”مطلب‘ انہیں اپنا آپ دکھایا جائے کہ ہم نہایت شریف آدمی ہیں۔“ جسپال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”بالکل! آپ کا یہاں ہونا صرف تفریح اور میرے ساتھ لوگوں کے ساتھ ملنا ملانا ہے۔ کمرے میں بھی ایسی کوئی بات نہیں کرنا‘ممکن ہے کوئی خفیہ کیمرہ‘ یا مائیک‘ لگا ہو‘ مطلب آپ جس قدر بہتر انداز میں ان تک اپنا پیغام پہنچا سکیں‘ ہوسکتا ہے یہی جوڑا آپ کے نزدیک ہونے کی کوشش کرے یا کوئی نیا آجائے۔
“ مہرہ نے مسکراتے ہوئے یوں کہا جیسے بہت دلچسپ بات بتارہاہو۔ اتنے میں بہرہ کھانا لگانے لگا۔
”اچھا آپ آنے والے دنوں میں خدوخال کی بات کررہے تھے۔“ ہرپریت نے پوچھا تو مہرہ ہنس دیااور پھر بولا۔
”اسمارٹ گرل… میں مانتاہوں کہ تم بہت بہادر اور ذہین ہو لیکن ابھی یہ مرحلہ طے ہوجانے دو‘ ابھی ہم دودن یہاں ہیں‘ بہت ساری باتیں ہوں گی‘ فی الحال تو ہمیں کھانے پر توجہ دینی چاہیے۔
(جاری ہے)
“
کھانے کے دوران وہ یہاں کے عدالتی نظام‘ جائیداد کے امور کے بارے میں باتیں‘ جالندھر میں اپنے اثرورسوخ اورایسی ہی بہت ساری باتیں کرتا رہا۔ ان کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ یونہی گپ شپ میں کھانا ختم ہوگیا۔ پھر کچھ دیر بعد کیشیو مہرہ اٹھ کر چلا گیا۔ وہ اس کے ساتھ ڈائننگ ہال سے باہر تک آئے۔ اس دوران اس جوڑے کو انہوں نے غور سے دیکھا۔
”لوجی‘ پھر صبح آپ نے میرے پاس آجانا ہے‘ اور آنے سے پہلے مجھے فون کردینا ہے‘ ابھی میں کسی عدالت میں پیش نہیں ہو رہااور یہ دو دن آپ کے لیے ہیں۔“ اس نے پہلے جسپال سے ہاتھ ملایااور پھر ہرپریت سے ہاتھ ملا کر خوش دلی سے بولا۔ ”اور تمہارا سوال مجھ پر ادھار رہا۔“
”میں منتظر رہوں گی۔“ اس نے کہا تووہ پارکنگ کی جانب بڑھ گیا۔
اور وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
کمروں کی رَو کی دوسری جانب ایک بڑا سارا لان تھا‘ سبز لان جس کے کناروں پر پھول اُگے ہوئے تھے۔ اس میں بید کی نفیس کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ دھیمی دھیمی روشنی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے دور دور جوڑے بیٹھے ہوئے باتوں میں مصروف تھے۔ وہ بھی ایک سنسان سے گوشے میں جاکر کرسیوں پربیٹھ گئے۔
”چائے پئیں یاسوڈا…“ جسپال نے بیٹھتے ہی پوچھا۔
”فی الحال تو چائے پیتے ہیں۔ نیند تو آئے گی نہیں ابھی‘ باتیں کرتے ہیں ۔“ہرپریت بولی۔ اس کے لہجے میں نجانے کیوں یاس ٹپک رہی تھی۔ جس پر جسپال نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”خیر تو ہے‘ تم یکدم اداس ہوگئی ہو؟“
”نہیں‘ میں اداس نہیں ہوں۔“وہ پھر اسی لہجے میں ہی بولی۔
”کہیں مہرہ کی بات کا براتو نہیں منایا تم نے؟“ اس نے پوچھا۔
”نہیں۔“اس نے سرہلاتے ہوئے دکھ سے کہا۔
”توپھر یہ تمہارا لہجہ…؟“ جسپال نے تشویش سے پوچھا۔
’جسپال! دیکھو ہم بحیثیت سکھ قوم‘ اس ملک میں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں‘ جس کے لیے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دیں۔ اس ملک میں ہمارا تاریخی قتل ہوا جس کی آزادی کے لیے ہم نے جنگ لڑی… اب یہاں ہم محکوم کی زندگی گزار رہے ہیں‘ کیا ہے ہماری قوم کا مستقبل؟“
”میں بتاؤں… اصل میں کسی بھی حریت پسند قوم کو ختم کرنا ہونہ تو اس میں حریت جیسے جذبے کو مار دیاجاتا ہے۔
اس کے دو طریقے ہیں میری جان‘ ایک تو اسے لذت پرستی پر لگادو‘جیسے آج کل سکھ قوم کے نوجوان سب سے زیادہ شراب پیتے ہیں‘ عورت استعمال کرتے ہیں‘ گندے سے گندہ گانا‘ سنتے ہیں‘بلکہ سبھی ناچ گانے کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ پنجاب دنیا بھر میں وہ خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ شراب پی گئی ہے۔“ میرا نہیں‘ اقوام متحدہ کے اداروں کا سروے ہے۔
سکھ قوم کو شراب میں ڈبویاجارہا ہے‘ پوری پلاننگ کے ساتھ۔ ہر گاؤں میں شراب بیچنے والی دکان ہے‘ کیوں نہیں ختم کرتے …اوردوسرا طریقہ ان پرخوف مسلط کردو‘انہیں ذلیل کرو‘ اتنا ذلیل کرو کہ ان میں حریت کی خوہی نہ رہے۔ یہ سب کچھ سکھوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور سکھ ہی اپنی جاہلیت کی بنا پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔“ جسپال بھی اچانک ہی جذباتی ہوگیا۔
”توپھر‘ یہ طے ہوا جسپال …اوگی میں ہم لوگوں کے پاس جائیں گے اور اس بارے میں مہم چلائیں گے۔ انہیں اس کاشعور دیں گے۔“ ہرپریت نے جسپال کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
”جذباتی انداز میں فیصلہ کرلینا بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے پریتو… لیکن ہم ایسا کچھ کریں گے‘ کم از کم اپنی حد تک ضرور کچھ کریں گے۔
“ یہ کہتے ہوئے اس نے طویل سانس لیا‘ پھر مسکراتے ہوئے بولا۔ ”میں نے چائے کاپوچھا تھا۔“
”چلو‘ چل کر کمرے میں پیتے ہیں۔ اگر یہاں رومانوی جوڑا بن کر رہنا ہے تو ویسا ہی رہیں۔ ایویں خواہ مخواہ خود پر ڈپریشن طاری کیا ہوا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے ہرپریت زبردستی مسکرادی۔
وہ دونوں اٹھ کر چہل قدمی کے سے انداز میں اپنے کمرے کی طرف جانے لگے۔
تبھی ہرپریت نے کہا۔
”جسی…! کیا تمہیں اس کیشیو مہرہ پریقین ہے۔ کیا یہ سب کچھ ٹھیک کہتاتھا؟“
”مجھے اس کی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں پریتو‘ میرے لیے تو وہ جسمیندر سنگھ تھا‘ سمجھ لو کہ اس نے اپنا سایہ دو بدو ملاقات کے لیے یہاں بھیج دیا اور میں جانتا ہوں کہ اس کے بدلے اس نے مہرہ کو نجانے کتنا بڑا فائدہ دیا ہوگا جو یہ ہمارے پاس یہاں تھا۔
باقی دیکھتے ہیں‘ وہ دو دن میں کیا کرتا ہے۔“ جسپال نے چابی دروازے میں لگاتے ہوئے کہا‘ پھر اندر داخل ہوتے ہی روشنی ہوگئی۔ انہوں نے دروازہ اندر سے لاک کرلیا۔
کچھ دیربعد وہ دونوں ایک بیڈ پر آلیٹے۔ دونوں ہی ہلکے پھلکے لباس میں تھے۔ دھیمی روشنی میں ہرپریت کا ساتھ‘ جسپال کو وہ ماحول بہت اچھا لگ رہاتھا۔ قربت کااپنا ہی ایک نشہ ہوتا ہے۔
وہ دونوں کتنی ہی دیر تک ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ تبھی ہرپریت نے کہا۔
”جسی …! کبھی تم نے سوچاتھا کہ تم پنجاب آؤگے اور میرے جیسی سرپھری لڑکی سے ملاقات ہوگی اور یوں ہم ایک ہی بیڈ پر اتنے قریب ہوں گے۔“
”میں نے سوچا تو نہیں تھا‘ سچی بات تو یہ ہے ‘ لیکن میرے لاشعور میں کہیں تھا کہ اگر مجھے کوئی لڑکی پسند آئی تووہ پنجاب ہی سے ہوگی ‘کیونکہ پھوپھو سکھ جیت کور نے ہمیشہ پنجاب کی لڑکی کاایک خاکہ میرے ذہن میں ابھارا تھا‘ جو مجھے بہت اچھا لگتاتھا‘ تم بالکل ویسی ہو‘ بس کبھی کبھی اچھی نہیں لگتی…“ جسپال نے سوچنے والے انداز میں کہا۔
”وہ کیوں ؟“ وہ چہک کر بولی۔
”جب تم یہ جین اور شرٹ پہنتی ہو اور یورپین کی طرح لگتی ہو۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”کیا یہ بری بات ہے‘ نہ پہنوں؟“ اس نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔