”جمال…! جب او ر جہاں تم چاہو‘ سوہنی چاہے‘ وہیں بات کرلو کہ وہ کیا چاہتی ہے‘ لیکن ہمارا ایک سیاسی کیریئر بھی ہے‘ ہم سب کچھ طے کرلیں گے۔ فی الحال یہ بات ہم لوگوں کے درمیان ہی میں رہے۔ باہر نہ نکلے ‘ اس میں ہم سب کا فائدہ ہے۔“ سردار نے یوں کہاجیسے یہ سب کچھ اسے بہت مشکل سے کہناپڑرہا ہو۔
”ٹھیک ہے سردار صاحب! لیکن بات وہی ‘کیا گارنٹی ہے کہ آپ اپنی بات سے نہیں پھریں گے۔
“ میں نے کہا تو شاہ دین کے چہرے پر ایک دم سے جلال آگیا۔ اس کاچہرہ غصے اور خفت سے سرخ ہوگیا۔ تبھی ڈی ایس پی بولا۔
”میں گارنٹی ہوں…تم شاید یقین نہ کرو‘ مجھے اوپر سے احکام ملے ہیں‘ سردار صاحب نہ بھی چاہیں تو میں نے یہ معاملہ حل کروانا ہے‘ یہاں تک کہ قانونی معاملات بھی …یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔
(جاری ہے)
“
”دیکھ لیں ڈی ایس پی صاحب‘ انہوں نے اپنی بات سے پھرجانا ہے‘ یہ ہمیں قتل بھی کرسکتے ہیں۔
“ میں نے اسے یاددہانی کرائی تووہ تحمل سے بولا۔
”نہیں… اب ایسا نہیں ہوگا۔ میں مانتا ہوں‘ وہ شاہ زیب کی بے وقوفی تھی‘ بہرحال جومعاملہ مل بیٹھ کر سکون سے طے ہوجائے‘ اس میں لڑنا جھگڑنا عقل مندی نہیں‘ سوہنی کاموقف بالکل ٹھیک ہے۔ اسے بلائیں تاکہ اسے بھی معلوم ہوجائے‘ پھر کل یا پرسوں ہم بیٹھ کر ہرچیز طے کرلیں گے۔“
”اوکے…! اسے بلانے کی ضرورت نہیں‘ ہوگئی بات…“میں نے کہااور اٹھ گیا‘ وہ بھی اٹھ گئے۔
پھر کچھ ہی دیر بعد وہ اپنی اپنی سواریوں پر چلے گئے اور میں پنڈال میں آگیا۔ پیرزادہ وقاص میرے انتظار میں اب بھی کھڑاتھا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
”ہاں بول جمالے…جاؤں…“
”ہاں…! سردار شاہ دین معافی مانگ گیا ہے۔“ میں نے یونہی کہہ دیا۔
”دل نہیں مانتا‘ مگر تو کہتا ہے تو مان لیتا ہوں ۔ خیر…! آکبھی ڈیرے پر یامیرے گھر‘ کچھ باتیں کرلیں۔
“ اس نے بڑے تحمل سے کہاتومیں نے تیزی سے حامی بھری۔
”میرابھی دل کرتا ہے‘میں ایک دو دن میں آتا ہوں۔“
”چل ٹھیک ہے‘ پھر رب کے حوالے…“ پیرزادہ نے کہااور اپنی مہنگی جیپ میں بیٹھ گیا۔ وہ چلاگیا تو آہستہ آہستہ لوگ بھی جانے لگے۔ میں نے چھاکے کے ذریعے سوہنی کو پیغام بھجوادیاتھا کہ سردار سے بات ہوگئی ہے۔
دوپہر کے بعد ہم اپنے گھر آگئے۔
سارے بندے اپنے ٹھکانے پرجاپہنچے اور میڈیا کے لوگ واپس چلے گئے جو کہ مقامی صحافی ہی تھے۔ سوہنی اور اماں اندر کمرے میں تھیں اور میں چھاکے کے ساتھ باہر والے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے ساری تفصیل بتادی تووہ بولا۔
”جمالے…! تو مان نہ مان‘ سردار کی اس میں بھی کوئی چال ہے۔ وہ وقت ٹال گیاہے۔“
”میں بھی یہی چاہتاتھا کہ وہ وقت ٹال جائے۔
“ میں نے کہا تو چھاکے نے چونک کرمیری طرف دیکھا‘ پھر دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولا۔
”کیاتوبھی وہی سوچ رہا ہے جومیں سوچ رہا ہوں۔“
”کیابھلا…؟“ میں نے پوچھا تووہ بولا۔
”اگر بات طے ہوگئی تومعاملہ ہی ختم ہوگیااور اگر معاملہ ختم ہوگیاتو پھر ہمارا سرداروں سے کیا لینا دینا۔ اس طرح کم ازکم دشمنی تو رہے گی۔“
”بالکل! اب سوہنی کی بہت زیادہ حفاظت کرناپڑے گی‘ اس کے ساتھ آئے بندوں کوہم کب تک یہاں رکھیں گے۔
“میں نے ایک تشویش ظاہر کی۔
”اس کی تم فکر نہ کرو‘بلکہ میں تجھے بتانے والا تھا‘ بہت سارے لوگ ہیں جو سرداروں کے خلاف ہیں‘ کسی نہ کسی طرح ان سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اب جڑ رہے ہیں ہمارے ساتھ۔ دوچار دن تک میں بتادوں گا کہ اب ماحول کیا ہے۔ تم پوری توجہ سے یہ سوہنی والا معاملہ حل کروادو‘ پھر ذرا سکون سے سوچتے ہیں کہ ان سرداروں کو ناکوں چنے کیسے چبوانے ہیں۔
“ اس نے انتہائی غصے میں کہا اور پھرپرسکون ساہو کرمیری طرف دیکھنے لگا۔ تب میں نے پرسکون سے انداز میں کہا۔
”چھاکے…! جو کھیل ہم شروع کرچکے ہیں‘ اب چاہیں بھی تو ختم نہیں کرسکتے۔ اب یہ اس وقت تھمے گا‘ جب ہم نہیں رہیں گے یاوہ نہیں رہیں۔“
”یہ تو ہے‘ لیکن اس کھیل کے انجام پر کیاہوگا‘ یہ بھی ہمیں معلوم نہیں‘ مگر مجھے ایک بات کی سمجھ آگئی ہے کہ آخر طاقت میں ایسا کیانشہ ہے۔
“ چھاکے نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہاتومیں سمجھ گیا کہ وہ کس کی طرف اشارہ کررہاتھا۔ میں نے اسے جواب نہیں دیااور خاموش رہا۔ میں سوچ رہاتھا کہ اب کھانا کھاکریہاں سے نکلیں اور کسی ڈیرے پربیٹھ کر یہ سوچیں کہ علاقے کے شہ زوروں ‘پہلوانوں اور ان لڑکوں کو اپنے ساتھ کیسے ملایاجائے جو کسی نہ کسی حوالے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ سارے ہی لوگ میرے ساتھ شامل نہیں ہوں گے لیکن جو ہوں گے وہ تو میری طاقت بنیں گے۔
میں ابھی اسی سوچ کا سرا پکڑ کر چل رہاتھا کہ باہر کسی جیپ کے رکنے کی آواز آئی۔ میں نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے کھڑکی میں سے دیکھا‘ باہر ڈی ایس پی کی جیپ رکی تھی۔ چھاکے نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھولا‘ باقی نفری باہر ہی رہی اور ڈی ایس پی اندر آگیا۔ اگلے چند لمحوں میں وہ پرسکون انداز میں بیٹھ گیا تو گویاہوا۔
”آج یہ نور نگر بہت بڑے فساد سے بچ گیا۔
ورنہ کتنی لاشیں گرتیں‘ یہ کوئی نہیں جانتاتھا۔“
”ڈی ایس پی صاحب! اگریہ حکمران لوگ انصاف پسندی سے ‘دیانت داری سے اپنے معاملات چلاتے رہیں تو کسی کو بھی ان کی دولت یاجائیداد سے کوئی دلچسپی نہیں‘ لیکن یہی لوگ جب انسان پرانسان کی حکمرانی کے نشے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں تو پھر ردعمل تو فطری بات ہے۔“
”تم ٹھیک کہتے ہو جمال…! مجھے یہاں آئے چند دن ہوئے ہیں۔
علاقے بھر میں میرے بارے میں یہی مشہور کیا گیا ہے کہ میں ان سرداروں کے ایماء پر یہاں آیا ہوں اورانہیں ہی تقویت دوں گا۔ ایسا نہیں ہی‘ یہ ذہن میں رکھنا۔ دوسرا میں نے یہاں آتے ہی یہاں کی امن وامان کی صورتحال کا بہت گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ یقین کرو اس میں‘ ان حالات کو خراب کرنے میں سردار شاہ دین سے زیادہ شاہ زیب کا ہاتھ ہے‘ میں مانتا ہوں اس بات کو…“ اس نے صاف گوئی سے کہا۔