Episode 72 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 72 - قلندر ذات - امجد جاوید

”جھوٹ‘ جیسے کہ تم نے سردار کے سامنے بولا‘ یہ کب تک چل سکتا ہے۔ حالانکہ…“
”نہیں‘ نہیں میں نے جھوٹ نہیں بولا جمال‘ جو وہا ں کہاں بالکل سچ کہاہے ۔ تمہارے اس گاؤں میں میرے کچھ لوگ ہیں‘ جو ایسے ہی کسی وقت کے لیے منتظر ہیں۔ قانونی معاملات میں طے کرکے آئی ہوں اور یہ سن لو… میں نے پولیس کے اعلیٰ حکام سے بھی فون کروادیا ہے۔ سردار کو یہ معلوم ہے کہ یہ معاملہ پولیس کے علم میں ہے‘ دیکھنا یہی قافلہ ابھی پلٹ کر جائے گا‘ وہ جو سوچ کرآیا تھا وہ اسے نہیں ملا‘ طوائف زادی ہوں‘ مرد کی آنکھ پہچانتی ہوں۔
“ آخری لفظ کہتے ہوئے اس نے اپنی آنکھ دبادی‘ ماحول ایک دم سے بدل گیا۔ چند لمحے پہلے آنسو بھری جذباتیت تھی وہ ختم ہو کررہ گئی۔ میں اس قافلے کو غور سے دیکھنے لگا جو حرکت میں آچکاتھا‘ وہ لوگ واپس جارہے تھے۔

(جاری ہے)

اور پھر کچھ وقت بعد وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔

”وہ تو گئے…“ میں نے سرسراتے ہوئے کہا‘ تبھی سوہنی میرے بالکل قریب ہوتے ہوئے بولی۔
”ایسا ہی ہوگا… اور جو کل ہونے والا ہے‘ اس کابھی مجھے اندازہ ہے۔ لیکن تم شاہ زیب کے ساتھ کیا کرتے ہو‘ اس کامیں کچھ نہیں کہہ سکتی۔“
”اس کے بارے میں تمہیں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔“ میں نے کہا تو کھلکھلا کر ہنس دی‘ پھر میری گردن میں اپنی بانہیں حمائل کرتے ہوئے بولی۔
”آج بہت خوش ہوں میں…“
”اس لیے کہ سردار کے ساتھ تمہارا آمنا سامنا ہوگیا۔
“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں‘ میں آج تمہارے اتنے قریب ہوں۔ اب انجان نہیں بننا جمال… زندگی کے چند حسین پل بہت سوچ سمجھ کر اور بہت خوشی سے گزار دینا چاہتی ہوں۔“
ایسے ہی لمحے میرے دماغ میں اچانک ایک خیال رینگ گیا جس کے تحت میں نے اس کی کمر میں اپنا بازو ڈالتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگالیا‘ پھر اس کی گردن پر دھیرے سے اپنے گال مس کرتے ہوئے کہا۔
”بس ساتھ چلنا‘ بوجھ مت بننا۔ چلتے چلیں جائیں گے۔“
میرے یوں کہنے پر اس نے مجھے زور سے بھینچ لیا‘ جس کے باعث دوپہر کی لگی چوٹیں ایک بار پھر سے جاگ اٹھیں۔ اس کی گرم جوشی سے مجھے اندازہ ہو رہاتھا کہ وہ کس قدر خوش ہے۔ اب میں یہ نہیں جانتاتھا کہ اس کی یہ خوشی کیسی تھی‘ میں نے دھیرے سے اسے الگ کیا اور بڑی نرمی سے بولا۔
”اب مجھے جانے دو‘ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
“اس نے کچھ نہیں کہا‘ صرف مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھتی رہی‘ میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا بلکہ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا نیچے چلا گیا۔ پہلی نگاہ میں اماں مجھے دکھائی نہیں دی‘ جب غور سے دیکھاتو وہ دالان میں جائے نماز بچھائے سجدے میں تھیں۔ میں نے بائیک اٹھائی اور باہر کی طرف نکلتا چلا گیا۔حالانکہ میرا جسم دوپہر کی چوٹوں سے دُکھ رہاتھا۔
گاؤں سے باہر ایک مخصوص ٹھکانے پر چھاکا سب دوستوں کے ساتھ تیار بیٹھا ہواتھا۔ میں نے جاکر بائیک روکی تووہ تیزی سے بولا۔
”حویلی میں اچھی خاصی پولیس آگئی ہے۔ لگتا ہے انہوں نے بہت زیادہ سیکیورٹی کرلی ہے اپنی۔“
”لیکن تومجھے یہ بتا‘ رندھاوے کی کوئی خبر نہیں‘ اس کی طرف سے کوئی خبر نہیں آئی۔“ میں نے پوچھا تووہ بولا۔
”اب اس کی طرف سے شاید ہی کوئی خبر آئے‘ کیونکہ وہ معطل ہوگیا ہے ۔“
”اس کامطلب ہے‘ کوئی نیا بندہ آگیا ہے یہاں۔“ میں نے اپنے طو رپر اندازہ لگایا۔
”لگتاتو ایسا ہی ہے لیکن مجھے پیرزادوں کی خاموشی اچھی نہیں لگ رہی ہے۔“ چھاکے نے مجھے اشارے میں بتایا تومیں نے چارپائی پر پھیلتے ہوئے کہا۔
”چھوڑو یار‘ کچھ کھانے پینے کابندوبست کیا ہے تو کھلاؤ‘ بہت بھوک لگی ہے۔
کھاپی کر سوچتے ہیں کہ اب کیا کرنا ہے۔“
وہ میری بات سمجھ گیا کہ اب کیا کرنا ہے‘ سو اس نے موضوع ہی بدل دیا۔
میں اس وقت کچھ سوچنا چاہ رہاتھا‘ شام ہوتے ہی میں نے جو پلان کیا تھا‘ وہ یکسر بدل چکاتھا۔ اگر سردار شاہ دین میرے گھر نہ آتاتو میں کچھ اور ہی کرنے جارہاتھا۔ میرا ٹارگٹ شاہ زیب تھا۔ میں اسے اغواء کرکے سردار شاہ دین کو نچانا چاہتاتھا۔
شاہ دین کے آنے سے اور پھر سوہنی کی اس سے تلخ کلامی کے بعد جو صور تحال بنی تھی اب اس میں شاہ زیب کا اغوا بنتانہیں تھا۔ میرا اصل ٹارگٹ صرف یہ تھا کہ پورے علاقے کے لوگوں کے سامنے ان سرداروں سے سوال کروں کہ شاہ زیب نے مجھے اغوا کیوں کرایااور قتل کرنے کی کوشش کیوں کی؟ اس کانتیجہ کچھ بھی نکلتا‘ میرا مقصد حل ہوجانا تھا۔ وہیں میں نے سوہنی کا قصہ چھیڑنا تھا کہ شاہ زیب مجھے صرف سوہنی کی وجہ سے قتل کرنا چاہتا ہے۔
 
سوہنی سردار شاہ دین کی بیٹی ہے۔یہ ثابت ہوتا یا نہ ہوتا لیکن علاقے کے لوگوں کو اک نیا موضوع مل جاتااور مخالفین تو اس بات کو اچھال دیتے۔ میری سوچ اپنی جگہ رہ گئی اور ساری تیاری دھری کی دھری۔ کل دن چڑھے دلبر کے ایصال ثواب کے لیے علاقے سے بہت سارے لوگ آنے والے تھے۔افواہیں جو گردش کرتے کرتے واقعات کی صورت اختیار کرگئی تھیں‘ اس نے دلبر کے قتل کو بہت سنسنی خیز بنایاہواتھا۔
وہاں بہت سارے لوگ اکھٹے ہوناتھے اور میری کوشش تھی کہ میں وہاں پر اپنا سوال رکھوں‘ شاہ زیب کو اغوا کیے بغیر میرا مقصد حل ہو رہاتھا۔
”اویار‘ اب کیا کرنا ہے‘ ہمیں تو بتاؤ۔“ میرے ہی ایک ساتھی نے اکتاہٹ سے کہا تو میں نے چونکتے ہوئے کہا۔
”اس وقت شاہ زیب کا اغوا بہت مشکل ہے‘ بہت ساری سیکیورٹی ہے‘ ایویں خواہ مخواہ بندے مروانے والی بات ہے‘ میرا خیال ہے کہ آج رہنے دیں۔
“ میں نے اپنی صلاح دے دی تو کچھ دیر بحث کے بعد سبھی نے مان لیا کہ میں ٹھیک کہہ رہاہوں۔
”توپھر کیا کریں‘ یہیں پڑے رہیں۔“اس نے دوبارہ پوچھا۔
”نہیں اپنے اپنے گھر چلیں۔ مناسب موقع دیکھتے ہی…“ میں نے کہا تومیرے دوست اپنی اپنی جگہ سے اٹھے اور وہاں سے نکلنے لگے‘ پھر کچھ دیربعد میں اور چھاکا وہیں رہ گئے۔ ذرا ٹھہر کر ہم بھی وہاں سے نکل پڑے۔
پھر تقریباً ساری رات کسی بھی صورتحال کے لیے منتظر رہے مگر کچھ نہ ہوا۔
اس وقت سورج نہیں نکلا تھا‘ لیکن صبح کا نور ہرجانب پھیل چکاتھا۔ تقریباً دو گھنٹے کی نیند لے کر میں بیدار ہوچکاتھا۔ اور ٹھنڈے پانی سے نہا کر اپنی کسلمندی دور کرچکا تھا جب ہمارے گھر کا گیٹ بجا۔ میں لاشعوری طور پر کسی بھی غیر متوقع صورت حال کے لیے تیار تھا۔
میں نے اپنا پسٹل ہاتھ میں لیااور گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔ میں نے گیٹ کی جھری سے باہر جھانکا‘ تومجھے اکیلا فخرو کھڑا دکھائی دیا۔ میں نے محتاط انداز میں گیٹ کھولا تو فخرو نے کہا۔
”اچھا ہوا تو گھرپر ہی مل گیا۔ کہیں بیٹھ کربات کرتے ہیں۔“
”میں باہر والا کمرہ کھولتا ہوں۔“میں نے کہا اور گیٹ بند کرکے اندر آیا۔ اس وقت تک سوہنی صحن میں آکر متجسس نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اشارہ کیا اور باہر والا دروازہ کھولنے چلا گیا۔ فخرو نے اطمینان سے بیٹھنے کے بعد کہا۔
”مجھے سردار صاحب نے تم سے حتمی بات کرنے کے لیے بھیجا ہے۔“
”تو بولو‘ کیا کہتا ہے تمہارا سردار…؟“ میں نے آہستگی سے پوچھا۔
”جومعاملہ جہاں ہے‘ اسے وہیں ختم کردو۔ کروڑدو کروڑ روپیہ اس سوہنی کو دو اور قصہ ختم کردو۔
باقی اگر تم سردار سے کچھ چاہتے ہو تو وہ بتادو…“ فخرو نے یوں کہا جیسے وہ اس معاملے کو ذرا بھر بھی اہمیت نہیں دینا چاہتے‘ ان کا خیال تھا کہ روپے پیسے سے یہ معاملہ ختم ہوجائے گا۔سومیں نے بڑے سکون سے کہا۔
”پہلی تو بات یہ ہے فخرو کہ میرا سردار سے معاملہ الگ ہے‘ اور سوہنی کا الگ۔ ہاں ممکن ہے اس وقت ہم دونوں کامعاملہ ایک ہوجائے‘ جب ہم دونوں شادی کرلیں‘ کیونکہ مشترکہ دشمن کے لیے دو اجنبی دوست بن سکتے ہیں۔
”تم یہاں تک سوچ سکتے ہو؟“ فخرو نے حیرت سے پوچھا۔
”امکانات ہیں نا‘ انہیں رَدّ تو نہیں کیا جاسکتا‘ لیکن بہرحال ہم دونوں کے اب تک معاملات مختلف ہیں۔ میں تو چاہتاہوں لیکن سوہنی کی تو اپنی شناخت کامعاملہ ہے۔ سردار کی بیٹی ثابت ہوجانے کامطلب کیا ہے کہ وہ بھی اس جاگیر کی حصہ دار ہوگی‘ کون پاگل ہے جو اتنی بڑی جاگیر کاحصہ چھوڑ کرکروڑ دو کروڑ لے کر الگ ہوجائے‘ سارے ہی لوگ اس سردار کے مزارعے یا رعایا نہیں ہیں۔
عقل سمجھ رکھتے ہیں۔“ میں نے اسی سکون سے کہا۔
”لیکن تم اس سے بات تو کرواسکتے ہو۔“ فخرو نے تیزی سے پوچھا۔
”تم کروگے بات…“ میں نے جواب دینے کی بجائے اس سے پوچھا۔
”نہیں…!خود سردار صاحب کریں گے بات۔“ اس نے کہا۔
”میں بلالیتاہوں اسے‘تم اس سے بات کرکے دیکھ لو۔“ میں نے کہا اور اٹھ کراندر جانے لگا تو سوہنی ایک دم سے اندر آگئی اور بڑے گھمبیر لہجے میں بولی۔
”جمال‘ سرداروں کے اس نوکر سے کہو کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی‘ میرے معاملے پر سردار شاہ دین کے علاوہ کوئی مجھ سے بات نہ کرے۔ سردار کے لیے میرا پیغام ہے کہ دلبر کی ایصال ثواب کی محفل تک اس کے پاس وقت ہے۔ ورنہ میں نے وہاں بیٹی ہونے کا اعلان تو کرہی دینا ہے۔“
”ٹھیک ہے‘ ان دونوں ہی کی بات ہوجائے گی‘ میں انہیں جاکر ابھی بتادیتاہوں۔
“ فخرو نے اٹھتے ہوئے کہا تومیں نے اس سے پوچھا۔
”مگر یہ بات ہوگی کہاں؟“
”ظاہر ہے یہ بی بی صاحبہ حویلی جائیں گی ‘ وہیں جا…کر…ہی بات…“فخرو نے اٹکتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے جمال‘ میں حویلی چلی جاؤں گی‘ لیکن کیا گارنٹی ہے کہ مجھے وہاں قتل نہیں کیا جائے گا‘ اس کی صرف یہی صورت ہے کہ شاہ زیب کو تمہارے حوالے کردیاجائے تو میں حویلی چلی جاؤں گی‘ ورنہ‘ ایصال ثواب کی محفل ختم ہونے کاانتظار کرلے ،اب اسے کہو جائے‘ خواہ مخواہ وقت ضائع نہ کرے۔
“ سوہنی نے تیزی سے کہااور کمرے سے باہر نکلتی چلی گئی۔ فخرو‘ کتنی ہی دیر تک میرے چہرے پر دیکھتا رہا‘ پھر جب کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا تو تیزی سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اورمیں اس صورت حال پرمسکرا کر رہ گیا۔ حالات نے کس طرح پلٹا کھایا تھا‘ اب تک لوگوں کو اپنی حاکمیت کے بل بوتے پر نچانے والے‘ میرے اشاروں پر ناچ رہے تھے۔
                                       # # # #

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط