‘’ارے نہیں‘ ایک طرح سے یہ اچھا بھی ہے۔ چینج رہتا ہے‘ لیکن سچی بات ہے تم شلوار قمیص میں بہت پرکشش لگتی ہو۔“ وہ اس کے بالوں سے کھیلتا ہوا کہنے لگا۔”اس کے علاوہ تمہاری باتیں بہت اچھی ہیں‘ جس میں خلوص ہوتا ہے‘ ورنہ وینکور میں جس لڑکی سے بھی بات کرلو‘ اس کی ہر بات میں کہیں نہ کہیں کوئی مقصد یالالچ ہوتا ہے۔“
”کیا وہ سب ایسی ہیں؟“
”اس میں ان کاقصور نہیں ہے‘ وہاں ماحول ہے نا ایک‘ مادی معاشرہ ہے‘ جہاں صرف اپنی ذات کے متعلق ہی سوچا جاتا ہے۔
“ اس نے کہاتو ہرپریت وینکوور کی باتیں کرنے لگی‘ اپنی باتوں میں وہ گم ہو کر کب سوگئے‘ انہیں احساس ہی نہیں رہا۔
صبح وقت پر تیار ہوگئے‘ ہرپریت نے موتیا رنگ کا شلوار قمیص پہن لیا تھا اورہلکاہلکا میک اپ کرلیا۔
(جاری ہے)
جسپال بھی تیار ہوگیا۔ انہوں نے ناشتہ وہیں کمرے میں منگوالیا۔ تقریباً دس بجے انہوں نے کیشیو مہرہ کو فون کیا تو اس نے انہیں گپتا کالونی کے پاس ایک چوک تک آنے کا کہا‘ تاکہ پھر وہ اکھٹے ہی آگے نکل جائیں۔
جس وقت وہ دونوں لابی سے گزر رہے تھے‘ انہیں وہ رات والاجوڑا وہیں بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔ اگر مہرہ نے ان کی نشاندہی نہ کی ہوتی تو شاید وہ اسے اتفاق سمجھ کر نظر انداز کرچکے ہوتے۔ دونوں نے اپناکوئی رسپانس نہ دیا اور چلتے ہوئے پارکنگ میں جاپہنچے۔
”پریتو…! ان دونوں کے علاوہ ہم میں کوئی دلچسپی لے رہا ہے۔“ یہ دیکھو۔“
”مجھے احساس تونہیں ہوا ابھی‘ میں پہلے ہی دیکھ رہی ہوں۔
“ وہ بولی۔
’‘’اچھا…ڈرائیونگ تم کرنا‘ مجھے راستوں کا علم نہیں ہے۔“ جسپال نے کہا تو ہرپریت نے چابی پکڑی اور ڈرائیونگ سیٹ پرجابیٹھی۔ دونوں نے غیر محسوس انداز میں اردگرد کاجائزہ لیا۔ انہیں کوئی دکھائی نہیں دیا۔ البتہ وہی جوڑا اب باہر آگیا تھا۔ ہرپریت نے گاڑی نکالی اور ریسروٹ سے باہر نکلتی چلی گئی۔ تبھی جسپال مسکرا دیا۔
ریسروٹ کے باہر ایک کار کھڑی تھی۔ وہ دونوں اس میں آبیٹھے تھے۔ ان کے بیٹھتے ہی کار چل پڑی جو ان کے تعاقب میں بڑھتی چلی آرہی تھی۔
”پریتو…! ہمارا تعاقب شروع ہوگیا ہے۔ اب دھیان سے۔“ جسپال نے ہنستے ہوئے کہا تووہ بولی ۔
”میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی کہ ہم ان کی نگاہوں سے کہیں اوجھل ہی نہ ہوجائیں۔“
”نہیں‘ اس کی نظر ہی میں رہیں گے‘ جو ہمیں اپنی نگاہ میں رکھنا چاہتا ہے۔
“ جسپال نے کہا تو ہرپریت نے رفتار بڑھا دی۔ درمیان میں مہرہ کا فون بھی آیا تو اس نے تعاقب کے بارے میں بتا کر موجودہ پوزیشن کے بارے میں بتایا۔ کچھ دیر بعد وہ گیتاکالونی کے اس چوک میں پہنچ گئے جہاں مہرہ نے انہیں بلوایا تھا۔ فون پر رابطہ کے بعد وہ کالونی کے پا س مل گئے۔
صبح کے وقت لوگوں کے دفتر جانے کا رش بہت حد تک کم ہوگیا تھا۔ ٹریفک اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن پھربھی لوگ اپنے اپنے معاملات اور زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کے باعث سڑک پر آجارہے تھے۔
کافی ٹھہراؤ ساتھا۔ مہرہ سڑک کی دوسری جانب کالونی کے گیٹ کی طرف تھا‘جبکہ انہوں نے آگے کے یوٹرن سے مڑ کر واپس آناتھا۔ ہرپریت بڑی احتیاط سے گاڑی موڑ کر چلتی ہوئی ان کے قریب آگئی۔ مہرہ گاڑی سے باہر نکل کر ان کاانتظار کررہاتھا۔ ہرپریت نے بھی گاڑی ان کے قریب جاکرروک دی۔ جسپال پہلے نکل کرمہرہ کی جانب بڑھ گیا۔ دونوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔
پھر دوچار رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد وہ بولا۔
”یہاں میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ اس گپتا کالونی میں ایک شخص رہتا ہے جو یہاں کے محکمہ مال کے ایک بڑے آفیسر کا سارا معاملہ دیکھتا ہے۔ جاب تووہ کلرک کی کرتا ہے لیکن بہت پہنچی ہوئی چیز ہے۔ میری اس سے ابتدائی ملاقات توہوگئی تھی۔ اب آپ لوگوں سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔“
”اس ملاقات کامقصد…؟“ جسپال نے پوچھا۔
”یہ طے کرنا ہے کہ آپ اسے رقم کتنی دوگے‘ مطلب ڈیل ہوگی۔“ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ تبھی جسپال نے دیکھا کہ ہرپریت بھی کار سے نکل کر ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔
”ٹھیک ہے‘ جیسا آپ چاہو‘ بات تو آپ ہی نے کرنی ہے۔“ یہ لفظ ابھی جسپال کے منہ ہی میں تھے کہ اس نے ہرپریت کی پشت پہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو دیکھا‘ پیچھے بیٹھے ہوئے نوجوان نے گن ان کی طرف سیدھی کرلی تھی۔
جسپال کے دماغ میں گھنٹیاں بج گئیں۔ اس نے چیخ کر ہرپریت کو پکارا۔
”ہرپریت… بچو…“
اس کی آواز تیز فائرنگ میں دب کررہ گئی۔
فائرنگ کی آواز سے ماحول جھنجنا اٹھا تھا۔ جسپال کے سامنے ہرپریت تھی اچانک ہی سڑک پر گر گئی تھی‘ اس کے پیچھے کار تھی ‘ جس میں وہ حملہ آور آئے تھے۔ پھرسڑک کے دوسری طرف دورویہ سڑک پر وہ موٹرسائیکل والے تھے ۔
جسپال نے لمحوں میں فیصلہ کرلیا کہ اسے کیا کرنا ہے‘ یہ تو اسے پورا یقین تھا کہ ہرپریت کوگولی لگ چکی ہے۔ اسے سنبھالنے والے وہاں پر کوئی اور ہو نہ ہو لیکن کیشیومہرہ تو تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ حملہ آوروں کو ہاتھ سے نہ نکلنے دے۔ یہ فیصلہ اس نے لمحے کے ہزارویں حصے میں کرلیاتھا اور اس کے ساتھ ہی وہ چلتی ٹریفک کی پرواہ کیے بغیر حملہ آوروں کی طرف دوڑا۔
اس کا رخ اس جانب سے تھا، جدھر حملہ آوروں کامنہ تھا۔ فطری طور پرانہوں نے سامنے ہی کی طرف بھاگنا تھا‘ اگر وہ اپناموٹر سائیکل موڑتے تو اس میں انہیں وقت لگناتھا‘ یاپھر نیافائر کرنے کے لیے اسے گن تو سیدھی کرنا ہی تھی۔ جسپال کواپنی جانب لپکتا دیکھ کر موٹر سائیکل سوار نے فرار ہوناچاہا۔ اس نے گیئر تو پہلے ہی لگایا ہواتھا۔ جب تک جسپال ان کے قریب پہنچا‘ انہوں نے موٹر سائیکل دوڑالی‘ تبھی اس کا ہاتھ فائر کرنے والے اس شخص کو لگا جو پیچھے بیٹھا ہوا تھا‘ ہاتھ کچھ اس طرح پڑاتھا کہ موٹر سائیکل ڈگمگاگئی۔
وہ اپناتوازن برقرار نہ رکھ پائے۔ پیچھے والا جسپال کے قابو میں آگیا تھا۔ لیکن موٹر سائیکل چلانے والا توازن نہ ہونے کے باوجود بھی ڈگمگاتا ہوا نکل گیا۔ حملہ آور جیسے ہی زمین پر گرا وہ سپرنگ کی مانند اچھلا‘ اس نے گن سنبھالنے اور اٹھانے کی بھی زحمت نہیں کی اور بھاگ نکلا۔ جسپال اس کے پیچھے تھا۔
وہ سڑک پار کرکے گیتا کالونی کی مخالف سمت میں تیر ہو گیا۔
جسپال نے اسے نگاہوں میں رکھا اور اس کے تعاقب میں پوری قوت سے دوڑا۔ان کے درمیان میں تھوڑا سا ہی فاصلہ تھا۔وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہاتھا کہ پکڑانہ جاؤں اور یہ پوری قوت صرف کرکے اسے اس لیے پکڑ لینا چاہتاتھا کہ اس حملہ آور کے پیچھے کون ہے‘ وہ اسے بے نقاب کرنا چاہتاتھا‘ وہ سڑک سانپ کی آنت کی مانند پھیلتی ہی چلی جارہی تھی۔ تاہم لمحہ بہ لمحہ ان کے درمیان فاصلہ کم ہوتا چلاجارہاتھا۔
جیسے ہی ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ گیا‘ جسپال نے پوری قوت صرف کی اور اس پرچھلانگ لگادی۔ یہ داؤ کارگر ثابت ہوا‘ حملہ آور اس کے شکنجے میں آگیا۔ دونوں سڑک پرجاگرے‘ حملہ آور نے جس قدر مزاحمت کی‘ جسپال نے اسی قدر اسے تھپڑوں اور گھونسوں پررکھ لیا۔ چند لمحے ہی گزرے ہوں گے‘ حملہ آور ہانپ گیا مگر جسپال نے اسے نہیں چھوڑا‘ اس نے حملہ آور کو ٹھوکروں پررکھ لیا۔
یہاں تک کہ حملہ آور نے مزاحمت ترک کردی۔ اور بے جان ہو کرسڑک پرپھیل گیا۔
یہ تو ہوہی نہیں سکتاتھا کہ بھری سڑک پر دو آدمی لڑرہے ہوں اوران کے گرد تماشائی اکھٹے نہ ہوں‘ جن لوگوں نے سڑک پرفائر ہوتے دیکھاتھا‘ان میں سے کچھ لوگ بھی جسپال کے پیچھے آگئے تھے۔ جسپال نے شدت جذبات سے اس کی پسلی میں ٹھوکر مارتے ہوئے پوچھا۔