”جمال…! تیرے پیچھے جو لڑکی بیٹھی ہے‘ اسے چپ چاپ میرے حوالے کردے… ورنہ اسے میں نے چھین تو لینا ہے‘ تو بھی اپنی جان سے جائے گا۔“
”لگتا ہے تو پاگل ہوگیا ہے شاہ زیب… اس لیے اول فول بک رہا ہے‘ تمہارے لیے یہی اچھا ہے کہ میرا راستہ چھوڑ دے۔“ میں نے سرد سے لہجے میں کافی اونچی آواز میں کہا تاکہ میری آواز دور تک پہنچے۔
”تو اگر یہ سمجھتا ہے ناکہ توڈیرے سے بچ کر آگیا ہے‘ تویہ تمہاری بہت بڑی بے وقوفی ہے‘ میں نے خود تجھے جانے دیا‘ تاکہ اب بھی تم سمجھ جاؤ اور اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ۔
اب یہ تمہارے لیے آخری موقع ہے‘ چلو شاباش…“
”اور میں بھی تجھے آخری موقع دے رہاہوں … پہلے تیرے باپ کا ادھار تھا‘ اب تیرا ادھار بھی لیے پھرتا ہوں یہ نہ ہو کہ ادھار آج ہی چکا دوں ۔
(جاری ہے)
“ میرے کہنے پر وہ چند لمحے مجھے غصے میں دیکھتا رہا‘ پھر اپنے بندوں کواشارہ کیا تاکہ وہ سوہنی کو بائیک پر سے اتار لیں‘ بالکل انہی لمحات میں ان سب کے پیچھے فائرنگ نے فضا کو دہلا کررکھ دیا۔
اس کے ساتھ ہی دائیں جانب سے شامیانوں میں سے کچھ لوگ نکل آئے اور بائیں جانب والی خالی گلی میں ایک جیپ دوڑتی ہوئی آتی دکھائی دی۔ سوہنی بائیک سے نیچے اتر گئی اور چلا کربولی۔
”رشتے میں تم میرے بھائی لگتے ہو… وہ بھی سوتیلے… میں نہیں چاہتی کہ تم…میرے ہاتھوں مرجاؤ۔ اس لیے جیسے آئے ہو ‘ ویسے ہی یہاں سے دفعا ہوجاؤ‘ کچھ دیر بعد میں خود حویلی میں آرہی ہوں‘ اپنے باپ کو بتادینا۔
“
”بے غیرت طوائف…تیری یہ جرات…“ شاہ زیب نے غصے میں پاگل ہوتے ہوئے کہا۔
”اوئے… بے غیرت باپ کے بے غیرت بیٹے… میں تم سے زیادہ اچھی طرح گالیاں نکال سکتی ہوں۔ اگر تیرے کسی بندے نے کوئی فضول حرکت کی تو اس کا خمیازہ تجھے بھگتنا ہوگا۔ دیکھ رہا ہے‘ تو اب میرے نشانے پر ہے…“ سوہنی نے غراتے ہوئے اردگرد اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اتنی دیرمیں شامیانوں کی طرف ہلچل مچ گئی تھی۔
وہاں سے لوگ باہر نکل کر ہمیں آمنے سامنے دیکھ رہے تھے۔ تبھی میں نے کہا۔
”اب جاتا ہے کہ ُادھار چکاؤں…“
یہ کہتے ہوئے میں بائیک سے نیچے اتر آیااور اس کی جانب بڑھنے لگا۔ وہ میری طرف کھڑا دیکھتا رہا‘ میں اس کے بالکل قریب چلا گیا اور جاکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ تب اس نے کہا۔
”بہت پچھتاؤگے جمالے…“
”کہو اپنے لوگوں کو مجھ پر فائر کریں‘ گولی چلا کر ماردیں مجھے‘ کہو…“ میں نے چیختے ہوئے کہاتو دائیں جانب سے کسی نے زور سے کہا۔
”خبردار اپنی جگہ سے کوئی نہ ہلے‘ ورنہ گولی مار دوں گا۔“
فطری طور پر میں نے اس طرف دیکھا تو وہ نیا ڈی ایس پی تھا‘ اور اس کے ساتھ کافی ساری نفری تھی‘ جنہوں نے ہم پرگنیں تانی ہوئی تھیں۔ تبھی سوہنی اس طرف منہ کرکے اونچی آواز میں بولی۔
”گولی اسے مارو آفیسر‘ جس نے ہمارا راستہ روکا ہے۔“
”تم لوگوں نے جدھر جانا ہے جاؤ… شاہ زیب آپ بھی جائیں۔
“ ڈی ایس پی نے تیزی سے کہا۔
”ہم نے تو حویلی جانا ہے ڈی ایس پی…“میں نے کہا تو شاہ زیب سمیت سبھی چونک گئے۔
”نہیں …بالکل نہیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے آگے بڑھا۔”اس وقت بالکل نہیں…“ کہتے ہوئے وہ ہمارے قریب آگیا۔ پھر شاہ زیب کو کاندھوں سے پکڑ کر کار میں بٹھانے لگا۔ وہ بیٹھ گیا تو میں بھی واپسی کے لیے مڑا۔ میں بائیک پرآن بیٹھا تو اس نے کار واپس موڑ لی۔
کچھ دیر بعد وہ اپنے بندوں سمیت وہاں سے چلاگیا۔ سوہنی کے ساتھ والے بندے گلی کی نُکر پرکھڑے رہ گئے اور ہم دلبر کے گھر کی طرف چلے گئے۔ سوہنی اندر گھر میں چلی گئی اور میں پنڈال میں چلاگیا۔
پنڈال میں علاقے بھر کے چیدہ چیدہ لوگ تھے۔ انہیں خبر ہوگئی تھی کہ شاہ زیب نے میرا راستہ روکاہے۔ پیرزادہ وقاص بھی ایک طرف اپنے لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہواتھا۔
میں خاموشی سے جاکر وہاں بیٹھ گیا۔ اس وقت دعا ہو رہی تھی‘ جب اچانک سردار شاہ دین کی آمد ہوگئی۔ ظاہر ہے وہ اکیلا نہیں تھا‘ اس کے ساتھ کئی سارے لوگ تھے۔ وہ بھی ایک طرف آکر دعا میں شامل ہوگئے۔ دعاختم ہوئی تھی کہ ڈی ایس پی میرے سر پرآن کھڑا ہوا۔ دھیرے سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
”جمال ذرا بات سننا۔“
میں اٹھ کر اس کے ساتھ ایک طرف ہوگیااور کہا۔
”جی‘ بولیں۔“
”میرے ساتھ ذرا دلبر کی بیٹھک میں چلو‘ تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“
اس نے کہا ہی تھا کہ میں سمجھ گیا۔ وہ رش کے اس وقت میں مجھے اپنے ساتھ رکھ کر سوہنی کااعلان روکنا چاہتاتھا۔ تبھی میں نے پیرزادہ وقاص کواشارے سے وہیں بیٹھے رہنے کو کہااور اس کے ساتھ چل دیا۔ ہم بیٹھک میں گئے ہی تھے کہ سردار شاہ دین بھی وہیں آگیا۔
میری طرف دیکھ کربولا۔
”بیٹھوبیٹا! میں تم سے بات کرنا چاہتاہوں۔“یہ کہہ کر وہ ایک کرسی پربیٹھ گیا۔
”بولیں۔“ میں نے کہااوراس کے سامنے والی چارپائی پربیٹھ گیا۔ ڈی ایس پی نے بھی ایک کرسی سنبھال لی۔
”اگر سوہنی کوبھی بلالو…“ شاہ دین نے کہا۔
”مجھے اس کے بلانے پرکوئی اعتراض نہیں ہے سردار صاحب‘ لیکن آپ نے موقع کھودیا… اس نے اگر یہاں بندے بلوائے ہوئے ہیں تومیڈیا کے لوگ بھی یہاں ہیں۔
ابھی تھوڑی دیر بعد وہ آپ کی بیٹی ہونے کااعلان کردے گی۔“
”جب ہم بات کررہے ہیں تو اعلان کی کیا ضرورت ہے؟“ شاہ دین نے کہا تو مجھے غصہ آگیا۔
”اس لیے کہ تمہارے بیٹے نے راستہ روک کر بے وقوفی کی ہے۔ شاید وہ ہمیں اکیلا ہی سمجھ رہاتھا۔“
”میں نے اسے بہت روکا تھا کہ ایسا مت کرو مگر اس نے میری بات نہیں مانی‘ وہی سوتیلہ پن‘ جائیداد کے کھوجانے کا دکھ…اور غصہ…“ اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔
”تو کیا آپ سوہنی کو اپنی بیٹی مان چکے ہیں۔“ میں نے چونک کرپوچھا۔
”نہیں مانوں گا تو وہ ثابت کردے گی۔ مجھے یہ پوری طرح احساس ہے۔“ اس نے کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند کہا۔
”ٹھیک ہے‘ پھر اسے کیا اعتراض…“ میں نے کہا۔