہا تووہ بولی۔
”تمہاری وجہ سے جمال ‘ صرف تمہاری وجہ سے… میں نے جب اپنے بارے میں اماں کو سب کچھ سچ بتایا تو اماں نے بھی اپنی داستان مجھے سنادی‘ یقین جانو‘ جس دن موت کا خوف ختم ہوگیا‘ میں اس دن زندہ ہوگئی۔ اماں نے مجھے زندہ کردیا‘ تمہارا سہارا‘ میرے لئے بہت بڑا حوصلہ ہے جمال۔“
”وہ دیکھ رہی ہو سامنے …“ میں نے قافلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”یہ سردار شاہ دین کا قافلہ ہے‘ اس کے حکم پر بے تاب‘ ہمیں لمحوں میں ختم کرسکتا ہے۔ یہی قافلہ اگر دندناتا ہوا یہاں آئے اور ہم پرحملہ کردے…میرے پاس اتنی طاقت نہیں ہے۔“ میں نے اعتراف کیا۔
”لیکن تمہارے پاس حوصلے کی بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ میں مانتی ہوں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو میں نے کہا۔